تذکرہ علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ

4محر م الحرام کو کراچی میں آپ کا چوتھا سالانہ عرس انتہائی عقیدت واحترام سے منعقد کیا جارہاہے

دنیا فانی ہے اور موت ہر ایک کو آنی ہے ،رب تعالیٰ کچھ افراد کو ایسی خصوصیات عطا کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ انسانیت کیلئے مینارہ نور بن جایا کر تے ہیں ،اس طرح کے لوگ کم ہی پیدا ہوا کرتے ہیں ۔کسی شاعر نے کہا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

پیر طریقت حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ جو آج ہما رے درمیان موجود نہیں ،مگر آپ کی شیریں خطابت اور حُسنِ سلوک کی حَسین یادیں کبھی ہم سے جدا نہیں ہو سکتیں ۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری ایک فرد نہیں اپنی ذات میں انجمن تھے ،وہ ایک شخص نہیں ادارہ تھے بلکہ وہ ایک چلتی پھرتی تنظیم تھے ۔

شاہ صاحب سچے عاشق رسول ﷺصاحب کمال دینی و روحانی شخصیت کے حامل تھے۔ زندگی بھر خطابت و تحریر کے ذریعے اہل ایمان کے دلوں میں عشق ِ رسول کی شمع فروزاں کرتے رہے ۔ ملک و ملت کی خدمت ، دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور عقائد اہلسنّت کی سر بلندی کیلئے آپ نے جو خدمات انجام دیں انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا، آپ کی خدمات کو ضبطِ تحریر میں لانا محال ہے ۔صوفیائے کرام سے آپ کا گہرا تعلق تھااور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی سے عشق کا یہ عالم تھا کہ دوران خطابت بھی جابجااعلیٰ حضرت کے اشعار پڑھتے، آپ بہت ہی مختصر مگرجامع اور قابل فہم الفاظ میں تقریر کرتے تھے آپ کا انداز اس قدر دل نشین ہوتا کہ ہر لفظ دل و دماغ میں پیوست ہوکر رہ جاتا تھا ۔

شاہ صاحب بے باک اور نڈر انسان تھے آپ کی بے خوفی و جرأت مندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سانحہ نشتر پارک سے قبل دفتر جما عت اہلسنّت میں شاہ صاحب کو دھمکی آمیز خطوط اور فون کال موصول ہوئیں جس میں شر پسندوں نے حضرت کے گھر سے دفتراور کھوڑی گارڈن آنے جانے کے وقت اور روٹ کا بتاتے ہوئے جان سے مارنے کی کھلی دھمکیاں دیں ۔ فون کرنے والے کو شاہ صاحب نے کہا میں پاکستان چوک پر جما عت اہلسنّت کے دفتر میں بیٹھا ہوں آجاؤ ،ا س موقع پر دفتر میں موجود کچھ افراد نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت کواحتیاط کا مشورہ دیا تو حضرت نے یہ کہا کہ تراب الحق ایسی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتا ، جب تک میری زندگی ہے اس وقت تک موت میری محافظ ہے ،اور جو رات قبر میں لکھی ہے وہ قبر میں ہی ہو گی۔

شاہ صاحب نے عملی سیاست میں بھی حصہ لیا 1985 کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کے رکن بنے، ناموس رسالت کے قانون 295-C (اس قانون کے تحت گستاخ رسالت کی سزا موت ہے)کی منظوری میں شاہ صاحب کا کلیدی کردار ہے ۔ ایک موقع پر پارلیمنٹ میں اذان سے قبل درود و سلام پر پابندی کی تجویز پیش کی گئی اس سے پہلے کہ یہ شیطانی سازش کامیاب ہوتی شاہ صاحب نے ہم خیال اراکین سے رابطہ کیا اور اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر حکومت کو باور کرایا کہ تم تو مسجد میں اذان سے پہلے دورود شریف پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہوہم یہاں پارلیمنٹ میں بھی درود و سلام پڑھا کریں گے اور کوئی نہیں روک سکتا۔اسی وقت مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام اور یانبی سلام علیک،پڑھنا شروع کردیا اس صورتحال کے بعد حکومت نے فوری طور پر درود پر پابندی کی قرار داد واپس لینے کا اعلان کیا۔

ایک درجن سے زائد کتابیں شاہ صاحب کی یادگار ہیں جن میں علم و وسعتِ مطالعہ کی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے۔ آپ کی تصانیف کے بہ کثرت ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ چند تصانیف کے نام ؂یہ ہیں:ضیاء الحدیث،جمالِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم،تصوف و طریقت،دعوت و تنظیم،فلاحِ دارین،خواتین و دینی مسائل،کتاب الصلوٰۃ،مسنون دُعائیں،تفسیر سورہ فاتحہ،اسلامی عقائد،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بچوں سے محبت،مبارک راتیں،ثنائے سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم، تفسیر انوارالقرآن (آخری 22 سورتوں کی نہایت سادہ و پر اثر تفسیر)،رسول خدا کی نماز ،فضائل صحابہ و اہلبیت ، مزارات اولیا اور توسل، تحریک پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار ودیگر۔

شاہ صاحب اپنی زندگی اصلاح دین، تبلیغ دین ،اصلاح الناس میں صرف کرکے سرخرو ہوئے اﷲ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو شر ف قبولیت عطا فرمائے اور کروٹ کروٹ رحمتوں کی بارش سے معمور رکھے اور انکے مرقد کو مرکز رشد وہدایت بنائے ۔آمین
 

Salman Ahmed Shaikh
About the Author: Salman Ahmed Shaikh Read More Articles by Salman Ahmed Shaikh: 14 Articles with 11090 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.