سلیم خان گزشتہ دو برس سے کینسر
جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے ،پہلے پہل تو اُس کا ہسپتال میں علاج ہو تا رہا
لیکن آج کل ڈاکٹروں نے اُسے لاعلاج قرار دے کر گھر بھیج دیا ہے ۔ سلیم کا
درد جب ناقابل برداشت ہو تا ہے تو گھر والے قریبی کلینک سے ثاکٹر کو بلا
لیتے ہیں جو اسے درد کش انجکشن لگا کر کچھ دیر کیلئے سن کر دیتے ہیں لیکن
جونہی دوا کا اثر ختم ہو تا ہے سلیم پھر سے چیخنے لگتا ۔ ایک روز سلیم اس
درد سے اس قدر عاجز آیا کہ اُس نے ڈاکٹر پر ہی حملہ کر دیا اور نتیجتاً وہ
ڈاکٹر کسی اور کا علاج کرنے کے بجائے خود اپنا علاج کرواتا پھر رہا ہے ۔
سلیم کے اس واقعے کا ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن سے بڑا گہر ا تعلق ہے ۔
گزشتہ کئی برسوں بعد بالآخر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سنا کر امریکی
صدر بارک اوباما نے اپنے عوام کو ایک اور درد کش دوا دینے میں کامیاب ہو
گئے ۔ وہ عوام جو گزشتہ 8برسوں سے پیٹ پر پتھر باندھ کر عراق اور افغانستان
میں پھنسی فوج کیلئے راشن پانی کا بندوبست کررہے تھے ،جنگوں کے باعث جن کی
کئی صنعتیں تباہ اور بینک دیوالیہ ہو چکے ہیں ، کو امید تھی کہ تبدیلی کا
نعرہ لگانے والا اور اپنی رنگت کے حوالے سے دوسروں سے منفرد نظر آنے والا
لیڈر فیصلہ سازی میں بھی منفرد ہو گا۔ اسی امید پر آج سے تین سال قبل
امریکی عوام نے اُسے منتخب کیا اور اُسے خصوصی طور پر مسلم دنیا میں امریکہ
کے خلاف پائی جانے والی نفرت کو محبت میں بد لنے،گوانتا ناموبے جیسے(بدنامہ
زمانہ) عقوبت خانوں کو بند کرنے اور افغانستان اور عراق میں پھنسی فوج کو
واپس بلانے کا مشن سونپا ۔
لیکن امریکی عوام کو اُس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اُنہوں نے
دیکھا کہ یہ حکمران بھی اپنے ایجنڈے سے ہٹ کر سابقہ حکمرانوں کے نقش قدم پر
چل نکلا ہے ،اور ملک دلدل سے نکلنے کے بجائے مزید دھنستا جارہا ہے ۔ اوبامہ
کی مقبولیت روز بروز روبہ زوال تھی ، قریب تھا کہ امریکی آئندہ انتخابات
میں ڈیموکریٹکس کو بدترین شکست کا مزہ چکھا تے لیکن اسامہ کی ہلاکت نے منظر
ہی بدل کر رکھ دیا۔ امریکی صدر جس کی مقبولیت جو اب سے کچھ دیر قبل نچلی
ترین سطح پر پہنچ چکی تھی ، میں ایک بار پھر مثبت رجحان نظر آیا ۔وہ لوگ جو
کل تک اوبامہ کو بُرا بھلا کہا کر تے تھے ، بدمست ہو کر وائٹ ہاﺅس کے باہر
رقص وسرور میں ایسے مشغول نظر آئے کہ اُنہیں یاد ہی نہیں رہا کہ جس مقصد
کیلئے اُنہوں نے اُس کو منتخب کیا تھا وہ مقصد تو وہیں کا وہیں ہے۔ لیکن وہ
خواب آور دوا کھا کر اس قدر بد مست ہو چکے ہیں کہ اُنہیں اس سوال کی فکر ہی
نہیں لیکن جب وہ ہوش میں آئیں گے تو اُس وقت تک اوبامہ صاحب دوسری مرتبہ
صدر منتخب ہو چکے ہو نگے۔
سیاست کا یہی وہ غلیظ طریقہ ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ملکوں میں
رائج ہے ،جس کے باعث سیاست عوامی خدمت کے بجائے جھوٹ اور فریب کا دوسرا نام
سمجھا جاتا ہے نتیجتاً کسی شریف آدمی کو اس طرف آنے کا سوچتے ہوئے بھی
گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے ۔ الیکشن کے دوران عوامی مسائل پر گلے پھاڑ پھاڑ
کر تقریریں کرو، ووٹ حاصل کرو اور جب منتخب ہو جاﺅ تو بلند و بالا فصیلوں
والی عمارتوں میں بیٹھ کر انہیں مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے رہو ۔ اور
جب عوام تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئیں تو 14نکاتی ایجنڈا یا پھر ہنگامی
کانفرنس بلاکر اُنہیں کوئی لالی پاپ دے دو۔
پاکستان کا حوالہ میں نے یہاں اس لئے بھی دیا ہے کہ یہاں بھی 63برسوں سے
بالعموم اور گزشتہ 3برسوں سے بالخصوص یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ عوام ججوں کو
بحال کر نے کی بات کر تے ہیں تو اُنہیں رہا کر کے چکمہ دے دیا جاتا ہے ۔
عوام لوڈ شیڈنگ سے بیزار ہو کر سڑکوں پر نکلتے ہے تو بجلی پیدا کرنے کے
منصوبوں کے بجائے بند کمرے کا ہنگامی اجلاس بلاکر ہفتے میں دو چھٹیوں ،
انجرجی سیور ز کے استعمال اور رینٹل منصوبے پیش کر کے اُنہیں ورغلانے کی
کوشش کی جاتی ہے۔ کسی دہشت گرد حملے میں معصوم انسانی جانوں کی ہلاکتوں پر
عوامی دباﺅ پڑ ے تو اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نتھی کر کے معاملہ گول کر
دیا جاتا ہے اور جب اُسامہ جیسے واقعات میں لاپرواہی کی بات آئے تو ماضی کی
فوجی حکومتوں کو گناہ گار ٹھہرا کر جمہوریت کو مزید مضبوط بنا نے کا درس
دیا جاتا ہے ۔
آج غربت ، بیروزگاری ،مہنگائی، دہشت گردی ، کرپشن ، لوٹ مار ، ٹارگٹ کلنگ
اور نہ جانے کیا کچھ اپنے عروج پر ہونے کے باوجود بھی اگر وزیر اعظم گیلانی
یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ حکومت اُن کی ہو گی تو بالکل بجا ہے کیوں کہ اگر
اوبامہ اپنے وعدوں پر عمل نہ کر کے لوگوں کو وائٹ ہاﺅس کے باہر جمع کر کے
اپنے نعرے لگوانے کا ہنر رکھتا ہے تو ہمارے حکمران بھی کسی سے کم نہیں ۔
ویسے بھی بعض تجزیہ کار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ بے شک ملکی معیشت
آخری سانسیں لے رہی ہو، مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث لوگ بچے فروخت کر نے
پر مجبور ہو جائیں لیکن اس حکومت کو چلنے دو۔ ہو سکتا ہے یہ بھی اوبامہ کی
طرح جاتے جاتے کوئی ایسی گولی دے جائے جس سے درد میں تھوڑا بہت افاقہ ہو
جائے ۔لیکن میری اُن تجزیہ کاروں سے گزارش ہے کہ مصر، لیبیا ،بحرین اور شام
کا بحران دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب معاملہ درد کش ادویات سے بہت
دور نکل چکا ہے ۔ اب تو یہ مریض دوائیں استعمال کر کے نفسیاتی مریض بن گئے
ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھی مصریوں کی طرح ایک دن اُٹھیں اور اپنے
معالجین پر جھپٹ کر اُنہیں نفسیاتی مریض بنا دیں۔ |