غلام جی غلام جی

پچھلے دو دہائیوں سے کانگریس پارٹی میں جو سرگرمیاں چل رہی ہیں،وہ اس بات کی طرف اشار ہ دے رہی ہیںکہ کانگریس بھی نرم ہندوتواکی جانب قدم بڑھارہی ہے۔بات چاہے2019 کے پارلیمانی انتخابات کی ہویاپھر راہل گاندھی کی جانب سے مندروںکے دوروںکی،یہ تمام واقعات اور پارٹی میں ہورہی پالیسیاں اس بات کی دلیل ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کو ساتھ میں رکھنا تو چاہتی ہے لیکن اقتدارکیلئے انہیں قربان بھی کرنا چاہتی ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی کے قومی لیڈر جو کسی دورمیں پارٹی کی شہ رگ ہواکرتے تھے اُن پر اب یہ الزام لگایاجارہاہے کہ وہ اب بی جے پی سے مل گئے ہیں۔کانگریس پارٹی کے قومی لیڈر غلام نبی آزاد جو عرصہ دراز سے کانگریس پارٹی کے رکن سے زیادہ غلام رہے ہیں اور وہ کانگریس کے پرچم کو ہی اپنا کفن بنانے کی چاہ رکھتے تھے اُن پر پچھلے دنوں کانگریس کےشہزادے راہل گاندھی نے یہ الزام لگایاکہ پارٹی میںسوال کرنے کاحق نہیں ہے اور انہوںنے سوال کیاہے تو یقیناً وہ بی جے پی سے مل گئے ہیں۔کسی دورمیں اے آئی سی سی میں مسلمانوںکی بڑی تعداد ہوا کرتی تھی،احمد پٹیل،غلام نبی آزاد،جعفر شریف جیسے قدآوار لیڈروںکو پارٹی میں مشیرخاص کے طور پر دیکھاجاتاتھا۔لیکن آہستہ آہستہ اب کانگریس میں مسلمان دوسری صف میںآگئے ہیںاور پارٹی کے عام کارکنوںکے ذہن میں یہ بات بٹھائی جارہی ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو صف اول میں لاکھڑاکرینگے تو ہندو ووٹ کابٹوارا ہوگا۔ہندوئوںکے ووٹوں کوبٹنے نہیں دینا چاہیے،بی جے پی کوشکست دینا ہے تو کانگریس میں بھی ہندوئوںکو اہمیت وترجیح دینے کی ضرورت ہے،اگر مسلمان کانگریس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ بھی رہیںتو وہ کہیںاور نہیں جائینگے،اس لئے مسلمانوںکو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ایک طرف کانگریس پارٹی کایہ سوچناہے تو دوسری جانب کانگریس پارٹی کے اعلیٰ لیڈران جنہوںنے پارٹی کو سیاسی پارٹی نہیںبلکہ اپنی جان و روح تسلیم کرلیاہے وہ اپنے آپ کو پارٹی سے علیحدہ کرناہی نہیں چاہتے ہیں۔بھلے وہ اپنا مذہب و ایمان چھوڑ دینگے،لیکن کانگریس پارٹی کو نہیں چھوڑینگے۔حالانکہ پوری قوم پر یہ بات اس قدر حاوی ہوچکی ہے کہ کانگریس پارٹی ہی مسلمانوںکی ہمدرد اور قائد ہے۔لیکن جس طرح سے غلام نبی آزاد پر سوالات اٹھائے گئے ہیں،آحمدپٹیل پر حاشیہ پر رکھاگیاہے،رام مندرکی سنگ بنیاد کے دوران جس طرح سے کانگریس کی جانب سے خوشیاں منائی گئی ہیں وہ اس بات کی دلیل ہے کہ کانگریس پارٹی اب نرم یعنی سافٹ ہندوتواکی راہ پر گامزن ہے۔یہ بات اور ہے کہ اس پارٹی کی بنیاد مسلمانوںنے ہی رکھی تھی اور اس پارٹی کے پہلے صدر مولانا ابوالکلام آزادتھے،لیکن وقت کے بدلنے کےساتھ ساتھ اس پارٹی کو دیمک لگ چکی ہے جس کا علاج بے حد ضروری ہے۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.