پیغام کربلا اور این آر سی و این پی آر کی تحریک

یکم محرم کو دور درشن اردو سے اگلے دس دن تک "پیغام کربلا" عنوان کے تحت روزانہ پروگرام نشر کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فی زمانہ شہروں میں بے شمار ٹی وی چینلز کی بھیڑ کے سبب کم لوگ دوردرشن کی جانب متوجہ ہوتے ہیں لیکن ملک کے طول و عرض میں جہاں ڈش ٹیلویژن ابھی تک نہیں پہنچا اسی چینل سے کروڈوں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ ڈی ڈی دنیا بھرکے 54 سے زیادہ ممالک میں دیکھا جاتا ہےلیکن سچ تو یہ ہے کہ امام حسین ؓ کی شہادت اور واقعہ ہائے کربلا کا پیغام کسی چینل کا محتاج نہیں ہے۔ عالمِ انسانیت میں وقتاً فوقتاً ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے والے حق کے علمبردار نہ صرف واقعہ کربلا سے حوصلہ پاتے ہیں بلکہ اس کی یاد بھی تازہ کرتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں شاعر شباب جوش ملیح آبادی کی یہ رباعی یاد آتی ہے؎
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین، چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو، ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین

پچھلے سال ہندوستان کے اندر حکومت کی جانب سے وضع کردہ قانون سی اے اے میں ترمیم ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ایک ملک گیر اورمنفرد تحریک اٹھی۔ اس میں ایک طرف حکومت اور اس کی مشنری تھی جس میں میڈیا پیش پیش تھا اور دوسری جانب چند نوجوان، طلباء اور خواتین تھیں۔ ان دونوں فریقوں کے درمیان وسائل اور طاقت کو لے کر سرے سے کوئی موازنہ ہی نہیں تھا ۔ اس کے باوجود حق کے علمبردار مٹھی بھر لوگ ڈٹ گئے ۔ شاہین باغ کے خیمے دہلی سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور جگہ جگہ سے اٹھنے والے احتجاج سے باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوگیا۔ شاہین باغوں کے خلاف طرح طرح کے حربے آزمائے گئے۔ دشنام طرازی سے بات نہیں بنی تو بندوق بردار حملہ آوروں تک کی مدد لی گئی لیکن وہ جانباز اپنی جگہ سے نہ ہٹے اور نہ جھکے۔ بی جے پی کی صوبائی حکومتوں نے ان پر مظالم کے مختلف پہاڑ توڑے لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ بی جے پی مخالف ریاستی سرکاروں کا رویہ بھی ابتداء میں معاندانہ ہی رہا اس کے باوجود مظاہرین کے پائے استقلال پر عرفان صدیقی کا یہ شعر صاد ق آتا تھا؎
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
یہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

ملک گیر عوامی تحریک کے باوجود مرکزی حکومت این پی آر کرانے پر مصر تھی کہ اچانک غیر کانگریسی ریاستی سرکاروں نے یکے بعد دیگرے این پی آر کے خلاف تجویز پیش کرکے اسے منظور کرنا شروع کردیا ۔ وہ لوگ جو مسلمانوں کی سیاسی وزن پر فاتحہ پڑھ چکے اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ایک ایک کرکے گیارہ صوبے اپنے یہاں این پی آر کرانے سے انکار کردیں گے ۔ اس مشق کے لیے چونکہ مرکزی حکومت کو مکمل طور پر ریاستی سرکار پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس لیے مرکز بے دست و پا ہوتا چلا گیا اور لوگوں نے حساب لگانا شروع کردیا کہ کتنے فیصد لوگوں کانام رجسٹر میں آئے گا اور کتنے اس سے باہر رہ جائیں گے؟ دہلی کی انتخابی مہم اور فرقہ وارانہ فساد کے دوران وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے جو محتاط رویہ اختیار کیا تھا اسے دیکھ کر ہر کس و ناکس انہیں بی جے پی کی بی ٹیم کہنے لگا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر دہلی کی اسمبلی نے بھی این پی آر کے خلاف قرار داد منظور کرلی ۔ یہ مرکزی حکومت کی بہت بڑی رسوائی تھی کیونکہ ملک بھر میں این پی آر نافذ کرنے والے امیت شاہ سمیت وزیراعظم اور صدر مملکت کے نام کا نیشنل پاپولیشن رجسٹر میں درج نہ ہونا معمولی بات نہیں تھی۔

یہ تو خیر حزب اختلاف کی حکومت والی ریاستیں تھیں لیکن بہار میں بی جے پی کی این ڈی اے سرکار ہے ۔ اس کا بجٹ اجلاس 25فروری سے شروع ہوا توحزب اختلاف نے این پی آر اور این آر سی کے خلاف نتیش حکومت پر ہلہّ بول دیا ۔ اپوزیشن لیڈر تیجسوی پرساد یادو نے جب این پی آر اور این آر سی کے خلاف نتیش کمار سے سوال کیا اور اس کے خلاف قرار داد منظور کرنے کی اپیل کی تو ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ اس کا کیا جواب ملے گا ۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے برملا اعتراف کرلیا کہ این پی آر میں اضافی سوالات کے سبب عوام کی پریشانی میں اضافہ ہوگا ، اس لئے پرانے فارمیٹ کے مطابق این پی آر کیا جائےگا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکز میں اپنی پارٹی کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے فیصلے کی حمایت میں بی جے پی کے ریاستی رہنما اور نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی میدان میں آتے لیکن انہوں نے بھی سپر ڈالتے ہوئے کہہ دیا این ڈی اے وزیر اعلیٰ کے ساتھ کھڑی ہے اور این پی آر 2010 کے مطابق ہی کیا جائے گا ۔ یہ اس تحریک کی بہت کامیابی تھی کہ جس نے حزب اقتدار کے خیمے کو بھی جھکنے پر مجبور کردیا تھا۔ واقعۂ کربلا کا یہی تو پیغام ہے کہ مقصد زندگی سے عشق بے سرو سامانی کے باوجود کامیابیسے ہمکنار کرتا ہے بقول شاعر؎
زندگی کے دیوانو، سوئے کربلا دیکھو
عشق کس سلیقے سے زندگی میں ڈھلتا ہے

ریاستی انتخاب سے قبل وہ صوبائی اسمبلی کا آخری اجلاس تھا اور نتیش کمار کو مسلمانوں کی ناراضگی کا احساس ہوچکا تھا۔ سیاسی صورتحال کچھ اس طرح کی بن گئی تھی کہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر نتیش کی کامیابی ناممکن تھی اور نتیش کے بغیر بی جے پی کا اقتدار میں آنا محال تھا ۔ وزیراعلیٰ کو بی جے پی کی اس مجبوری کا احساس تھا اس لیے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھا لیا۔ نتیش نے ایک ایسا راستہ نکالا کہ سانپ تو مرجائے مگر لاٹھی نہ ٹوٹے یعنی سرکار بچی رہے اور مسلمان ناراض بھی نہ ہوں ۔ اس اقدام نے حزب اختلاف کو بھی اس قرارداد کی حمایت کرنے پر مجبور کردیا تھا اور یہ اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔ اس طرح این پی آر میں شامل کیے گئے دو نئے سوالات جن سے تشویش پیدا ہوئی تھی یعنی والدین کی جائے پیدائش اور تاریخ کے ساتھ ماضی میں رہائش کی تفصیل کا صفایہ ہوگیا۔ شہریت کے بارے میں کسی ثبوت کے بجائے جو کچھ بھی بتا دیا جائے اسے لکھ لینے کی روایت قائم رہی ۔

یہ کوئی اچانک کیا جانے والا فیصلہ نہیں تھا بلکہ مذکورہ اجلاس کے اندر اردو میں افتتاحی خطاب پڑھ کر اسپیکر وجئے کمار چوددھری نے پہلے ہی سب کو چونکا چکے تھے ۔اس پر ناراض ہوکرجھجھا کے ایم ایل اے رویندر یادو اور دربھنگہ کے ایم ایل اے سنجے سروگی نے وجے کمار چودھری کے صوبے کی دوسری سرکاری زبان اردو میں تقریر کرنے پر ’’لاحول ولا قوۃ ‘‘ کہا ہے۔ اس کے جواب میں وزیر تعلیم کرشن نندن نے سبحان اللہ کہہ کر بی جے پی والوں کو اور چِڑھا دیا اور وہ جئے شری رام کا نعرہ لگانے لگے ۔ تعجب کی بات یہ کہ صدر مجلس کی تقریر پر اعتراض کرنے والے بھی این پی آر کے معاملے میں نتیش کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں دکھا سکےکیونکہ یہ ان کی اپنی پارٹی کا فیصلہ تھا اور اس کی مخالفت کرنے سیاسی قیمت چکانی پڑ سکتی ۔ انتخاب کی قربت سیاستدانوں کو نظم و ضبط کا اس لیے پابند بنا دیتی ہے کیونکہ بصورتِ دیگر ٹکٹ کٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔

بہار میں فروری کے اندر جو کچھ ہوا وہی خاموشی کے ساتھ 30 جولائی 2020کو مرکزی حکومت نے کردیا ۔ رجسٹرار جنرل اینڈ سینسس (مردم شماری) کمیشن کی ویب سائیٹ پر پہلے این پی آر سے متعلق جو سوالات درج تھے ان میں سے اضافی متنازع استفسار کو ہٹا کر صرف 2010 کے سوالات چھوڑ دیئے گئے ۔ یہ تنازع وزیرداخلہ کے این پی آر کو این سی آر سے جوڑنے اور سی اے اے کے ساتھ اس کی کرونولوجی بیان سے پیدا ہوا تھا ۔ ویب سائیٹ پر ہونے والی یہ تبدیلی مرکزی حکومت کا ایک بہت بڑا گھوم جاو ہے لیکن چونکہ سبکی ہوتی ہے اس لیے اس کی پردہ پوشی کی گئی ۔ اس تبدیلی کے بعد روزنامہ بھاسکر کے نامہ نگاروں نے وزارت داخلہ سے وضاحت طلب کی لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ سی اے اے کی تحریک کے تین مطالبات میں این آر سی اور این آر پی بھی شامل تھا۔ وزیراعظم نے اس بابت پہلے تو کہا کہ شہریت قانون کا ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر یہ کہہ کر وزیر داخلہ کو مشکل میں ڈال دیا کہ این آر سی پر پارلیمان یا کابینہ میں کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ اب جو تیسرا این آر پی کا معاملہ بچا تھا اس پر سرکار نے منموہن سنگھ کے نقشِ قدم پر چلنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ فی الحال حکومت کو تینوں محاذ وں پر پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ یہ مزاحمتی تحریک کی بہت بڑی کامیابی ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی حمد ثنا کی جانی چاہیے نیزاپنی بھول چوک کے لیے توبہ استغفار کرنا چاہیے۔ سورہ ٔنصر میں یہی تعلیم دی گئی ہے۔اس موقع پر اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والی حکومت پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
یزید تُو نے تو کچھ دیر زندگانی کی
مرے حسین ؓنے صدیوں پہ حکمرانی کی

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227158 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.