انتظامی اور انتقامی

پی ٹی آئی کی قیادت نے اب تک جوبھی اقدامات اٹھائے اِن میں بدترین تضادات منظرعام پرآئے ہیں،ارباب اقتدار کی اس آمرانہ یا مجرمانہ روش کے نتیجہ میں قومی اورصوبائی سطح پر پیداہونیوالے شدید تنازعات کے مضمرات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اس طرح توکوئی انسان اپنے بدترین دشمن کی املاک کونقصان نہیں پہنچاتا جس طرح کپتان نے پچھلے دوبرسوں سے پی آئی اے اور پولیس سمیت اہم ترین ریاستی محکموں کوتختہ مشق بنایا ہوا ہے۔پی ٹی آئی کے وزیراعظم اوردونوں وزرائے اعلیٰ سمیت وفاقی وصوبائی وزراء شروع دن سے بیوروکریسی کی طرف سے عدم تعاون کے گلے شکوے کررہے ہیں لیکن وہ اپناآمرانہ اورجارحانہ رویہ کیوں نہیں دیکھتے ،اس طرح کوئی عزت دار آفیسر ان کے ساتھ کام نہیں کرے گا۔سرکاری حکام کودباؤسے نکالنا اوران میں اعتمادبحال کرناپی ٹی آئی کی قیادت کے رویوں پرمنحصر ہے ۔ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اعلانیہ طورپرہروہ کام کیا جوعہداپوزیشن میں انہیں بہت برا بلکہ زہرلگتا تھا ۔عمران خان بھی اپنے پیشرووزرائے اعظم کی طرح کانوں کے کچے،ضدی ،جذباتی ،منتقم مزاج اورخوشامدپسندنکلے ۔کاش وہ اپنے وزیروں مشیروں کی چکنی چپڑی باتوں اوراپوزیشن رہنماؤں کی غیبت کی بجائے اپنی تین چار سال پرانی تقاریرسن لیا کریں۔پی ٹی آئی کے لوگ اپنے کپتان کے ہرماورائے آئین اقدام کاانتہائی بھونڈا جواز پیش اوراس کادفاع کرتے ہیں ۔شعیب دستگیر کونوماہ قبل آئی جی پنجاب تعینات کرتے وقت پی ٹی آئی کے قائدین اورکارکنان انتہائی پرجوش انداز میں ان کے گیت گا رہے تھے اورپھر جب انہیں تبدیل کیا گیاتوان پراپوزیشن کے ساتھ رابطہ رکھنے کامضحکہ خیز شوشہ چھوڑدیاگیا۔کیا اپوزیشن کے حامی پارلیمنٹرین یاسیاستدانوں کواپنے یاعوامی مسائل کے سلسلہ میں آئی جی یا ان کے ماتحت پولیس حکام سمیت دوسرے سرکاری اداروں کے آفیسرز سے ملنے یافون پررابطہ کرنے کاحق نہیں۔پاکستان کاہرفرداپنی ضرورت اورسہولت کے تحت سرکاری حکام سے رابطہ کرسکتا ہے ۔

پاک فوج اوردوسرے سرکاری اداروں کے حکام سمیت پولیس آفیسر اور اہلکار ریاست کے ملازم اور وفادار ہیں لہٰذاء انہیں کسی سیاستدان یا حکمران کا غلام سمجھنا اورحکومت کاان سے اپنے ناجائز احکامات کی تعمیل یا اطاعت کی امید لگانا ہرگزدرست نہیں۔کوئی پولیس آفیسر کسی حکمران کی" محبوبہ یامنکوحہ " نہیں جو اسے کسی اپوزیشن لیڈر کا فون آنے کی صورت میں حکمران کی غیرت کا جنازہ اٹھ جائے گا یا نکاح ٹوٹ جائے گا۔کیا وزیراعظم ،وزرائے اعلیٰ اوروفاقی وصوبائی وزراء سے اپوزیشن لیڈر سمیت ان کے حامی ارکان سے رابطہ نہیں کرتے ،کیا ان کی آپس میں رشتہ داریاں نہیں ہیں ،کیا یہ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوتے توپھر کسی اپوزیشن کے حامی پارلیمنٹرین یاسیاستدان کااپنے کسی کام کیلئے آئی جی پولیس سمیت دوسرے حکام سے رابطہ کرنا کس آئین یاقانون کے تحت گناہ کبیرہ ہے۔کیا ماضی میں پی ٹی آئی کے لوگ اپوزیشن رہنماؤں کی حیثیت سے پولیس حکام کے ساتھ ملتے یا ٹیلیفونک رابطہ نہیں کرتے رہے ۔ جس طرح ہمارے ہاں مساجداورمدارس کے دروازے دوسرے مسالک کیلئے ایک طرح سے بند ہیں اس طرح سرکاری دفاترکے دروازے حکومت مخالفین کیلئے بند نہیں کئے جاسکتے۔پی ٹی آئی کے قائدین اس قدرمتعصب،اناڑی ،ہٹ دھرم اورمنتقم مزاج بھی ہوسکتے ہیں مجھے اس بات کا اندازہ تک نہیں تھا ۔جس طرح کوئی بھی شہری حصول انصاف کیلئے عدلیہ کادروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اس طرح پولیس حکام کے دفاتر میں معاشرے کے مختلف طبقات پوری عزت،خوداعتمادی اورآزاد ی کے ساتھ آ جاسکتے ہیں۔کوئی حکمران کسی اپوزیشن رہنماء کوکسی معاملے میں قانونی چارہ جوئی کیلئے کسی آئی جی یاایس ایچ اوکے ساتھ رجوع کرنے سے نہیں روک سکتا۔تبدیلی سرکار معاشرے کابٹوارہ کرنے سے گریز کرے، کئی وزرائے اعظم آئے اورچلے گئے مگر ریاستی ادارے جہاں ہیں وہیں رہیں گے ۔عمران خان تاحیات وزیراعظم منتخب نہیں ہوئے ،ان کادوسری بارآئینی مدت کیلئے وزیراعظم منتخب ہونایقینی نہیں اسلئے وہ اداروں کواپنی ملکیت اورحکام کواپناغلام سمجھ کرانہیں ڈکٹیشن دینے اورپسندناپسندکی بنیادپران کے تبادلے کرنے کی غلطی دہرانابندکردیں ۔ میں شہباز شریف کے دور حکومت میں پنجاب کے سابقہ زیرک آئی جی حاجی حبیب الرحمن اور لاہورکے سابقہ پروفیشنل اورمستعد سی سی پی او کیپٹن (ر) محمد امین وینس کے دفاتر میں پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی ومذہبی پارٹیوں کے رہنماؤں کو اپنے اپنے کام کے سلسلہ میں آتے جاتے دیکھتارہا ہوں مگر اس پاداش میں حاجی حبیب الرحمن یا کیپٹن (ر)محمد امین وینس کو ٹرانسفر نہیں کیا گیا ، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پنجاب کے چار چیف سیکرٹری اورپانچ آئی جی'' انتظامی'' نہیں بلکہ'' انتقامی'' بنیادوں پر تبدیل کئے گئے۔پنجاب سمیت پورا پاکستان چیختا رہا بزدار کوہٹاؤ مگر کپتان نے سنی ان سنی کردی اورجس آئی جی کونہیں ہٹانا اسے ہٹادیا۔جس طرح عمران خان بحیثیت وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر اصرارکررہے ہیں اس طرح چیف سیکرٹری اور آئی جی حضرات کوبھی تین سا ل منصب پربرقراررکھنا قانونی تقاضا ہے۔

سرکاری حکام ہراس لکیر کے فقیر ہیں جوآئین اورقانون کی کتاب میں درج ہے،آئی جی سے ایس ایچ اوتک پولیس حکام کسی حکمران یااس کے فرمان نہیں بلکہ آئین وقانون کے پابند ہیں۔قانون کہتا ہے پولیس حکام کی وفاداریاں یاتوانائیاں کسی حکمران نہیں بلکہ ریاست اورعوام کیلئے وقف ہوں ۔ ہمارامعاشرہ کسی فردواحدکے نام نہاد فارمولے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔عمرشیخ اپنا نام نہادفارمولہ اپنے پاس رکھیں،پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح لاہورمیں بھی پولیس کانظام نام نہادعمر فارمولے یابزدار کے ویژن کی روسے نہیں بلکہ پولیس قوانین 2002ء کے تحت کام کرے گا۔اگرلاہورکاہرسی سی پی اوشہریوں سمیت اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں پراپنے اپنے نام نہادفارمولے آزمانے لگاتوپھرہمارا معاشرہ منتشراورمنقسم ہوجائے گا۔جہاں تک پولیس اصلاحات کیلئے دوررس تجاویزکی بات ہے توپھرسابقہ سی سی پی اولاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس اورایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ بی اے ناصرسے زیادہ قابل قدرآئیڈیاز کسی کے پاس نہیں ہوسکتے ۔ بزدار تاحیات وزیراعلیٰ پنجاب ہیں اورنہ عمرشیخ نے زندگی بھر سی سی پی اولاہوررہنا ہے،اسلئے پولیس کاکرداراوروقارداؤنہ لگایاجائے۔کوئی انسان دباؤاورگھٹن کے ماحول میں ڈیلیورنہیں کرسکتا،عمر شیخ ایک عزت دارآفیسر کی طرح اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کی عزت نفس کابھی بھرپورخیال رکھیں،اگرکوئی اہلکارغلطی کرے تو اسے محکمانہ ایس اوپیز کے تحت ضرور سزادیں لیکن کسی کورسوانہ کریں۔قلم قبیلے کے دوچاراحباب آئی جی پنجاب انعام غنی اورسی سی پی اولاہورعمر شیخ کوپروفیشنل قراردے رہے ہیں اگر انعام غنی پروفیشنل ہوتے تووہ پنجاب پولیس کے نیک نام،کہنہ مشق،انتھک اورزیرک ایڈیشنل آئی جی فنانس طارق مسعود یٰسین سمیت دوسرے سینئرز کے ہوتے ہوئے منصب قبول نہ کرتے لیکن شعیب دستگیر کی طرح آبرومندانہ اورجرأتمندانہ انکارکرنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں ۔اگرعمر شیخ میں پروفیشنل ازم ہوتا توان کی طرف اپنے کمانڈر کیخلاف محاذ نہ کھلتا اوریوں تبدیلی سرکار اورپنجاب پولیس کاتماشانہ بنتا۔عمران خان نے عمر شیخ کے معاملے میں بھی ایک بڑایوٹرن لیا ،وزیراعظم نے دوماہ قبل عمر شیخ کوان کی ناقص کارکردگی دیکھتے ہوئے ترقی دینے سے انکار کردیاتھا پھر اچانک ان کی سی سی پی اولاہورکی حیثیت سے تقرری کردی۔

دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب پولیس میں کسی قسم کی کوئی دھڑے بندی ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ جس وقت شعیب دستگیر نے سی سی پی اولاہور کی متنازعہ تقرری پراپنے شدید تحفظات کااظہار اوراس صورتحال میں بحیثیت آئی جی مزیدکام کرنے سے انکار کیا تواس وقت پچاس سے زائد پی ایس پی آفیسرز سی پی اومیں ایک ساتھ بیٹھے تاہم ان کاایک ساتھ بیٹھنا تبدیلی سرکار کیخلاف اعلان بغاوت نہیں تھا ۔اُس وقت شعیب دستگیر آئی جی تھے اورانہیں اپنے ماتحت آفیسرزکواپنے آفس میں طلب کر نے کاپوراحق حاصل تھا۔ لہٰذاء اس نان ایشو کوایشو نہ بنایاجائے کیونکہ شعیب دستگیر نے اپنے منصب کا چارج چھوڑنے سے انکار کیا اورنہ پی ایس پی آفیسرز کی طرف سے کوئی متفقہ چارٹرآف ڈیمانڈ منظرعام پرآیا۔پی ایس پی آفیسرز کی حالیہ نشست کی بنیادپران کی فہرست بنانااورمزید تبادلوں کاشوشہ چھوڑناتبدیلی سرکار اورصوبہ پنجاب کے مفادمیں نہیں ۔اداروں میں بیٹھے پروفیشنل آفیسرز کیلئے ان کی برداشت سے زیادہ گھٹن کاماحول پیدانہ کیاجائے،اس سے ان کاکام اورامن وامان بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔کیا پی ٹی آئی نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے باغی ارکان کافارورڈبلاک نہیں بنوایااورانہیں اپنے سینے سے نہیں لگایا،اگر پچاس پی ایس پی آفیسرز نے ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پی لی تو اب تبدیلی سرکار اس پیالی میں طوفان برپا نہ کرے ۔اگرانتقامی بنیادوں پر پنجاب پولیس میں مزید تبادلے کئے گئے توپی ٹی آئی کی سیاست کاباب بندہوجائے گا۔پنجاب میں انتظامی کی بجائے انتقامی بنیادوں پرتبادلے بدانتظامی کے غماز ہیں۔

 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 147 Articles with 106596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.