یہ 2010 کی بات ہے. میں جی بی ہاؤس میں دو سیاسی لیڈروں
کیساتھ بیٹھا ہوا تھا. دونوں صاحبان جی بی کونسل کے ممبر تھے. معروف وفاقی
پارٹیوں سے ان کا تعلق ہے. اتفاق سے آج کل دونوں صوبائی سطح پر صدارت و
امارت پر بھی فائز ہیں. گلگت بلتستان کی آئینی صورت حال پر اخباری بیانات
کا سلسلہ چل نکلا تھا. ایک صاحب نے گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ گردانا
تھا جبکہ دوسرا کشمیر اور کشمیری قیادت کو سنانے کیساتھ جی بی کو الگ کہہ
رہا تھا.کسی بھی قسم کے تعلق کی نفی کررہا تھا. ان کے بیانات ایک دوسروں کے
خلاف اخبارات میں لگ چکے تھے.ماحول پہلے سے گرم تھا.
اسی روز کے ٹو کے اسحاق جلال نے بالترتیب دونوں کو کال کیا. موقف لینا
چاہا.
آپ یقین کیجے. ساتھ بیٹھے دونوں صاحبان نے کشمیر اور جی بی کے تعلق اور
گلگت بلتستان کی آئینی صورت حال پر مخالف ترین موقف اور بیانات نوٹ کروائے
. اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو بھی خوب سنایا.دونوں کے بیانات جی بی کے مذہبی
نقطہ نظر سے نوٹ کروائی گئی تھیں. دونوں نے اپنے اپنے ہم مذہب گروہ کی
ترجمانی کی تھی.
میں سوچ رہا تھا کہ اب یہ دونوں صاحبان ناراض ہونگے اور ایک اُٹھ کر چلا
جائے گا مگر ایسا نہ ہوا. دوران چائے جب وہ کسی بات پر قہقہے لگانے لگے تو
میں معترض ہوا.
ایک صاحب کہنے لگے:
آپ کا کیا خیال ہے، ہم سیاست نہ کریں؟
دوسرے صاحب نے کہا:
اس لیول پر پہنچ کر مذہبی چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں.سیاست آگے.
تو دوستو!
آج کل سیاسی ماحول گرم ہے. الیکشن کی تیاریاں چل رہی ہیں. پارٹیاں تبدیل
کرنا، ایک دوسروں کے خلاف بیانات دینا اور بازاری الفاظ استعمال کرنا بڑے
بڑے سیاسی رہنماؤں نے شروع کیا ہے. کل کے شدید ترین مخالفین آج اچانک
نظریاتی اور قریبی دوست بن گئے ہیں. اگلے انتخابی سیشن میں پھر یہی نظریاتی
اور قریبی دوست ایک دوسروں کو گالیاں دے رہے ہونگے.
ایسے میں آپ کسی کی جانب سے دفاع کا بیڑہ اٹھا کر اپنے احباب اور قریبی
دوستوں کو ناراض نہ کیجے.
یقین جانیں!
جن کو آپ لیڈر سمجھتے ہیں ان کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کس وقت کہاں کھڑے
ہوں.لیڈر قوموں کے دھارے بدل دیتے ہیں جبکہ یہ سیاسی بونے پارٹیاں،
وفاداریاں، نظریات اور اپنے بیانات بدل دیتے ہیں. لیڈر قوموں کو یکجا کرکے
اتحاد و اتفاق قائم کرتے ہیں جبکہ یہ لوگ مزید دوریاں پیدا کردیتے ہیں.لیڈر
کی زبان شائستہ ہوتی جبکہ یہ لوگ ایک دوسروں کو گالیاں دیتے اور لٹیرے اور
جیب کُترے کہتے ہیں. لیڈر وژن اور مشن کیساتھ ہمیشہ ایکٹیو رہتے جبکہ ان کے
ہاں مفاد اولین شئی ہے. لیڈر سے لوگ شایستگی، سلیقہ، سوچ اور سیاسی تربیت
سیکھ لیتے ہیں جبکہ ان لوگوں سے کرپشن، دغابازی، جھوٹ،لعن طعن، لوٹاکریسی،
چاپلوسی اور بےوفائی کے سوا کچھ سیکھنا ممکن ہی نہیں.
یہ بات تسلیم کیجے کہ:
انتخابی سیاست کے ان بونوں کے درمیان ایک چیز مشترک ہے.وہ ہے
ذاتی مفاد
یہ اپنے مفاد کی خاطر، پارٹی، نظریہ، ماضی کا دوست اور اپنے کہیے ہوئے
الفاظ و بیانات، غرض سب کچھ کو قربان کرتے ہیں.
ان کے سامنے ان کا مفاد
پارٹی، نظریہ، اخلاقیات، دوستی، رشتہ داری غرض سب کچھ سے مقدم ہے. اور
آپ ان کے ذاتی مفاد
کے بیچ کھلونا بننے سے گریز کریں. اور آپ یوں سمجھیے کہ
"رنج لیڈر کو بہت ہے مگر مفاد کیساتھ"
|