پاکستان کی جاری صورت حال میں
عوام میں ایک اور کمی جسکی جانب میرے ایک دوست نے میری توجہ مبذول کروائی
ان لوگوں کی نشاندہی ہے جو جاری صورتحال میں اپنی فقیری کی دکانوں پہ بیٹھے
کمزور اور محروم لوگوں کے اخلاص اور ایمان سے کھیلتے ہیں . میرے ایک دوست
نے پوچھا ہے کہ سیاست دانوں کی طرح گدی نشین پیروں نے بھی لوٹ مار کا بازار
گرم کیا ہوا ہے . جب لوگ جاری حالات کی دلخراش صورتحال سے تنگ آ کے ان
دکاندار پیروں کے پاس آتے ہیں تو ایمان بھی لٹا بیٹھتے ہیں . ماضی کا ذکر
کرتے ہوئے اس محب وطن پاکستانی نے پوچھا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور
چند سیاستدان فل ٹائم پیر اور گدی نشین بھی ہیں لہٰذا فقیر، ولی ، عالم اور
اللہ والے کی کیا تعریف ہے . میں اس سبجیکٹ کا طالب علم ہوں عالم نہیں مگر
کچھ تحقیق کے بعد نیچی کی سطور حاضر خدمات ہیں . اگر کوئی انھیں ان گدی
نشین سیاستدانوں تک پہنچا دے تو یہ ایک قومی اور مذہبی خدمت ہو گی. اس کا
مزید ذکر میری آنے والی کتاب " میں اور وہ "میں تفصیل سے ہے جہاں آزاد
کشمیر کے سرکاری پیروں اور انکی حکومتی مشنری تک رسائی اور پاکستانی
حکمرانوں کا اسمیں عمل دخل ایک باب کی صورت موجود ہے . ان پیروں کا کردار
صرف پاکستان اور آزاد کشمیر میں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ اب برطانیہ کا بھی
ایک بہت بڑا کاروباری ادارہ ہیں جو دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے اور تب
تک کرتا رہے گا جب تک پیسے والے مرید انکے بتوں کو اپنی دولت کا چڑھاوا
چڑھاتے رہیں گے .
فقیر، عالم ، ولی ، اللہ والا یا پیر کامل کیا ہوتا ہے ؟
فقرأ، علماء اور صوفیا کے مطابق عالم ناسوت کی اکتالیس منازل ہیں جبکہ عالم
ناسوت کی پہلی منزل تک رسائی پانے والا شخص صاحب کمال ہوسکتا ہے مگر یاد
رکھنے کی بات ہے کہ ایسے کمالات کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔کوئی بھی
شخص، مرد و زن تزکیہ نفس اورمجاہدہ قلبی سے یہ مقام حاصل کرسکتا ہے۔
ہندویوگی، بدھ بھگشو ہوں یا لامذہب دھریے ہر شخص اپنی انسانی جبلت، عقلی و
شعوری قوت سے ناسوتی کمالات کا حامل ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اس
موضوع پر کئی کتابیں لکھیں جو ان کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔ علمائے حق کے
مشاہدے کے مطابق ایسے عالم اکثر شیطانی قوتوں کے تابع دنیاوی نفع حاصل کرنے
یا شہرت پانے کے شوق میں بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں.
راس پوٹین جیسی شخصیات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایسے عامل جب تک تزکیہ
نفس کا عمل جاری رکھیں، نیند کم کریں، غذا صرف اتنی کھائیں جس سے زندگی
برقرار رہے، روزہ یا پھر فاقہ کشی اختیار کریں، عام مخلوق سے میل ملاپ کم
رکھیں اورتنہائی میں مراقبہ کریں تو انہیں ایسی قوت حاصل ہوسکتی ہے جس سے
وہ بیماروں کو شفایاب کرسکتے ہیں، ان کی دنیاوی جاہ و طلب کی برابری کر
سکتے ہیں اور دیگر حادثات و آفات کی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں مگر کسی امر
کو تبدیل کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔وہی مخلوق کی دعائیں سنتا ہے۔
بعض عامل ایسے بھی ہیں جو اپنے عمل کو شیطانی چالوں کیلئے استعمال کرتے ہیں
اور انسانوں کی نفسیات و خواہشات پر ہاوی ہوکر انھیں باطل عقیدوں کے تابع
کردیتے ہیں۔ ایسے ہی عامل اپنے اعضاء کو مضبوط کرکے بدکاری کے عمل سے بھی
گزر جاتے ہیں.
انسان اپنے وجود میں کل بھی ہے اور جز بھی۔میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤنگا
چونکہ ہر شخص اپنے ظاہری اور مادی علم سے ایسے عمل کو سمجھنے سے قاصر
ہے۔میں نے اس موضوع کی تفصیل حضرت نورالدین اویسی کشمیریؒ کی تصانیف راہ
حقیقت، منازل فقر اور حقیقت تصوف میں پڑھی ہے۔ہر علم مشاہداتی ہے اور جب
انسان تزکیہ نفس و مجاہدہ قلبی کی قوت سے کسی شیخ کامل کی رہنمائی میں علوم
باطنیہ کی طرف راغب ہوتا ہے تو شیخ کامل کی رہنمائی میں ہی وہ ناسوتی
کمالات، وسوسوں اور شیطانی چالوں کے شکنجے میں پھنسنے سے بچ جاتا ہے.
فرمان الہی ہے’’ہدایت اسی کو ملتی ہے جسے اللہ ہدایت دینا چاہے اور جسے
گمراہ کرے اس کو ولی و مرشد کی رہنمائی میسر نہیں ہوتی (الکھف)
قرآنی علم کی روشنی میں ولیّ و مرشد کا کام انسانوں کو راہ حق کی طرف
رہنمائی کرنا ہے نہ کہ انہیں ویزے دلوانا، شادیاں کروانا، مرادیں پوری
کرنا، الیکشن جتانا اور وزارتیں دلوانا ہے مگر کچھ ایسے عمل بھی ہیں جن کا
تعلق تو عالم ناسوت سے ہے مگر اس میں انسانوں کے لیے خیر اور بہتری ہے۔ایسا
عمل جب ایک پیغمبر اور ولی سے سرزد ہو تو اس میں شیطان کا دخل نہیں ہوتا
چونکہ نبی اور ولیّ کے ناسوتی کمالات او ر عامل کے کمالات میں فرق
ہوتاہے۔انبیاء اور اولیا اللہ کا عمل خالصتاً الہی قوانین کے تابع ہوتا ہے
جبکہ بے دین عامل کا فعل دینی قوائد اور حکم الہی سے مبرا سفلی قوتوں کے
تابع ہوتا ہے۔اللہ کا ولیّ دنیا سے دور بھاگتا ہے چہ جائیکہ وہ اپنے بچوں
اور پوتوں کیلئے بھی اسمبلی کی سیٹ پکی کرنے کے چکر میں دین کی آ ڑلے اور
علماء و مشائخ کے نام پرعوام الناس کو دھوکہ دیکر ایک خاص نشت کا آئینی اور
قانونی اہتمام کرلے.
حضرت علی ہجویریؓ کی تصنیف کشف المحجوب اصحاب رسولﷺ اور اولیا کرامؒ کے
ایسے اقوال سے منرین ہے جو فقر، فقیر، صوفی اور تصوف کے علم و کردار کے
قرآنی او روحانی پہلوؤں پر بھر پور روشنی ڈالتی ہے۔فقیر اور صوفی کا عمل وہ
نہیں ہوتا جس کی تشریح مخصوص علماء و مشائخ کی گدی پر بیٹھنے والے سرکاری
اوّلیا اور علماء کرتے ہیں۔
ولّی کی تعریف ہر دور کے فقراء نے اپنے اپنے انداز میں کی ہے جس کی تفصیل
کشف المحجوب کے اوراق پر نقش ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ نے حضرت اویس قرنی رضی
اللہ عنہ سے لیکر حضرت ابو احمد مظفر بن احمد حمدانؒ تک اَسی سے زیادہ
فقراء، علمائے حق اور مشائخ کرامؒ کے احوال، اقوال، مشاہدات عمل و کردار
قلمبند فرمائے ہیں ۔ اگر ہم تصوف کی اس بنیادی کتاب کے مندرجات پر نظر
ڈالیں تو آج کے سیاسی پیروں اور دیگر گدی نشینوں کا کردارو عمل اسکے منافی
ہے۔ فقر کا مطلب دنیا سے کنارہ کشی ہے۔
کیا یہ سیاسی فقیر ایسے ہیں ؟ اگر نہیں تو فیصلہ کرنے میں دیر نہ کریں،
توبہ کریں اور قرآن کریم اور سیرت رسولﷺ کو سمجھیں پھر اسکے مطابق اپنا
اوراپنے وطن کا جائزہ لیں ، بہت کچھ کھوکھلا اور نا مکمل نظر آئے گا . خود
کو سدھار لیں انشااللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، سب خوف دور ہو جائیں گے اور
دین اور دنیا سنور جائے گی . اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ( آمین ) |