پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس میں مذہبی منافرت،
عدم رواداری، عدم برداشت اور فرقہ واریت ایک ایسا خطرناک مسئلہ ہے جس نے
پاکستان کی بنیادیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ پاکستان نظریاتی اور اسلامی نعروں کی
بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ اگر مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ
پڑتے ہیں تو پاکستان کے وجود کا بیانیہ ہی غلط قرار دیا جاتا ہے۔ اِس وقت
دُنیا میں درجنوں اسلامی ممالک ہیں مگر فرقہ وارانہ تعصب کی جو فضا پاکستان
میں ہے وہ کسی ملک میں نہیں ہے۔ ترکی اور سعودی عرب دو الگ الگ مذہبی نقطہ
نظر کے ملک ہیں مگر دونوں میں فرقہ واریت نہیں ہے اس لیئے کہ وہاں کی
حکومتوں اور اشرافیہ نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیئے مذہبی گروہوں کی سرپرستی
نہیں کی ہے۔ شیعہ ایران اور سلفی وہابی سعودی عرب کے اندر پوری طرح مذہبی
ہم آہنگی ہے۔ یہاں تک کہ افغانستان جیسے پسماندہ اور جنگ زدہ آفت زدہ ملک
میں بھی ایک ہی فقہ حنفی کے ماننے والے ہیں اورافغان طالبان کسی صورت سلفی
وہابی لوگوں کو اپنامسلکی عقیدہ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ افغان
طالبان میں شیعہ،سنی دیوبندی اوربریلوی تمام گروہ شامل ہیں۔پاکستان
کوترکی،ایران،سے نہیں توکم ازکم افغانستان سے مذہبی یکسانیت اوررواداری کا
سبق لینا چاہیئے۔ بدقسمتی سے ڈکٹیٹرشپ کے دنوں میں باربارکسی نہ کسی گروہ
کو سیاسی مقاصدکے لیئے پاکستان میں پروان چڑھایاگیا۔ روس افغانستان جنگ کے
دوران میں سعودی ریال توآگئے مگرسعودی عرب بغیراپنے وہابی مسلک کی اشاعت کے
کسی کو کوئی امدادنہیں دیتا۔ ایران بھی اسی طرح کے علمی وادبی طریقے سے
اپنے شیعہ مسلک کو فروغ دے رہاہے اوراپنے گروہوں کو ہر قسم کی مالی
امداددیتاہے۔ پاکستان کی اس بدقسمتی کا سب سے زیادہ خمیازہ خیبرپختونخواہ
صوبے کو بھگتناپڑرہاہے۔ ہرقسم کے مذہبی لیڈر، اسلامی مدارس اوروہابی اور
شیعہ مسلک کے اداروں کی بھر مارصرف اس صوبے میں ہے۔حال ہی میں ختم نبوت
اورناموسِ رسالت کے لیے جو جلسے جلوس کیئے گئے وہ بھی زیادہ ترپختونخواہ
میں ہوئے۔مذہبی منافرت نے پختون روایات اورپرامن افغان معاشرے کو تباہ
وبربادکردیاہے۔ امریکہ افغان جنگ کے اختتام پر اب بھارت اورامریکہ پاکستان
سے کچھ نہ کچھ بدلہ تولے گا۔اس کے لیے بھارت اورامریکہ نے پاکستان میں فرقہ
واریت کی آگ بھڑکانے کا ایک خطرناک منصوبہ بنایاہے جس کے لیے پختونخوامیں
سٹیج تیارہوچکاہے۔ آئی جی پولیس کے دفتر سے ڈی آئی جی آپریشن نے ایک مراسلہ
جاری کیاہے جس کے مطابق پشاور میں ممتاز شیعہ افراد جن میں یونیورسٹی کے
اساتذہ بھی شامل ہیں کواہلسنت والجماعت کی طرف سے قتل کا خطرہ ہے۔ یہ ایک
خطرناک مراسلہ تھا۔ یہ شیعہ افراد عرصے سے پشاور میں امن وسکون سے رہ رہے
ہیں۔ان کو اچانک خطرہ کہاں سے آگیا؟ شیعہ افراد تو پنجاب اور سندھ میں سب
سے زیادہ ہیں۔۔ ان کو خطرہ کیوں نہیں ہے؟ اہلسنت والجماعت تو عام طور پر
پرامن لوگوں پر مشتمل ہے پھر یہ اقدام کیوں کریں گے؟ وہابی مسلک کے بے شمار
مساجد اور مدارس نوشہرہ اور پشاور کے مضافات میں سعودی دولت سے بنائے گئے
ہیں جو روزانہ کے حساب سے بریلوی، شیعہ اور دیوبندی عقائد پر حملے کر رہے
ہیں اور دوسری طرف سے جواب بھی ترکی بہ ترکی مل رہے ہیں۔ حکومت نے ان وہابی
علما اور مدارس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جس سے معاشرے میں سخت بے
چینی، افراتفری اور جنگ کا سماں پیدا ہو چکا ہے۔ کسی وقت بھی یہ آگ بھڑک
سکتی ہے۔ بریلوی حضرات نے بھی تحریک لبیک کی صورت میں تشدد آمیز تیاری کر
لی ہے۔ دیوبندی حضرات بھی سیاست میں ناکامی کی وجہ سے اپنا غصہ نکال سکتے
ہیں۔ ان تمام باتوں کا فائدہ صرف اور صرف بھارت اور امریکہ کو ہوگا جو
پختون قوم کو سر اُٹھانے سے پہلے کچلنا چاہتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کا اشرافیہ
بھی اس بات سے سخت ناراض ہے کہ پختون قوم کیوں کاروبار، تعلیم، سرکاری
ملازمتوں اور سیاسی سطح پر آگے بڑھ رہی ہے۔ پختون قوم کے پاس افغان جنگوں
کے دوران میں پیسہ بھی بہت آیا ہے اور اسلام آباد سے کراچی دوبئی تک
کاروبار پر بھی حاوی ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال پنجاب کے بڑوں کو پسند نہیں ہے
اس لیے پختون قوم کو ایک بار پھر اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے کوئی نہ کوئی
کھیل کھیلا جا ئے گا۔ اس بار یہ کھیل پشاور ومضافات میں فرقہ وارانہ جھگڑوں
سے شروع ہوگا۔ پولیس کو اس بارے میں پیش بندی کرنی ہوگی۔ انٹلیجنس اداروں
سے بھی درخواست ہے کہ وہ پختونخوا کو مزید تجربہ گاہ بننے سے روکیں۔ مولانا
فضل الرحمان اور سراج الحق سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کا مرکز
پنجاب منتقل کردیں تو بہتر رہے گا اور سیکولر قوتوں اور دانشوروں سے بھی
درخواست ہے کہ وہ اس کھیل کو ناکام بنانے کے لیے آواز اُٹھائیں اور سعودی
عرب اور ایران کی دولت سے چلنے والے اداروں اور مولویوں کو بے نقاب کریں۔
|