کپتان کی حکمرانی کے دو سال(18اگست2018ء ۔ 18 اگست2019)
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کپتان کی حکمرانی کے دو سال(18اگست2018ء ۔ 18 اگست2019) ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ایوان اقتدار سے جنرل پرویز مشرف کے رخصت ہوجانے کے بعد پاکستان میں دوجماعتوں کی حکمرانی یکے بعد دیگرے رواں دواں رہی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) باریاں لے رہی تھیں ۔ تیسری سیاسی قوت ایک بھی ایسی نہیں تھی جس کے بارے میں خیال کیا جاسکتا تھا کہ وہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے بت کو توڑ سکے گی ۔ عمران خان نے 22سال سے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے ، لیکن عام رائے یہی تھی کہ عمران خان سابقہ الیکشن میں ایک سے لی تھی اس بار وہ دس سیٹیں لے لے گا ۔ لیکن تمام اندازے غلط ثابت ہوئے،2018 ء کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کو اقتدار ملا اورکپتان نے 18 اگست 2018 ء کو وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھایا ۔ یہ کیسے ہوا، چند جماعتوں کے اشتراک سے عمران خان پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا، کچھ نے اسے سلیکٹڈ کہا، کسی نے دھاندلی زدہ، کسی نے کچھ لیکن سچ اور زمینی حقیقت یہی تھی کہ کپتان پاکستان کا وزیر اعظم بنا اوراس کے اقتدار کو 18 اگست 2020ء کو دو سال مکمل ہوئے ۔ اب عمران کی سیاسی عمر 24 سال پر محیط ہے ۔ پاکستان کے سیاست دان جو سابقہ کئی سالوں سے اقتدار میں تھے یا اقتدار میں جذوی طور پر شریک تھے نے عمران خان کو کوئی وقعت نہ دی، ان کا خیال تھا کہ کرکٹ کے میدان میں بونڈری کھیلنے والا، اپنی بالنگ سے منجھے ہوئے بیٹسمین کو پویلین واپس توبھیج سکتا ہے ، سیاست کے میدان میں اس کا کامیاب ہونا تو دور کی بات وہ بہت جلد سیاسی فیلڈ میں رہنے کے بعد کلین بولڈ ہوکر واپس پویلین لوٹ جائے گا ۔ کپتان میں عوامی لیڈروالی بو باس نہیں تھی، کرکٹ کھیلنے کے زمانے ہی میں وہ رُوڈ (مغرور)، ، انگریز اسٹائل ، بعض نے پراوَڈ بھی کہا ، ہینڈ سم، خوبصورت، طویل قامت، گڈ لکنگ تھا اس وجہ سے اس کی نجی لاءف میں اسکینڈل بھی بنے، اس نے ان تمام کی پروا نہیں کی بس میدان سیاست میں بانڈری کھیلتا رہا ۔ وہ تنہا تھا اس کے ساتھ کوئی نامی گرامی سیاسی شخصیات بھی نہ تھیں ، بس اکیلا ہی سیاست کرتا رہا ۔ مجروح سلطان پوری کا یہ شعر اس پر صادق آتا ہے ۔
میں اکیلا ہی چَلا تھا جَانب مَنزل ، مگر لوگ سَاتھ آتے گئے اور کاروَاں بَنتا گیا
یہاں اسے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں سے واسطہ پڑنا ہی تھا ۔ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لایا بس اپنے بیانیے پرجما رہا ۔ بیانیہ کیا تھا ، احتساب کرونگا، کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا، اس بیانیے میں جان تھی، لوگ عمران خان کے ساتھ نہ تھے لیکن اس کے بیانیے کے ساتھ تھے، اس نے ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو للکارا، زرداری کو پھنکارا ، باقی تو تھے ہی چھٹ بھیے ان کو تو خاطر میں ہی نہ لایا ۔ اس نے تو شیخ رشید کے بارے میں بھی کہا تھا کہ وہ ’’اسے تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ‘‘ ، وہی چپڑاسی اب عمران خان کا قریبی وزیر ہے، لیکن ساباش ہے شیخ صاحب پر انہوں نے عمران کی اس بات کو درگزرکیا ، یہ خوبی بھی شیخ کی ہے کہ اس نے مسلم لیگ کے پرچم کو تھام کر عمرن کی چھتری تلے ٹھسے سے سیاست کررہا ہے ۔ عمران خان کنٹینر پر سوار ہوا، ملک کی دولت لوٹنے والوں کو للکار ا، سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہان کو خوب گھسیٹا، برا بھلا کہا، اس کا بیانیہ ہی یہ تھا کہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کو کٹہرے میں لائے گا، بیرون ملک دولت منتقل کرنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالے گا، دولت واپس لائے گا، احتساب کرے گا ۔ اس کا یہ بیانیہ لوگوں کو اس کی جانب کھینچ رہا تھا، نوجوان اس کی باتوں سے خوش ہورہے تھے، ایوان اقتدار میں اس کی آوازیں سنی جارہی تھیں ،آخر کار 2018 کے انتخابات میں واضح برتری تونہ ملی البتہ اقتدار اس کی جھولی میں آن گرا، کیسے یہ کہانی سب جانتے ہیں ،ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت یعنی پنجاب کی حکمرانی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اتحادیوں کے تعاون سے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ سندھ میں جئے بھٹو کا پرچم بلند ہی رہا ۔ سابق آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی بر سر اقتدار رہی لیکن تحریرک انصاف کو اہل کراچی نے آنکھوں پر بیٹھایا، خوش آمدید کہا اور اس کے حصے میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی سیٹیں کوئی 14آئیں ۔
کپتان کی حکمرانی کا پہلا سال روتے پیٹتے گزرا، کچھ کوحکومت سے نکالا، کچھ کو شامل کیا، کچھ کو باہر سے درآمد کرنا پڑا ۔ اس لیے کہ اس کی ٹیم جو منتخب ہوکر آئی تھی ، حکومتی نظام چلانے میں ماہر، مستعد، ہنر مند،تجربہ کار اورقابل نہ تھی ۔ جس کے نتیجے میں ملک میں استحکام نہ آسکا ۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ کپتان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے تجربہ کارٹیم نہیں تھی ۔ باتوں سے کب تک کام چلایا جاتا ۔ معاشی عدم استحکام نے حکومت کی خوب خبر لی، بیرونی و اندرونی قرضے ، مہنگائی نے حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ۔ سیاسی طور پر بھی مخالفین نے کپتان کو چین نہ لینے دیا، میاں نواز شریف کا نہ اہل ہونا پھر جیل سے لندن جانا،شہباز شریف کا لندن سے واپس وطن آنا اپنی جگہ ،عالمی وبا کوروناوائرس جس سے پوری دنیا میں 8 لاکھ سے زائد اموات ہوئیں نے رہی سہی کثر پوری کردی ۔ حکومت کی تمام تر توجہ ترقیاتی کاموں سے ، انتظامی امور کو سہارا دینے کے بجائے کورونا سے نمٹنے میں لگ گئی، اسی دوران ٹڈی دل حملہ (مئی ، جون ) ہوا ، کشمیر پار بھارت کی دراندازی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم یعنی حکومت کوبیرونی محاظ کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار سے بھی نمٹنا پڑا ان میں چینی کا بھران ،آٹا اسکینڈل،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی برطرفی ،اسد عمر کی برطرفی اور واپسی،جہانگیر خان ترین کا چینی اسکینڈل میں کپتان سے دور ہوجانا،کراچی میں پی آئی اے کا طیارہ حادثہ سو سے زیادہ افراد کا جاں بحق ہونا، پی آئی اے کے معاملات، اسٹیل مل کی صورت حال اور دیگر مسائل سے حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ۔
خارجہ امور میں البتہ عمران خان کی پالیسی کو مثبت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر ، امریکہ کے دورے، ٹرمپ سے ملاقات ، ایران اور سعودی عرب ، افغانستان کے حوالے سے جو امور سامنے آئے انہیں قابل تعریف نہ سہی لیکن خوش آئند قرار دیا سکتا ہے ۔ اسرائیل کے حوالے سے بیان اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حکومت کو ملک میں اپنی حکمرانی کے مثبت اقدامات کرنا ضروری تھے جو وہ نہیں کرسکی ۔ سب سے اہم مہنگائی جس میں روز مرہ کی اشیاء کا آسمان سے باتیں کرنا اور حکومت کا بے بس نظر آنا ، بجلی اور لوڈ شیڈنگ، کراچی کے مسائل ، سندھ حکومت سے مارا ماری، مخالفین کے ساتھ ظاہر ی طور پر سخت رویہ اختیار رکھنا لیکن منتخب ایوانوں میں حکومت نے جو بل پاس کرانا چاہا کرالیا، سراج الحق یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ’ تحریک انصاف کے پیش کردہ بل پیپلز پارٹی اور نون لیگ پاس کرواتی رہیں ، یہ ایک ہی استعماری نظام کی پیداوار ہیں ‘ ۔ چیرَ مین قومی اسمبلی ، چیرَمین سینٹ کے انتخابات میں حکومت کی فتح، اپوزیشن کی ناکامی جیسے امور سوچنے پر مجبور کرتے رہے کہ واقعی حزب اختلاف ایک پیج پر ہے جو کہ نہیں تھیں ، بڑی جماعتوں نے چھوٹی جماعتوں کے ایجنڈے کا ساتھ نہیں دیا،فضل الرحمن کا دھرنا م ، پھر اس کی ناکامی جیسے معاملات نے عمران کے مخالفین کوئی مضبوط تحریک شروع کرنے میں ناکام رہے ۔ مخالفین کی پیشیاں اور جیل کی ہوا جیسے اقدامات حکومت کے لیے مشکلات ہی پیدا کرتی رہیں ۔ دو سال کے تمام امور کا احاطہ ایک کالم میں ممکن نہیں مختصر الفاظ میں یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی ذات ، اس کے ارادے، اس کی ایمانداری اپنی جگہ لیکن عوام الناس کو زندہ رہنا ہے، اسے مہنگائی کے جن سے بچانا کسی بھی حکمراں کا اولین فرض ہوتا ہے، یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ برے حالات سابقہ حکمرانوں سے وراثت میں ملے، بات اپنی جگہ درست لیکن جب آپ نے اقتدار ہاتھ میں لے لیا تو حالات کو بہتر بنانا حکمراں کا بنیادی فعل قرار پاتا ہے ۔ دو سالوں میں کپتان کی حکومت اس میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ حکومت کی دوسالہ حکمرانی کے بارے میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ شدید مخالفین کے ساتھ کپتان اپنے بیانیے پر ثابت قدم رہا لیکن عوام کو آسانی فراہم کرنے میں ناکام ہا ۔ تبدیلی سرکار کے دوسالوں کی تصویر نظم میں کچھ اس طرح ہے ۔ تبدیلی سرکار نے گزارے ہیں دو ہی سال کر کچھ نہ پائے روتے ہی رہے سارا سال احتساب کے نعرے نے پہنچایا اقتدارپر سیاست کی نظر ہوگئے پورے ہی دو سال چینی مہنگی،آٹا مہنگا، بجلی اور پیٹرول مہنگا مہنگا ئی آسمان پر، ان کے ہیں دو ہی سال نہ اہل ہوئے ، جیل گئے پھر دوڑگئے باہر رہ گئے منہ تکتے کے تکتے گزرگئے دو سال نہ اہلوں کی بھر مار کپتان کرے ہی آخر کیا کچھ کو نکال ، کچھ کو رکھابس گزرگئے دو سال
(۸۱ اگست ۲۰۰۲ء)
‘‘‘‘‘ |