آپ کسی امریکی جاسوس کو جانتے ہیں؟

 وہ عرصہ دراز کے بعد مجھے سر راہ مل گیا۔ میں نے اسے چائے کی پیشکش کی جسے اس نے تھوڑے سے تردد کے بعد قبول کرلیا چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ اپنے آفس میں لے آیا۔ جہاں تک مجھے یاد تھا، اس سے میری آخری ملاقات تقریباً چار سال پہلے ہوئی تھی۔ کسی جاننے والے نے ایک کیس کے سلسلہ میں اسے میری طرف ریفر کیا تھا، کیس تو ختم ہوگیا لیکن وہ گپ شپ کے لئے کبھی کبھار میرے آفس آکر مجھے ملنے لگا۔ میں نے اس کے خیالات ہمیشہ مثبت محسوس کئے۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتا تھا اور اپنے حالات سے کافی حد تک مطمئن بھی تھا، اس وقت شائد اس کے دو بچے تھے۔ بعض اوقات جب وہ دو تین ماہ کی غیر حاضری کرتا تھا اور ملاقات نہیں ہوتی تھی تو میں خود اسے فون کرکے ملنے کا کہا کرتا تھا، کوئی چار سال قبل میرا موبائل فون گم ہوگیا اور ساتھ ہی بہت سے فون نمبروں کے ساتھ اس کا نمبر بھی میرے ریکارڈ میں نہ رہا اور آج تقریباً چار سال بعد وہ اچانک مجھے ایک بازار میں مل گیا۔ چائے پینے کے بعد میں نے اس سے حال احوال پوچھا لیکن اس نے جواب دینے کی بجائے الٹا مجھ سے سوال کیا ”کیا آپ کسی امریکی جاسوس کو جانتے ہیں؟“میں نے حیران ہوکر اس کی جانب دیکھا اور کہا اس سوال کی وجہ؟وہ کہنے لگا ”میرے بڑے بیٹے کی سکول کی فیس ابھی تک ادا نہیں ہوئی، اگر مزید چار پانچ روز لگ گئے تو اس کو سکول سے نکال دیا جائے گا“ میں نے مزید حیران ہوکر اس کی جانب دیکھا اور کہا، بھائی صاحب! آپ کس طرح کی بے سروپا باتیں کررہے ہیں؟ اس نے پھر وہی سوال دہرایا کہ کیا آپ کسی امریکی جاسوس کو جانتے ہیں؟ میں یہ سمجھا کہ شائد آج کل حالات کی وجہ سے اس کے دماغ پر اثرات ہوچکے ہیں، میں نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ کہنے لگا ”میری بیوی آجکل شدید بیمار ہے، اس کا علاج چل رہا ہے، جتنی تنخواہ ملتی ہے وہ علاج میں چلی جاتی ہے، گھر میں بعض اوقات فاقوں کی نوبت آجاتی ہے، بیگم کئی مرتبہ علاج سے انکار کرچکی ہے بلکہ ایک مرتبہ تو خودکشی کی کوشش بھی کرچکی ہے، بہت مشکل صورتحال ہے، لیکن آپ نے ابھی تک بتایا نہیں، کیا آپ کسی امریکی جاسوس کو جانتے ہیں؟“

بڑی حیران کن صورتحال تھی، کہ وہ اپنے ہر مسئلے کو بیان کرکے یہ سوال ضرور پوچھتا تھا کہ ”آپ کسی امریکی جاسوس کو جانتے ہیں“، میں نے پھر اس کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ہماری حکومت میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو پاکستان سے زیادہ امریکہ کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں لیکن انہیں ”جاسوس “سے زیادہ ”ایجنٹ“ کہنا مناسب ہوگا، کہنے لگا کہ نہیں ”میں کسی ایسے آدمی کی تلاش میں ہوں جو امریکہ کے لئے باقاعدہ جاسوسی کرتا ہو اور ہو بھی امریکی شہری“ اب میں نے مزید سوال کرنے کی بجائے صرف گھور کر اور غصے سے اس کی طرف دیکھنے پر اکتفا کیا، وہ میرے غصے سے ذرا بھی متاثر اور پریشان ہوئے بغیر دوبارہ گویا ہوا ”فیضی صاحب! میں جس کمپنی میں کام کرر رہا ہوں وہاں آجکل ڈاﺅن سائزنگ کی تیاریاں ہورہی ہیں، میں نے چونکہ آج تک کسی کی جی حضوری نہیں کی اس لئے مجھے یقین ہے کہ نکالے جانے والے ملازمین کی فہرست میں میرا نام سب سے پہلے آئے گا، میں آج تک یہی سوچتا رہا کہ بچوں کی تعلیم اچھی ہوجائے اور ساتھ میں تربیت ایسی ہو کہ وہ معاشرے کے اچھے اور فعال کردار بن جائیں، چنانچہ میں نے کبھی پیسے جوڑنے کی کوشش نہیں کی اور جب بچت کے بارے میں سوچا بھی تو مہنگائی ایسی کمر توڑ ہے کہ اپنی اس سوچ پر کوئی عمل ہی نہ کرسکا“ سانس لیکر دوبارہ اس نے وہی سوال دہرایا ”کیا آپ کسی امریکی جاسوس کو جانتے ہیں“مجھے لگا کہ یہ بندہ آج میرے دماغ کا فیوز بھی اڑا دے گا، جب اس نے میرے چہرے پر زیادہ غصے کے آثار دیکھے تو کہنے لگا ”پلیز ناراض مت ہوں، بس میری مدد کردیں ، آپ تو ہر طرح کے لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں، کسی بھی طریقے ، کسی سے پوچھ کر میری ملاقات کسی امریکی جاسوس سے کرا دیں بلکہ اگر وہ بلیک واٹر کا کوئی دہشت گرد ہو تو زیادہ بہتر ہے“ میں نے کہا بھائی! میں تو کسی ایسے بندے کو نہیں جانتا خصوصاً جو امریکی بھی ہو اور جاسوس بھی اور پھر بلیک واٹر سے تعلق رکھتا ہو۔ زیادہ غمگین صورت بناکر کہنے لگا ”چھوٹی بیٹی کے پاس ایک ہی یونیفارم ہے جو روز سکول سے واپس آکر دھوئی جاتی ہے اور اگلے روز پہنی جاتی ہے، اب اس نے کہہ دیا ہے کہ اگر اس کو نئی یونیفارم لیکر نہ دی گئی تو وہ سکول نہیں جائے گی، اسی طرح بیٹے کے سکول شوز کی بھی یہی حالت ہے، جتنی تنخواہ ہے اس میں پہلے گذارہ ہو جاتا تھا لیکن جب سے جمہوری حکومت کے دور میں قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے تب سے آمدن اور اخراجات کا تناسب بالکل ہی عدم توازن کا شکار ہوچکا ہے اور باقی کسر بیوی کی بیماری نے پوری کردی ہے، ماں باپ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، بھائیوں سے تین چار لاکھ روپے قرض لے چکا ہوں اور مزید مانگنے کی ہمت نہیں ہوتی، سفید پوشی کا بھرم قائم ہے لیکن کب تک ایسا ہوگا، کسی کے آگے ہاتھ پھیلا نہیں سکتا کہ اللہ کو کیا جواب دوں گا؟ لیکن آپ تھوڑی کوشش تو کریں اور مجھے کسی امریکی جاسوس سے ملوا دیں“ میں اس کی باتیں سن کر رنجیدہ بھی تھا اور پریشان بھی لیکن امریکی جاسوس کی تکرار سے جنجھلاہٹ کا شکار بھی ہوچکا تھا۔ بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ تمہاری ساری پریشانیاں اور مسائل اپنی جگہ لیکن بار بار امریکی جاسوس کا کیوں پوچھ رہے ہو، کسی بھی امریکی جاسوس کا تمہارے مسائل اور پریشانیوں سے کیا واسطہ؟
 
کہنے لگا ”میں سوچ بچار کے بعد بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر کوئی امریکی جاسوس مجھے مل جائے تو میں اس سے راہ و رسم بڑھا لوں، جب اس سے کچھ مراسم بڑھ جائیں تو میرا پروگرام ہے کہ کسی دن کسی پبلک پلیس پر اچانک کھلونا پستول لے کر اس پر تان لوں، ظاہر ہے وہ یہی سمجھے گا کہ میں اس کو مارنے والا ہوں اور جواباً وہ مجھے جان سے مار دے گا، پھر وہ وہاں سے بھاگے گا لیکن پبلک پلیس ہونے کی وجہ سے لوگ اس کو پکڑ لیں گے یا پولیس، پھر یہ ہوگا کہ امریکہ اس کو کسی بھی طرح واپس حاصل کرلے گا، آجکل کیونکہ عدالتیں اور میڈیا آزاد ہیں اس لئے مجھے پورا یقین ہے کہ امریکہ اس کو تبھی واپس لے جا پائے گا جب میرے گھر والوں کو خون بہا مل جائے گا، چاہے وہ امریکہ دے، مرکزی حکومت، صوبائی حکومت یا فوج۔ فیضان اور فہیم کے گھر والوں کی طرح میرے گھر والوں کو دس دس کروڑ نہ سہی، دو تین کروڑ تو مل ہی جائیں گے، میں تو ویسے بھی پریشانیوں سے مرررہا ہوں، چلو جاتے جاتے اپنے بیوی بچوں کے کام ہی آجاﺅں، بس آپ مجھے جلدی سے کسی امریکی جاسوس سے ملوا دیں“!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207457 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.