نئے پاکستان میں سیاست دان چور اور لٹیرے بتائے جاتے ہیں اور آمروں کے دور کی خوشحالی کو یاد کر کے سرد آہ بھری جاتی ہے۔پرانے پاکستان میں کالا باغ ڈیم اورنظام مصطفی پر سیاست کی جاتی تھی تو نئے پاکستان میں انفراسٹرکچرکی تعمیر اور ذرائع آمد و رفت کی سہولیات میں عوام کوشامل کرنے کے عمل پر چار حرف بھیجنے کی سیاست عام ہے۔ پہلے MRD اور ARD بنائی جاتی تھیں اب JIT کا دور ہے۔ پرانے پاکستان میں سچ اشاروں کنایوں میں بولا جاتا تھا۔ اب جھوٹ ٹی وی کی سکرینوں پر دہڑلے سے بولا جاتا ہے۔ اس نئے پاکستان میں ایوان بالا کے سابق چیرمین جناب رضا ربانی نے میر حاصل بزنجو کی رحلت پر کہا ہے کہ ان جیسا ایمان دار سیاست دان پورے پاکستان میں نہیں ہو گا یہ منفرد قسم کا خراج تحسین ہے ۔
میر حاصل بزنجو ضیاء اور مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے۔ گرفتاریوں نے ان کا سیاسی قد اونچا کیا تو جیل نے متحمل مزاج مدبر بنانے میں کردار ادا کیا۔الیکٹڈ اور سیلیکٹڈ کی بحث میں الجھے اس معاشرے میں وہ جو دہیمے لہجے میں گہری بات کرنے کے ہنر سے آشنا تھے انھوں نے ایوان بالا میں تاریخی الفاظ کہے تھے
یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری طاقتیں پارلیمان سے زیادہ طاقتور ہیں ۔
جامعہ کراچی سے تعلیم یافتہ میر حاصل کے والد جناب غوث بخش بزنجو بلوچستان کے پہلے غیر فوجی گورنر اور آئین ساز کمیٹی کے رکن تھے تو ان کے دادا ریاست قلات کی سیاست کے روح رواں تھے ان کا عہدہ گورنر کے عہدے کے ہم پلہ تھا۔
میر حاصل بزنجو زیادہ صوبائی اور علاقائی خود مختاری کے حامی تھے۔ جناب عمران خان بھی اقتدار حاصل ہونے سے پہلے ایسی ہی خود مختاری کے علمبردار تھے اور پولیس تک کو میونسپل کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔جناب حاصل بزنجو مسلح مزاحمت کے مخالف اور سیاسی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے ان کی رحلت پر بجا طور پر کہا کہ دستور، پارلیمان اور جمہوریت کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار ایوان بالا کے ممبر منتخب ہونے والے میر حاصل بزنجو نے چیرمین کے انتخاب کے بعد کہا تھا آج مجھے پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے ان کی موت کے بعد کاش یہ شرم جمہوریت مخالف جتھوں کو آنا شروع ہو جو ملکی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج کا پیدا کرنے کا سبب ہیں۔
ان کے والد کی وسیع لاہبریری میں کارل مارکس اور لینن کی کتابوں کو دیکھ کر انھیں مارکس اور لینن کا پیروکار بتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عملی سیاست میں ان کو پیپلز پار ٹی کے قریب لانے میں کسی کتاب کا نہیں مگر شہید بی بی کا کردار تھا۔ بی بی کی شہادت کے بعد اس کردار کو جناب آصف علی زرداری نے نبھایا حقیقت مگر یہ ہے کہ نواز شریف کے مقناطیسی مزاج نے اس جمہوریت پسند کو اپنی طرف راغب کر لیا تھا۔ وہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے کے باوجود نواز شریف کے سیاسی اتحادی تھے۔
وہ پسماندہ طبقوں اور بے انصافی سے کچلے گئے عوام کی توانا آواز تھے۔ عدالت سے بالا بالا نظریاتی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے وہ ناقد، معلوم اور نا معلوم کے نام پر لوگوں کے پیاروں کو اپنوں سے جدا کر دینے کے مخالف اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظلومین کو طاقت سے کچلنے پر چپ نہ رہ سکنے والے انسان تھے۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ان کی سرشت میں تھا اور ظالموں کو گلہ تھا کہ وہ سردار ہو کر لکیر کے دوسری طرف کیوں کھڑے ہیں۔ میر حاصل بزنجو بلوچستان کے حسین شہید سہروردی تھے۔ جون ایلیاء نے شائد ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
|