دجال کی نہیں صرف اللہ کی حاکمیت اعلیٰ 

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب اپنے ملک اور عوام پر دجال کی حاکمیت اعلیٰ کوقبول کرنا ہوگا جبکہ بحیثیت ہمیں دجال کی نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو قائم کرنا ہے ۔ اسی میں ہمارے ایمان کی بقاء اور سلامتی ہے ۔

 
13 اگست 2020ء کا دن مسلم تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر لکھا جائے گا جب مسلم دنیا کے تیسرے ملک متحدہ عرب امارات نے اُمت مسلمہ کے سینے پر اسرائیل جیسے ناسور کا ناپاک وجود تسلیم کر لیا۔ اس سے قبل 1979ء میں مصر کے صدر انورالسادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کےتحت اسرائیل کو تسلیم کیا تھا جس کے بعد 1994ء میں اردن نے بھی ایسے ہی ایک معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کے چند روز قبل کیا تھا اور اسی دوران اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے خلیجی ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار کرنے پر اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ یوسی کوہن کا شکریہ ادا کیا تھا۔معاہدے کے فوراً بعد اسرائیلی اینٹیلی جنس کے سربراہ یوسی کوہن ہی وہ پہلے اسرائیلی عہدیدار ہیں جنہوںنے ابو ظہبی کا دورہ کیا ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین اور عمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات باضابطہ بنانے والے اگلے دو ممالک ہو سکتے ہیں ۔ اس کے مطابق بحرین اور عمان یقیناً ایجنڈہ پر ہیںاور اگلے سال کے دوران افریقہ کے ممالک کے ساتھ بھی امن معاہدہ ہو گا۔ ان افریقی ممالک میں سرِفہرست سوڈان ہے۔ دوسری طرف بحرین اور عمان نے امریکی سرپرستی میں کیے جانے والے اسرائیل، امارات معاہدے کا خیرمقدم بھی کیا ہے ۔

عرب ممالک کا یہ رویہ یقیناً پوری اُمت مسلمہ کے لیے انتہائی مایوسی اور اضطراب کا باعث ہے۔ فلسطین نے اس معاہدے کو ’غداری‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔اسی طرح دیگر کئی اسلامی ممالک اورخصوصا عالم اسلام کے دینی طبقات نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ دنیا میں کئی جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے مظاہرے بھی ہورہے ہیں ۔ حقیقت میں یہ صرف فلسطینوں سے غداری نہیں ہے بلکہ یہ تمام عالم اسلام سے غداری ہے ، صلاح الدین ایوبی سے غداری ہے ، حضرت خالد بن ولید ، ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت عمر سے غداری ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺسے غداری ہے ۔ کیا اللہ نے قرآن میں یہ نہیں فرمایا کہ :
ّّاے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں (المائدہ :51)

اسی طرح کیا رسول اللہﷺ نے اپنے فرمامین میں مسلمانوں کو واضح طور پر یہود کی دوستی سے منع نہیں کیا ۔یہ سب جانتے بوجھتے اگر موجودہ مسلم حکمران سرکشی اور بغاوت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کے مدنظر دین اسلام اور اتحاد وبقاء اُمت نہیں بلکہ صر ف اور صرف ذاتی مفادات ہیں ۔ وہ اُمت اور دین پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم اپنی کرسی و اقتدار کو طول دے سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے حالیہ امارات اسرائیل معاہدہ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کے آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کے اراکین کو بتایا ہے کہ ’مجھے توقع ہے کہ مزید ممالک ہمیں امن کی خواہش کے تحت جوائن کریں گے۔

‘ یہ " امن کی خواہش " دراصل مسلم حکمرانوں کی اپنے اقتدار کو تحفظ اور طول دینے کی خواہش ہے ۔ ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ان معاہدوں کے ذریعے کتنا اُمت کو امن ملا ہے یا فلسطینیوں کا کتنا تحفظ ہوا ہے ۔ حالیہ معاہدہ کے اغراض و مقاصد بھی بالکل واضح ہیں ۔ معاہدہ کے بعد اسرائیل انٹیلی جنس کے سربراہ یوسی کوہن نے متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زید النہیان سے ملاقات کی۔اماراتی سرکاری میڈیا ڈبلیو اے ایم کے مطابق بات چیت کا موضوع سکیورٹی تعاون تھا۔ اب یہ کس قسم کا تعاون ہوگا ؟ اور کس کے خلاف ہو گا ؟ ا س کا جواب بھی اماراتی اور اسرائیلی سکیورٹی تعاون سے بالکل عیاں ہورہا ہے ۔ اس حوالے سے پہلی جو چیز سامنے آئی ہے وہ دفاع ، صحت ، بائیو ٹیکنالوجی اور سائبر نگرانی میں تعاون ہے ۔ جبکہ یو اے ای پہلے ہی اسرائیل کے بنائے ہوئے جاسوسی نظام کو اپنے شہریوں کے خلاف استعمال کر رہا ہےاور اس ضمن میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کی صلاحیتوں سے فائدہ بھی اٹھایا جارہاہے ۔ لیکن اب اپنے شہریوں کی سائبر نگرانی اوراس کے لیے بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال تعاون مقصود ہے ۔ امارات کی کمپنی 'اپیکس نیشنل انویسٹمنٹ اور اسرائیل کی فرم 'ٹیرا گروپ پہلے ہی بائیوٹیکنالوجی پر کام کررہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ عرب حکمرانوں کا مقصد وہ امن نہیں ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے بلکہ اس سے مراد صرف اپنے اقتدار کو محفوظ اور مضبوط بنانا ہے اور اس کے لیےوہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کہاں یہ کہ وہ اُمت کا مفاد سوچیں یا دین کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں ۔ بدقسمتی سے صرف امارات ہی نہیں بیشتر اسلامی ممالک کا یہی حال ہے ۔ 1995 ء میںجب اسحاق رابن اسرائیل کا وزیر اعظم تھا اس وقت اس کے وزیر خارجہ شمعون پیریز نے عمان اور قطر کا سرکاری دورہ کیا تھا اور اس وقت سے ان دونوں ممالک میں اسرائیل کے تجارتی مراکز قائم ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان پر اسرائیل کا جھنڈا نہیں لگا ہوا ورنہ کام سارے وہی ہورہے ہیں جو ایک سفارتخانے کے تحت ہوتے ہیں ۔ یہی سلسلہ عرب امارات میں کئی برسوں سے جاری تھا ۔یہی سلسلہ اردن ، مصر اور بحرین میں بھی جاری ہے ۔ بلکہ بحرین نے تو دو قدیم آگے بڑھ کر اسرائیل کے ساتھ رابطوں کا جو کمیشن بنایا تھا اس کی سربراہ یہودی خاتون تھی ۔ اس کے علاوہ بحرین 2019 ء میں ہونے والی ایک سکیورٹی کانفرنس میں ایک اسرائیلی عہدے دار کی میزبانی بھی کر چکا ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو گذشتہ دو برسوں کے دوران عمان اور سوڈان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اس میں اسرائیلی وزیر اعظم کا اکتوبر 2018 میں عمان کا دورہ بھی شامل ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اُمت اور دین پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے باوجود مسلم حکمران اپنے اقتدار کو بچا سکیں گے ؟ یا اسرائیل اپنے عزائم سے پیچھے ہٹ جائے گا ؟اگر وہ ایسا سوچتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ اللہ نے اسی آیت میں جہاں یہودو نصاریٰ سے دوستی سے منع فرمایاوہاں سرکشی کی صورت میںوعید بھی سنا دی کہ :
ّّ"اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے"(المائدہ :51)

اپنے شہریوں اور پورے سکیورٹی نظام کو اسرائیلی اینٹیلی جنس ، سائبر و بائیوٹیکنالوجی نظام کے کنٹرول میں دینے کا مطلب اپنے آپ کو پنجہ یہود میں پھنسانے کے سوا اور کیا ہو سکتاہے ؟ یہود جب چاہیں گے عرب اسپرنگ کو ابھار کر ان حکمرانوں کے تختے الٹ دیں گے ۔ وہ ان حکمرانوں کی خاطر اپنے اس
 ایجنڈے کی تکمیل سے کیسے رک جائیں جس پر گزشتہ ڈیڑھ صدی سے عمل پیرا ہیں ۔ انہوں نے اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر لکھ کر لگایا ہوا ہے :
"تیری سرحدیں نیل کے ساحل سے لے کر فرات تک "
اس ایجنڈے میں مصربھی آتا ہے ،شام بھی آتاہے ، اردن بھی آتا ہے ، لبنان ، بھی آتاہے ، یہاں تک کہ ترکی کے ایک حصے اور حجاز مقدس میں مدینہ منورہ تک پر ان کا دعویٰ ہے ۔ لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرلینے کا مطلب گریٹر اسرائیل کے پورے ایجنڈے کو تسلیم کرنا ہے ۔ کیمپ ڈیوڈ سے لے کر ڈیل آف دی سنچری پلان تک جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں ان کے ذریعے صرف اسرائیل کے عزائم اور مفادات کو تحفظ ملا ہے ۔ ہر ایک معاہدے کے بعد اسرائیل مضبوط ہوا اور اس کے بعد نیا معاہدہ کرکے پہلے تمام معاہدوں کو پاوں تلے روند دیا ۔ جیسا کہ ڈیل آف دی سنچری پلان سے بھی ظاہر کہ اس کے بعد پہلے تمام معاہدے کالعدم ہو جائیں گے ۔ لہٰذا اگر عرب حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے معاہدے کرکے اس کو اس کے عزائم سے باز رکھ لیں گے تو یہ ان کی بھول اور گمراہی ہے ۔ بلکہ ایسا کرکے وہ مزید پنجہ یہود میں پھنسیں گے ۔ حل اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی ۔ کہ جب تک خلافت کا ادارہ قائم رہا چاہے برائے نام ہی خلافت تھی اس وقت تک اسرائیل کی بنیاد تک نہیں رکھی جا سکی۔ سلطان عبدالحمید دوئم سے صیہونی تنظیم نے اپنا یہ مطالبہ منوانے کے لیے ہر حربہ آزمایا کہ ہمیں فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی اجازت دی جائے لیکن برائے نام ہی سہی خلافت مسلمانوں کے مفادات کی متقاضی تھی لہٰذا سلطان نے وہی کہا : میں مسلمانوں کی جان ، مال ، عزت اور حمیت کا محافظ ہوں ۔ لہٰذا میں اپنے جسم کا کوئی ٹکڑا کاٹ کا دے سکتاہوں لیکن اُمت کی امانت میں سے ایک انچ نہ دوں گا "۔
 
صرف خلافت کا ادارہ ہی اُمت کے اجتماعی مفادات کا تحفظ ممکن بنا سکتا ہے کیونکہ وہی ایک ادارہ ہے جو ذاتی مفاد پر اُمت کے مفاد کو ترجیح دینے کا تقاضا کرتاہے۔ نسلی ، لسانی ، علاقائی اور خاندانی بنیادوں پرقائم ریاستوں کے حکمرانوں سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ اُمت کے مفاد کو ترجیح دیں گے یہ ہماری سب سے بڑی بھول اور نادانی ہے اور اسی نادانی میں اُمت بربادی کے بھنور میں پھنس چکی ہے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے ۔ اس کے بعد قرارداد پاکستان کے ذریعے بھی یہ طے ہو چکا ہے کہ یہاں حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی ۔ ہمارے آئین کا بھی یہی تقاضا ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون کوئی پالیسی نہیں بنائی جائے گی ۔ لہٰذا اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتاہے تو یہ گویا اپنی بنیادیں کھودنے کے مترادف ہو گا ۔یہ پاکستان کے آئین سے غداری ہوگی ۔ یہ پاکستان کی اساس پر حملہ ہوگا ، اس کے نظریات پر حملہ ہوگا اور شہداء کے خون سے غداری ہوگی۔یہ بانیان پاکستان سے بھی غداری ہوگی کیونکہ بانیان پاکستان کا موقف بھی اسرائیل کے بارے میں بالکل واضح تھا ۔ جیسا کہ قائداعظم نے واضح فرمایا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ۔ اسی طرح لیاقت علی خان نےیہود کی پیشکش کے جواب میں ایک موقع پر کہا تھا Gentalmen! our souls are not for sale.۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتاہے تو یہ اللہ اور اس کے رسول سے غداری ہوگی کیونکہ اللہ نے واضح کر دیاکہ :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج} ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘(المائدہ :82)

اسی طرح اللہ کے رسول ﷺکے فرمامین بھی ہمارے سامنے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں یہودیوں کی مخالفت فلسطینیوں یا عربوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی میں کرنی چاہیے ۔نظریہ پاکستان اور بانیان پاکستان کے نظریات کی روشنی میں کرنی چاہیے اور اپنے شہداء کے خون اور ان ان
 کی منزل مقصود کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب اپنے ملک اور عوام پر دجال کی حاکمیت اعلیٰ کوقبول کرنا ہوگا جبکہ بحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہمیں دجال کی نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو قائم کرنا ہے ۔ اب یہ فیصلہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو ملک کر کرنا ہے کہ انہیں اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو مان کر دنیا اور آخرت میں اپنی کامیابی کی اُمید رکھنی ہے یا پھر دجال کی حاکمیت کو تسلیم کرکے اپنی آخرت اور اصل زندگی کو برباد کرنا ہے ۔

 

Rafique Chaudhary
About the Author: Rafique Chaudhary Read More Articles by Rafique Chaudhary: 38 Articles with 47130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.