بیوقوف ہے وہ جو اس سے ایسی آزادی کی امید
رکھتے ہے، وہ تو بہادر شیر کی مانند ہے، شجاعت کا مظہر، جس کے اصول ہی اس
کی پہچان ہے. ڈرنا، دبنا اور جھکنا جیسے الفاظوں کا اطلاق اس پر ہوتا ہی
نہیں, وہ تو آج بھی اپنی بنیاد سے جڑا اور نظریے کا علم بلند کئے کھڑا ہے،
کتنے طوفان، کتنی مصیبتیں، کتنی مشکلیں، کتنی تکلیفیں اور کتنے حوصلہ شکن
حالات کا سامنا اسے کرنا پڑا لیکن اس فرزند قوم کے قدم نہیں ڈگمگائے. کتنے
با وفا شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہو گئے اور کتنے بیچ منجھدار میں ہی بے
وفائی کر گئے لیکن وہ آج بھی اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں.
اگر ایسی آزادی ہی اسے قبول کرنا ہوتی تو اس کے پاس مواقع کم نہیں تھے، کون
سی ایسی پیشکش تھی جو اسے نہیں کی گئی؟ اسے خریدنے والے ہمیشہ نامراد ہی
واپس لوٹے، ہر شے کو بکاؤ سمجھنے والوں کو مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑا، ہر
آفر اور ہر پیشکش کو اس نے جوتے کی نوک پر رکھا کیوں کہ اس کو ایسی آزادی
منظور نہیں جس سے اسے ضمیر کا قیدی بننا پڑے، اسے ایسی آزاد فضاؤں کی چاہ
نہیں جس کی خاطر اسے مہاجر یتیموں کی صداؤں، مہاجر بیواؤں کی دلخراش چیخوں
اور مہاجر شہدا کے بوڑھے والدین کی سسکاریوں سے لاتعلقی اختیار کرنا پڑے،
اسے ایسی آزاد دھرتی کی خواھش کبھی نہیں رہی جسے حاصل کرنے کے لئے اسے
مہاجر شہدا کا عظیم لہو پیروں تلے روندنا پڑے، وہ تو ایک مقصد کا پاسباں ہے
جس سے کروڑوں امیدیں وابستہ ہے اور اس نے اپنے آپ کو ہر امید کا امین ثابت
کیا ہے. اسے منظور ہے جیل کی سلاخیں جو اس کی ہمّت کو اور بھی پختہ کرتی ہے،
اسے قبول ہے زنداں کی وہ صعوبتیں جو اس کے حوصلے اور عزم میں اضافہ کرتی ہے،
اسے منظور ہے قید تنہائی کی اندھیری راتیں جو ایک نئی اور عظیم و کامیاب
سحر کی نوید کی پیش خیمہ ثابت ہونگی.
مہاجر قوم پر الله کا خاص احسان ہے کے جس نے مہاجروں کو ہر آزمائش پر پورا
اترنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، کوئی شک نہیں کہ ان آزمائشوں کا طویل ہوتا
دورانیہ اپنوں کی بیوفایئ اور غدّاری ہی کے سبب ہے لیکن آج مہاجروں کو اس
بات کا اندازہ ہو جانا چاہیے کے الله تبارک و تعالیٰ مہاجروں کو تطہیر کے
عمل سے گزار رہا ہے، الله نے ایک طویل عمل تطہیر سے مہاجروں کو گزار کر
تمام مفاد پرستوں اور شکم پرست غداروں کو ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے .
مستقبل کا مورخ تاریخ لکھتے ہوے مجبور ہوگا کے جب کبھی مہاجروں کی داستان
لکھے تو بس یہی لکھے کے اگر کوئی مہاجر حقوق کا علمبردار تھا تو آفاق احمد
تھا، اگر کسی نے مہاجروں کی شناخت کو قائم رکھا تو آفاق احمد نے رکھا، اگر
کسی نے مہاجروں کو زمانے کی گردشوں سے بچا کر مستحکم رکھا تو آفاق احمد نے
رکھا، اگر آج مہاجر دنیا میں سر اٹھا کے چلتا ہے تو آفاق احمد کی وجہ سے،
اگر مہاجروں کا کوئی مسیحا تھا تو وہ آفاق احمد تھا اور اگر مہاجروں نے
کبھی کوئی لیڈر پیدا کیا تو بس وہ آفاق احمد ہے. تاریخ میں لوگ نبوت کا،
ربوبیت کا، مہدیت کا، ولایت کا اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تو کرتے رہے
لیکن کسی نے حسین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا کیوں کہ حسین بننے کے لئے سب کچھ
قربان کرنا پڑتا ہے، حق کے لئے سب کچھ لٹانا پڑتا ہے اور یہ بس حسین سے ہی
ممکن تھا، اسی طرح تاریخ میں قائد ملّت، قائد تحریک، قائد عوام جیسے اور
شاید قائد اعظم ہونے کے دعویدار تو بہت سامنے آئے لیکن یہ تو حتمی ہے کہ
کوئی آفاق احمد ہونے کا دعویدار سامنے نہیں آئے گا کیوں کہ آفاق احمد بننے
کے لئے بلند کردار، بلند حوصلہ، دھن کا پکّا، با ہمّت اور قوم کا وفادار
بننا پڑتا ہے جو کہ صرف آفاق احمد کا ہی خاصہ ہے. خدا کا شکر ہے کہ مہاجروں
کے نام پر سیاست کرنے والے اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھا پائے اور خود
ہی اس ذمہ داری سے تائب ہو گئے بلکہ راه فرار اختیار کر گئے. الله کا شکر
ہے کہ مہاجروں کی آواز اگر کوئی ہے تو مہاجر قومی مومنٹ پاکستان ہے،
مہاجروں کی اگر کوئی شناخت ہے تو مہاجر قومی مومنٹ پاکستان ہے جو آج بھی
روز اول کی طرح پر امن جدوجہد میں مصروف ہے. یہ ریاستی تشدّد، وحشیانہ سلوک،
حقوق کی پامالی، ہر روز اٹھتے جنازے، اجڑتے گھرانے اب جلد ہی قصّہ پارینہ
بننے والے ہے، میڈیا کا غیر جانبدار روّیہ اور عدلیہ کی غفلت بھی اب نا
گزیرتبدیلی کو نہ روک پائے گی، ظلم کی یہ طویل رات اب ختم ہی ہونے کو آئی
ہے، وقت دور نہیں کہ حقوق کی آزادی کا سورج طلوع ہی ہونے والا ہے. ضرورت ہے
تو اتحاد کی اور اپنی صفوں کو متحد رکھنے کی. اس منظّم اور پر امن تحریک کی
منزل اب بہت زیادہ دور نہیں، جلد ہی مہاجر شہدا کا لہو اور مہاجر قوم کا
صبر رنگ لائے گا اور جئیے مہاجر اور جئیے آفاق احمد کا نعرہ گلی گلی گونجے
گا. آفاق احمد نے ہر آزمائش کا مردانہ وار مقابلہ کر کے اور ہر مشکل کا
بہادری سے سامنا کر کے اپنے آپ کو قوم کا قابل فخر سپوت ثابت کیا ہے اور
مہاجر دشمنوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ "نہ منہ چھپا کے جئیے ہم نہ سر جھکا
کے جئیے ، ستمگروں کی نظر سے نظر ملا کے جئیے، اب ایک رات اگر کم جئیے تو
کم ہی سہی، یہی بہت ہے کے ہم مشعلیں جلا کے جئیے". |