اترپردیش کے راون راج میں پرشو رام کی ہلچل

اترپردیش کے اندر یوگی راج میں پہلے تو مسلمانوں اور برہمنوں کا برا حال تھا لیکن اب اس فہرست میں دلت بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر یوگی جی چاہتے کیا ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں چاہتے تو کیا حالات ان کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ یوم آزادی کے بعداترپردیش میں دو اندوہناک واقعات رونما ہوئے جن میں سے ایک میں 13 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا جس کا انسانی سماج میں تصور محال ہے۔ اس کے بعد ایک ایسے پردھان کو دن دہاڑے گھر سے بلاکر گولی ماردی گئی جس کے گاوں میں دلتوں کی تعداد دیگر لوگوں سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ قاتلوں نے کمال بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقتول کے گھر جاکر بتایا کہ کنویں کے پاس لاش پڑی ہے ۔ ایک اکثریتی علاقے کے گاوں کا پردھان اگراس قدر غیر محفوظ ہوتو دیگر علاقوں میں عام دلت کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایک زمانے میں اتر پردیش کی سیاست کے اندر مایاوتی کی قیادت میں دلت مسلم اور برہمن ایک ساتھ آگئے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ مایا وتی اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آگئیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ یوگی پھر ایک بار سیاسی ماحول کو نادانستہ اسی جانب دھکیل رہے ہیں لیکن مایاوتی کی غیر یقینی سیاست اس راہ کی رکاوٹ بنی ہے۔

اترپردیش کے اندر وکاس دوبے کے پولس کے بہیمانہ قتل نے یوگی کی دبنگ شبیہ کے پرخچے اڑا دیئے۔ اس لیے دوبئے کا انکاونٹر تو وزیر اعلیٰ کی سیاسی مجبوری تھی مگر اس سے قبل اپنی ساکھ بچانے کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ برہمن نوجوانوں کو فرضی مڈبھیڑ میں مار گرانا حماقت تھی ۔ اس سے برہمنوں کے اندر بے چینی کی زبردست لہر چل پڑی اور اس فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتیں میدان میں کود گئیں ۔ وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں کا حال مردہ خودرگدھ کی مانند ہوگیا ہے ۔ وہ مسائل کا انتظار کرتی ہیں اور انہیں حل کرنے کے بجائے اس کا فائدہ اٹھانے میں جٹ جاتی ہیں ۔ فی الحال کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے علاوہ سماجوادی پارٹی بھی انہیں رجھانے کے فراق میں ہے ۔ کانگریس نے تو سیدھے سیدھے برہمنوں کی ان دیکھی کی بات کرکے انہیں منظم کرنے کی کوشش شروع کردی جبکہ بی ایس پی اور ایس پی تو بالکل بی جے پی کے طرز پر رام کے خلاف پرشورام کا نعرہ بلند کرکے مذہبی جذبات کو ہوا دینے کی کوشش کررہی ہیں ۔ اس نئی کھینچا تانی میں کس کو کتنا فائدہ ہو گا اور بی جے پی کا کتنا نقصان ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

2007میں برہمنوں کا بی ایس پی کے ساتھ جانا ایک حیرت انگیز سیاسی تجربہ تھا اس لیے کہ کانشی رام نے ’تلک، ترازو اورتلوار، ان کو مارو جوتے چار‘ کا نعرہ لگاکر اپنی پارٹی کو کھڑاکیا تھا ۔ کانشی رام تو یہاں تک کہتے تھے کہ نام نہاد اونچی ذات کے لوگ اگر مجمع میں ہیں تو چلے جائیں اس کے باوجود آرزو مند برہمنوں نے اقتدار کی خاطر 2007 میں مایاوتی کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت سماجوادی پارٹی میں برہمنوں دال گلتی نہیں تھی اورکانگریس اور بی جے پی کے اندر ملائم کو ہرانے کا دم خم نہیں تھا ۔ بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ آنے کے لیے برہمنوں کو اپنے دل پر پتھر رکھ یہ نعرہ لگانا پڑا’پتھر رکھ لو چھاتی پر مہر لگاو ہاتھی پر ‘ اس سے بھی بات نہیں بنی تو یہاں تک کہہ دیا ’ہاتھی نہیں گنیش ہے ، برہما وشنو مہیش ہے‘۔ اس دوسرے نعرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اترپردیش کا ابن الوقت برہمن مذہبی تڑکے کے بغیر حمایت کے لیے آمادی نہیں ہوتا ۔ اسی لیے راجیوگاندھی نے رام مندر کا کارڈ کھیلا تھا اور اب مایاوتی انہیں بی جے پی سے بدظن کرنے کے لیے کبھی ’ منہ میں رام بغل میں چھری‘ کی بات کرتی ہیں تو کبھی پرشورام کی مالا جپتی ہیں ۔

وکاس دوبے انکاونٹر سے پہلے بھی 2018میں جب ایپل کمپنی کے افسر وویک تیواری کو دو پولس والوں نے مسلمان سمجھ کر ماردیا تھا توکےاس وقت بی ایس پی نے برہمنوں کو رجھانے کی کوشش تھی ۔ مایاوتی نے اسے ذات پات کا رنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یوگی کے اقتدار میں برہمنوں پر ظلم بڑھا ہے۔ یوپی میں بہوجن سماج پارٹی کا عروج و زوال مسلمانوں اور برہمنوں کی حمایت سے وابستہ رہا ہے کیونکہ وہ اکیلے دلتوں کی مدد سے انتخاب نہیں جیت سکتیاور دیگر پسماندہ طبقات اس کی جانب راغب نہیں ہوتے۔ 2007میں جب بی ایس پی نے سب سے بڑی کامیابی درج کرائی تھی اس وقت 51برہمن امیدواروں میں 20کامیاب ہوئے تھے لیکن 2012 میں جب وہ اقتدار سے بے دخل ہوئی تو 51 میں سے صرف 7 کامیاب ہوئے تھے۔ 2017 میں حالت اور بھی خراب ہوگئی ۔ بی ایس پی کے 52میں سے صرف 4 کو کامیابی ملی کیونکہ برہمن پوری طرح بی جے پی کی آغوش میں جاچکے تھے ۔

مایا وتی نے مذکورہ بالا انتخابات میں برہمنوں سے زیادہ مسلمانوں کو اہمیت دیتھی لیکن وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جب مایا وتی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حمایت کرنے عظیم ترین غلطی کی تومسلمانوں کا اعتماد ہاتھی کے اوپر سے اٹھ گیا ۔ اقتدار میں آنے سے قبل جن 61مسلمانوں کوپارٹی نے ٹکٹ دیا ان میں29 کامیاب ہوئے تھے ۔ اس کے بعد مایا وتی نے 85 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے لیکن مسلمان رائے دہندگان ان سے پیٹھ پھیر کر اکھلیش کی طرف چلے گئے اور بی ایس پی کے صرف 15 مسلمان کامیاب ہوسکے ۔ 2017 میں امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 100 پر پہنچ گئی لیکن ان میں سے صرف 5 کامیاب ہوے ۔ مایا وتی کو احساس ہوگیا کہ اب مسلمان جھانسے میں نہیں آرہے ہیں تو انہوں نے برہمنوں کو اہمیت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس رحجان کی کئی علامات ظاہر ہوچکی ہیں مثلاً انہوں نے 2019 کے بعد لوک سبھا (ایوانِ زیریں ) میں پارٹی کے لیڈر کنور دانش علی کو ہٹاکر ان کی جگہ رتیش پانڈے نامی برہمن کو لایا گیا ہے۔ ویسے راجیہ سبھا یعنی ایوان بالہ میں بی ایس پی کی کمان پہلے ہی ایس سی مشرا نامی برہمن کے ہاتھوں میں ہے۔

بی ایس پی میں ان اہم عہدوں پر برہمن چہروں کو دیکھ کر کانشی رام کی آتما ماتم کررہی ہوگی لیکن انتخابی سیاست میں ایسی مصالحت تو کرنی ہی پڑتی ہے ۔ بی جے پی نے بھی تو پسماندہ ذات کے نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے برداشت کرہی لیا ہے۔ وزیر داخلہ کا اہم عہدہ بھی ایک جین بنیا کے پاس ہے جو آئین کے مطابق غیرہندو ہے جبکہ دھرم شاتر کے لحاظ سے اسے تجارت و معیشت کے پیشے میں رہنا چاہیے۔ ویسے مایا وتی نے توازن برقرار رکھنے کے لیے دہلی کے اندر برہمنوں کو لگا دیا تاکہ بی جے پی سرکار کے ساتھ تال میل رکھ کر خطرات کو روکا جاسکے لیکن اتر پردیش کی صدارت بابو منقعد علی کے پاس ہی رکھی ہے حالانکہمایاوتی کے ہوتے یوپی میں صوبائی صدر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ رام مندر پر مایا وتی کے بیان نے بھی مسلمانوں کو ان سے ناراض ہی کیا ہے۔ وکاس دوبے اور اس کے ساتھیوں کی فرضی مڈبھیڑ کے بعد مایا وتی اب برہمنوں کے تئیں پر امید ہیں ۔ انہوں نے برہمن سماج سے ہمدردی جتاتے ہوئے ان کے اندرسے خوف و دہشت دور کرکے اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا ہے۔

اتر پردیش ویسے ہی ایک پسماندہ ریاست ہے ۔ کورونا کی وبا کے دوران سب سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن مزدوروں کا اترپردیش لوٹنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں پر روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں۔ یہ لوگ ہندوستان کے ترقی یافتہ شہروں میں کام کرچکے ہیں جہاں مزدوروں کی فلاح وبہبود کا بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں یوگی جی نے ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے اور سرمایہ داروں کا خوش کرنے کی خاطر محنت کشوں کوحاصل تحفظات و سہولیا ت ختم کردیں ۔ ایسے میں وہ مزدور پھر سے اپنے پرانے مقامات کی جانب لوٹ جائیں گے ۔ اس طرح یہ صوبہ جو کسی زمانے میں مختلف صنعتوں کے لیے مشہور تھا پھر سے پچھڑ جائے گا۔ وہاں مندرتو بنے گا اورمجسمہ بھی لگے گا مگرعوام کا پیٹ نہیں بھرے گا ۔ عوام روٹی مانگنے کے لیے نکلیں گے تو انہیں یوگی جی گولی کھلا کر سلا دیں گے ۔ ذات پات کی بنیاد پر مختلف طبقات کو علامتی خوشی سے نواز کر ان کا خوب جذباتی استحصال کیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے ۲۴ کروڈ کی آبادی والی یہ ریاست اگر اسی طرح پسماندہ رہے گی تو یہ ملک کیسے ترقی کیسے کرسکے گا؟ بلا شبہ رام اور پرشورام کی سیاست اترپردیش کا ’رام نام ستیہ ‘ کردے گی ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1230409 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.