جب بھی ملک میں فرقہ وارانہ تشددبرپا ہوتے ہیں تو اقلیت
ہی موردِ الزام ٹہرائے جاتے ہیں ۔ یہ آج کل کی بات نہیں بلکہ تاریخ گواہ
ہے کہ اقلیتوںنے جب جب انصاف کیلئے آواز اٹھائی اس وقت انہیں ظلم کا
شکاربنایا گیا، جب یہ فرقہ وارانہ تشدد ختم ہوجاتے ہیں توعام طور پر
عمائدین ، رہبران اور دیگر تنظیمیں مظلوم اقلیتوں کی تائید میں کھڑے ہوجاتے
ہیں اورانہیں انصاف دلانے کیلئے جدوجہد شروع کرتے ہیں لیکن آئے دن حالات
بدلتے جارہے ہیں ۔ ہر معاملے میں سیاسی رنگ دکھائی دینے لگا ہے۔ کوئی خدمت
کے جذبے کو عام کرنا نہیں چاہتا بلکہ مصلحت کو بنیاد بناکر اپنی اپنی
روٹیاں سینکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ملت اسلامیہ کے
مسائل کو سیاسی مدعہ بناکر ملت کے ساتھ کھلواڑ کیا جائےگا؟۔ یقیناًآج ملت
اسلامیہ مسائل میں جوج رہی ہے اور اس بات کی امید کررہی ہے کہ کوئی آئیگا
اورہمیں ان مسائل سے دور لے جائیگا، لیکن سب کچھ الٹاہورہا ہے ۔ جن گھروں
کے بچے فسادات میں ہلاک ہوجاتے ہیں ان گھروں کے حالات کا جائزہ لینے
والاکوئی نہیں ہے۔ جو بے قصور نوجوان جیلوں میں بھرے جارہے ہیں ان مدعوں پر
آواز اٹھانا پس پردہ ہوگیا ہےاور ظالموں وفاسدوں کے نقصانات کی بھرپائی
کرنے کیلئے دعوے کئے جارہے ہیں۔ یہاں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ ہم مظلوم
بھی ہوں، زخم بھی کھائیں اوراپنے زخموں پر مرہم لگا نے کے بجائے ظالم کے
زخم کی مرہم پٹی کرنے کیلئے کمر بستہ ہوجائیں۔ جب یہ سوالات پوچھے جاتے ہیں
تو سوال پوچھنے والاہی سوالات کے دائرے میں آجاتا ہے اوریہ کہا جاتا ہے کہ
اہل علم ودانشوروں سے کیسے سوال کیا جاسکتا ہے، اہل علم تو پیغمبر وں کی
میراث ہیں اوران پر سوالات اٹھانے کی وجہ سے ہی آج امت زوال پذیر ہورہی ہے۔
یقیناً امت پر آج اللہ کا عذاب نازل ہورہا ہے، یہ عذاب صرف علماء واہل علم
پر سوالات اٹھانے سے ہی نہیں بلکہ ظالم ومظلوم کی شناخت نہ کرنے سے بھی
دنیا پر چھانے لگا ہے۔ آج ہم مصلحت کے نام پر ظالم کو بھی اپنا دوست ماننے
لگے ہیں۔ لیکن کیا ہم امت مسلمہ نے سورۂ توبہ اورسورۂ منافقون سے یہ سبق
نہیں لیا کہ کون کون مسلمانوں کے دوست ہوسکتے ہیں اورکون مسلمانوں کے
دشمن،دشمنوں وفاسدوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جانا چاہئے یہ بھی اللہ
نے قرآن پاک میں ظاہر کردیا ہے۔ تو ان حالات میں کیسے مسلمان غیروں سے ظلم
جھیلنے کے باوجود اپنے دفاع کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھارہے ہیں۔ کہا جاتا
ہے کہ مصلحت اور حکمت کی بنیاد پر ہمیں سب کے ساتھ مل جھل کر رہنا چاہئے
اورظالم کو ہونے والے نقصان کی بھرپائی کیلئے قدم اٹھانا بھی نیکی ہے۔ جی
ہاں ! یہ نیکی اس وقت ہوسکتی ہے جب ظالم کے ساتھ ساتھ مظلوموں کیلئے بھی
برابر کے ذرائع فراہم کئے جائیں ۔ ایک طرف مظلوموں کو جیلوں میں ٹھونسا
جارہا ہے تو دوسری طرف ظالم کی مزاج پرسی کی جارہی ہے، ایک طرف ظالم کے جلے
ہوئے مکانات کی پیش کش کی جارہی ہے تو دوسری طرف مظلوم کو راحت دینے کیلئے
بھی سوچا جارہا ہے۔ حالانکہ ظالم استطاعت رکھتا ہے کہ وہ اپنے نقصان کی
بھرپائی خود کرلے لیکن ہمارے لوگ اس میں بھی پبلسٹی حاصل کرنے کیلئے دوڑے
جارہے ہیں ۔ یہ کونسا انصاف ہے یہ کونسی مصلحت ہے؟
|