اوبامہ کی فلسطین نوازی

امریکی صدراوبامہ نے وائٹ ہاؤس میں اپنی دستار بندی کے بعد پہلی مرتبہ بیانگ دہل مطالبہ کیا کہ مشرق وسطی میں1967سے پہلے والی اسرائیلی سرحدوں کی بنیاد پر غیر مسلحnon millitant آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ اوبامہ نے تصوراتی ریاست کے خدو خال بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک نہ ایک روز امریکہ اسرائیل اور فلسطینی مزاکرات دو آزاد ریاستوں کے قیام پر متنج ہونگے۔نئی ریاست کی سرحدیں مصر اسرائیل اور اردن کے ساتھ مستقل طور پر متصل ہونگی۔ امریکی صدر نے خواہش کی کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ و تصادم ڈائیلاگ سے حل کیا جائے۔اوبامہ نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ارض مقدس سے اسرائیلی افواج کی مرحلہ وار واپسی ہوگی اور مکمل انخلا کے بعد فلسطینی ریاست کی سلامتی کا انتظام و انصرام ایک غیر مسلح و خود مختیار حکومت کے سپرد کردیا جائیگا۔ اوبامہ کا یہ بیان صہیونیوں پر قیامت صغریٰ کے مترادف ہوگا اگر اس میں صہیونیت کے پرتش کاروں کی کوئی چالبازی پنہاں نہیں۔ اسرائیل امریکہ کا بغل بچہ ہے۔ امریکی سرپرستی میں ہی مشرق وسطی میں یہودیوں کی دادا گیری قائم و دائم ہے۔ اگر آزاد فلسطینی ریاست کا تصور اوبامہ کی ذاتی تخلیق ہے تو پھر انہیں امریکہ سمیت پوری دنیا کے صہیونیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اوبامہ کا اعلان امت مسلمہ کے لئے خوش آئند ہے۔ چلو کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ اوبامہ نے اپنی پریس کانفرنس میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے مسلم ممالک میں جاری آتشیں سیاسی لہر پر امریکی پالیسی کی تشریح بھی کی مگر ہم تنازعہ فلسطین کے متعلق امریکی موقف پر خامہ فرسائی کو پہلے ضروری سمجھتے ہیں۔ اسرائیل پر امریکہ کے وافر رسوخ کے باوجود اج تک کسی امریکن سرخیل نے تل ابیب پر1967والے معاہدے پر عمل درامد کے لئے دباؤ نہیں ڈالا۔ امریکہ کے سیاسی انتظامی سرکاری اور غیر سرکاری عہدوں اور مالیاتی اداروں پر صہیونی فائز ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکہ کی انتظامی اور دفاعی نکیل صہیونیوں کے پنجہ استبداد میں مقید ہے۔ امریکی صہیونی اور انکے ہمنوا عیسائی گریٹر اسرائیل کے احیا میں اتنی ہی دلچسپی اور گرم جوشی رکھتے ہیں جتنا کہ اسرائیل کے انتہا پسند یہودی۔گریٹر اسرائیل کی جانب رواں دواں یہودی سرکار ارض مقدس پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے مغربی کنارے پر غیر قانونی بستیاں تعمیر کررہی ہے اور دوسری طرف ارض مقدس کے سیاہ بخت فلسطینیوں کو غزہ کے کونے کھدرے تک محدود کرنے اور اسرائیل کے متوازی آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کو مسخ کرنے کے لئے دیو ہیکل دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ فلسطینیوں کے لئے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔ اپنی ماں دھرتی کے ایک حصے سے دوسرے علاقے تک جانے کے لئے اہل فلسطین کو اسرائیل سے گزرنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے راستے بند کردیتا ہے۔ جابرانہ وحشیانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود یاسر عرفات نے جب سے زیتون کی شاخ تھام لی تھی تب سے مصالحانہ رویہ اپنائے ہوئے تھے اور تادم مرگ اسی نظرئیے پر کاربند رہے مگر وہ پر اسرار حالات میں موت کی اغوش میں چلے گئے یا انہیں وہاں لے جایا گیا۔یاسر عرفات کی رحلت کے بعد انکی جماعت نے اقتدار پرستی کی ہوس میں ایک طرف پرو اسرائیل پالیسیوں کو جلا بخشی تو دوسری طرف ploنے حماس پر بندوق تان لی۔ حماس اورplo کی گروہ بندی نے صہیونیوں کے مقدمے کو مزید مضبوط کردیا۔ عرب لیگ کی ناعاقبت اندیشیوں مسلمانوں کے گروہی تضادات مغربی دنیا کے دو غلے رد عمل اور عالمی اداروں کی خاموشی سے یہودیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے سرے سے ہی آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے کو یکسر مسترد کردیا۔ اب سوال تو یہ ہے کہ کیا امریکہ مشرق وسطی میں امن چاہتا ہے؟ کیا اوبامہ صہیونیوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے کی ہمت رکھتا ہے؟ کیا امریکہ خود دنیا بھر میں سامراجیت اور سرمایہ داریت کی طویل زندگی کے لئے خود عالمی دہشت گردی کو چھوڑنے پر آمادہ خاطر بن سکتا ہے؟ کیا اوبامہ فلسطینی ریاست کے سبز باغ کو حقیقت کے گلستان میں بدل کر ایفائے عہد کی سنہری تاریخ رقم کرنے کی جرات کرے گا۔ امریکی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو اصل سچائی الم نشرح ہوتی ہے کہ اوبامہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کیا امریکہ کبھی کسی ملک کا خیر خواہ رہا ہے؟ کیا کوئی ریاست اسکے شر سے بچ سکی؟ کیا کوئی حکمران چند ایک اثتثنا کے وائٹ ہاؤس کی اطاعت اور امریکی صدر کے تلوے چاٹے بغیر بادشاہت کے عہدے پر زیادہ دیر تک جلوہ افروز رہ سکا۔ دہشت گردی ختم ہونی چاہیے مگر امریکی قوم کو یہ بات کون سمجھائے کہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات جانے بغیر اس عفریت کا منہ بند کرنا ناممکن ہے جہاں تک مڈل ایسٹ کی شورش کا مسئلہ ہے تو یہ طے ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور ارض مقدس کے باسیوں کے غصب شدہ حقوق کی بحالی تک آگ و خون کا کھیل جاری رہے گا۔ سترہویں تا بیسویں صدی میں اور پھر ورلڈ وار کے بعد ہونے والی ہر جنگ کے پس چلمن امریکی بداعمالیاں شامل ہیں۔1949 اور1953 میں جنوبی اور شمالی کوریا کے لئے تباہی و بربادی اور موت کا پیغام لانے والی کوریاء جنگ میں 20 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔1959تا1975 تک ویت نام کی جنگ نے انسانیت کو شرمسار کردیا۔ ویت نام جنگ میں41 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ہلاک شدگان کا تعلق جنوبی ویت نام کمبوڈیا اور شمالی ویت نام کے باشندے تھے۔ ابھی ویت نام جنگ کے خون کی ندیاں خشک نہ ہوئیں تھیں اور خون کا رنگ باقی تھا کہ سی آئی اے کی دریدہ دہنیوں کی بدولت سوویت یونین نے کابل پر قبضہ جمالیا۔افغان ماسکو جنگ میں مقتولین کی تعداد13 لاکھ تھی۔ سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد عالمی قیادت کا ہما امریکہ کی جھولی میں آٹپکا۔ کیمونزم کے حاسدین ابھی جشن منارہے تھے کہ پہلی خلیج جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔خلیجی جنگ میں لاکھوں بچے ادویات کی عدم فراہمی پر بلک بلک کر دم توڑ گئے۔ٹوئن ٹاورز کی تباہی کا بہانہ بنا کر امریکہ نے پہلے کابل اور پھر بغداد پر تسلط جمالیا۔کابل و بغداد میں30 لاکھ مسلمان موت کی راہ کے ہمسفر بن گئے۔ تنازعہ فلسطین پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی پوری دنیا کے لئے اہمیت کا حامل تو بن چکا ہے مگر یہاں ان گنت لوگ مارے جاچکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر تو یو این او متفقہ قرارداد پاس کرچکی ہے مگر یہ ہنوز تشنہ طلب ہیں۔لاکھوں کشمیری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ آٹھ دس دہائیاں قبل ایسی بربادیاں اور بھی بہت آئی ہونگی مگر ان میں زیادہ تر کا تعلق ارض سماوی اور قدرتی آفات سے ہے مگر باریک بینی سے غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ جو المناکیاں اور وحشت ناکیاں امریکہ نے کیں وہ قدرتی افات سے کم نہیں۔امریکہ پانچوں براعظموں میں فتنوں کو ہوا دینے اور دو ملکوں کو لڑوانے میں پیش پیش ہوتا ہے۔امن کے نام نہاد بنارسی ٹھگ کائنات میں سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والے تاجر ہیں۔2007 میں امریکہ نے800 ملین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔امریکی دانشور نوم چومسکی چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہے ہیں کہ امریکہ عالمی دہشت گرد ہے۔امریکہ عالمی بدمعاش بن چکا ہے جو سینہ زوری سے ملکوں پر ڈاکے ڈالتا ہے۔قیام اسرائیل سے لیکر آج تک امریکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو پولیس مین کی طرح استعمال کررہا ہے۔uno میں جب بھی کوئی ریاست فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرتا ہے امریکہ صہیونیوں کی خوشنودی کے لئے ویٹو کا کلہاڑا استعمال کر کے اسرائیل کو تحفظ عطا کرتا ہے۔ عہد حاظر کا انسان امریکی مظالم سے تنگ آچکا ہے۔یوں اوبامہ کا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ دیوانے کی بڑ ہوسکتی ہے ویسے ازراہ تفنن اوبامہ فلسطینیوں کو جو خواب دکھا رہا ہے انکی کوئی تعبیر نہیں۔ اوبامہ اگر فلسطین کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کر کے انسانیت نوازی کے اعلیٰ مظاہر ثابت کرسکتا ہےٍ۔ امریکہ کے پاس اتنی قوت موجود ہے کہ وہ یو این او کی قردادوں پر عمل کرواسکتا ہے مگر بھارت کی عقیدت میں مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنا امریکی مفادات کے لئے سود مند ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.