(سرکاری بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم کو انکم ٹیکس میں
دینے کی گنجائش ہے)
مال اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان اﷲ
تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن
شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز وحلال طریقہ سے
ہی مال کمائے کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اﷲ تعالیٰ کو جواب
دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال
سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اﷲ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔ مال کے نعمت
اور ضرورت ہونے کے باوجود خالق کائنات اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
مال کو متعدد مرتبہ فتنہ ،دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار
دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال ودولت کے حصول کے لئے کوئی کوشش ہی
نہ کریں کیونکہ طلب حلال رزق اور بچوں کی حلال رزق سے تربیت کرنا خود دین
ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ اﷲ کے خوف کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی گزاریں اور
اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش
ہو تو اخروی زندگی کو داؤ پرلگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی
مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک وشبہ والے امور سے بچیں۔
اِن دنوں حصول مال کے لئے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی
اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے، بلکہ کچھ
لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لئے جائز سمجھنا شروع
کردیا ہے، حالانکہ رسول اﷲ ﷺنے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے۔
اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیساکہ
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس
سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) نیز نبی اکرمﷺ کا ارشادہے کہ حرام کھانے، پینے اور
حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں۔ (مسلم) ہمارے معاشرہ میں جو
بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو
ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔
سود کیا ہے؟ وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی
چیزیں اور روپئے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض
کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest
یا Usury کہتے ہیں۔ جس وقت قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں
میں سودکا لین دین متعارف تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی
شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی
اخراجات کے لئے قرض لے رہا ہو یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple
Interest ہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر
سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لئے ۱۰۰ روپئے بطور قرض اس شرط پر دئے
کہ وہ ۱۱۰ روپئے واپس کرے تو یہ سودہے۔ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے
قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں
بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی
واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین
شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے وہ بھی سود ہے۔
سود کی حرمت: سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اﷲ تعالیٰ نے
ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا
ہے۔ (سورۂ البقرہ ۲۷۵) اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اﷲ تعالیٰ سود کو
مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (سورۂ البقرہ ۲۷۶) جب سود کی حرمت کاحکم
نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی
لینے سے منع فرمادیا گیا: سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔ (سورۂ
البقرہ ۲۷۸)
سود لینے اور دینے والوں کے لئے اﷲ اور اسکے رسول کا اعلان جنگ: سود کو
قرآن کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور
زنا کاری کے لئے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کئے گئے جو سود کے لئے
اﷲ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو!
اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان
والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اﷲ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے
تیار ہوجاؤ۔ (سورۂ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) سود کھانے والوں کے لئے اﷲ اور اسکے
رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ
مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس
رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفۂ وقت کی
ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن
اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)
سود کھانے والوں کے لئے قیامت کے دن کی رسوائی وذلّت:اﷲ تعالیٰ نے سود
کھانے والوں کے لئے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اﷲ تعالیٰ
نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت
میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا
ہو۔ (سورۂ البقرہ ۲۷۵) سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لئے
فرمان الٰہی ہے: یہ ذلت آمیز عذاب اس لئے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع
بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے حالانکہ اﷲ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا
ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔(سورۂ البقرہ ۲۷۵)
سود کھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے: لہذا جس شخص کے پاس
اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو
ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اﷲ کے
حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ
ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (سورۂ البقرہ ۲۷۵) غرضیکہ سورۂ البقرہ کی ان آیات
میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے
کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے
ہیں تو وہ اﷲ اور اسکے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ
سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ
جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
سود کے متعلق نبی اکرم ﷺ کے ارشادات: حضور اکرم ﷺنے حجۃ الوداع کے موقعہ پر
سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود
چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت
عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے۔ چونکہ
حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے،
اس لئے آپ ﷺنے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے
وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، باب حجۃ النبی) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا یارسول اﷲ! وہ
سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضور اکرم ﷺ
نے ارشاد فرما: شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا،
یتیم کے مال کو ہڑپنا، (کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا اور
پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم) حضور اکرم ﷺ نے سود لینے اور
دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت
فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضور اکرم ﷺ کی لعنت کے الفاظ حدیث
کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)
بینک سے قرض (Loan) بھی عین سود ہے: تمام مکاتب فکر کے 99.99% علماء اس بات
پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ
رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں
سورۂ البقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لئے
اﷲ اور اسکے رسول کا اعلان جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے قیامت کے
دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصر حاضر کی پوری دنیا کے
علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد
میٹنگیں ہوچکی ہیں مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے ۔
برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی،
نیودہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری
علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام
کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کے عدم جواز پر متفق
ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتب فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے
رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے
کے جواز کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
عصر حاضر میں ہم کیا کریں؟ ۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ
رقم پر سود کے جائز ہونے کو کہے تو پوری دنیا کے 99.99% علماء کے موقف کو
سامنے رکھ کراس سے بچیں۔ ۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علماء
کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ
رقم پر Interest کی رقم کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لئے
نہیں بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ
قرار دیا گیا ہے۔ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لئے قرآن کریم
میں وہ لفظ استعمال نہیں کئے گئے جو سود کے لئے اﷲ تعالیٰ نے استعمال کئے
ہیں۔ ۳) جس نبی کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں اس نے سود لینے اور دینے
والوں پر لعنت فرمائی ہے نیز شک وشبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی
ہے۔ ۴) بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ
لئے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔ ۵)
اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود
استعمال کئے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگادیں یا ایسے اداروں کو دے دیں
جہاں غرباء ومساکین یا یتیم بچوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ ۶) اگر کوئی شخص
ایسے ملک میں ہے جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت
کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھیں اور اﷲ
تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔ ۷) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست
ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ ہے،اس لئے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی
مصاریف میں استعمال نہ کریں بلکہ سرکاری بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم سے
حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کردیں کیونکہ مفتیان کرام کی ایک
جماعت نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ ۸) جو حضرات
سود کی رقم استعمال کرچکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اﷲ تعالیٰ سے توبہ کریں اور
آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزم مصمم کریں اور سود کی
مابقیہ رقم کو فلاحی کاموں میں لگادیں۔ ۹) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف
سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں
ملازمت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ
جائز کام بھی ہوتے ہیں مثلاً بینک میں رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں
ملازمت کرنا حرام نہیں ہے۔ ۱۰) اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر
سونے کے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ دونوں کی الگ الگ
قیمت لگواکر اس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے
اور فرق کو دینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔
﴿ایک اہم نکتہ﴾: دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی نظام
سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہونچتا ہے، نیز اس میں بے شمار
خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا ا ب اسلامی نظام کی طرف مائل ہورہی ہے۔
﴿نوٹ﴾: بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لئے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں
وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لئے قرض لینے سے ہے، لیکن تجارت کی
غرض سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ
قرآن میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے لیکن Single سود قرآن
کے اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر
کئے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے
کے لئے قرآن وحدیث کی واضح دلیل درکار ہے جو قیامت تک پیش نہیں کی جاسکتی۔
اسی لئے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت
کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی
اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا
سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰ سال سے مفسرین ومحدثین وعلماء کرام نے
دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریرفرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی
کہے کہ قرآن کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لئے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب
گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی
ہے،حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے،لہذا یہ حرام نہیں
ہے۔ایسے دنیا پرست لوگوں کو اﷲ تعالیٰ ہدایت عطا فرما۔
|