فرمانروا سعودی عرب شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح کردیاہے کہ سعودی عرب فلسطین کا منصفانہ اور مستقل حل
چاہتا ہے۔ سعودی کے سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق اتوار6؍ستمبر کی شب
سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ٹیلیفون پر ہونے والی
بات چیت میں سعودی فرمانروا نے امریکہ پر فلسطین کا مسئلہ عرب امن اقدام کے
تحت حل کرنے پر زور دیا۔اعلامیہ کے مطابق سعودی فرمانروا نے امریکی صدر پر
واضح کیا کہ مملکت فلسطین کا مستقل اور منصفانہ حل چاہتی ہے جس کے لئے عرب
امن معاہدے کو بنیاد تصور کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے مذکورہ معاہدہ 2002میں
تجویز کیا تھا جس میں اسرائیل کو دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے اور 1967ء کی
عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کی گئی زمین سے دستبردار ہونے کی صورت میں سفارتی
تعلقات کی بحالی کی پیش کش کی گئی تھی۔واضح رہے کہ گذشتہ ماہ متحدہ عرب
امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے اور سفارتی تعلقات کے
قیام کے بعد عرب اور مسلم دنیا کی نظریں سعودی عرب پر جمی ہوئی ہیں۔ سعودی
عرب نے ابتدائی طور پر اس معاہدے پر تبصرے سے گریز کیا تاہم بعد ازاں مختلف
بیانات میں دو ریاستی حل پر زور دیا جب کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام
کو سرے دست خارج از امکان قرار دیا ہے۔لیکن دوسری جانب جمعہ کے خطبہ میں
مکہ معظمہ مسجد الحرام کے امام و خطیب اور حرمین شریفین کے امور کی جنرل
پریسڈنسی کے صدر عبدالرحمن السدیس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے
کی درخواست کی ۔ انکے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ۔اسرائیل
میں اس خطبہ کا خیر مقدم کیا گیا تاہم فلسطین کے حامیوں نے اس پر اظہار
خیال کرتے ہوئے اسکی سخت مذمت کی اور صدمے کا اظہار کیا۔یہودیوں خصوصاً
اسرائیلی صیہونی مملکت کے قیام کے بعد سے جس طرح فلسطینی معصوم اور بے قصور
مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے اس کا ازالہ ناممکن ہے۔ ان
حالات کے باوجود مظلوم فلسطینیوں نے جس طرح صبر آزما آزمائش کا مقابلہ کیا
اور اپنی اور اپنے عزیزوں کی جانوں کی قربانی دی اور زخموں سے دوچار ہوئے
اسے دنیا جانتی ہے۔ اس کے باوجود حرم مکی کے امام و خطیب عبدالرحمن السدیس
کا بیان کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ہونے چاہیے سوالیہ نشان
کھڑا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں نے ان کے اس بیان پر
شدید مذمتی الفاظ تحریر کئے ۔ اب دیکھنا ہیکہ شاہی حکومت امام و خطیب کی
جانب سے حرم مکہ میں دیئے جانے والے خطبہ کے تعلق سے کس قسم کے ردّعمل کا
اظہار کرتی ہے۔ اگر شاہی حکومت اس سلسلہ میں خاموشی اختیار کرتی ہے تو یہ
بات واضح ہوجاتی ہے کہ شاہی حکومت کے اشارے پر ہی یہ خطبہ دیا گیا ہو۰۰۰
ّعالمِ عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے امریکہ
اور دیگر سوپرپاور ممالک سرجوڑ کوشش میں لگے ہیں کہ مسلم حکمراں اسرائیل کے
ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیں ۔ ایک طرف فلسطینی عوام سے اسرائیل کی مکاری
عیاں ہوتی ہے تو دوسری جانب اسرائیل چاہتا ہیکہ اس سے عالمِ عرب و دیگر
اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں بحالی پیدا ہو۔اسرائیل خطہ میں اپنی
دہشت اور دبدبہ بٹھانا چاہتاہے اور اس کے لئے اسے دشمنانِ اسلام کے کئی بڑے
بڑے حکمراں کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے
درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے مثبت و منفی پہلوؤں کو مدّنظر
رکھ کر عوام نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور متحدہ عرب
امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداﷲ بن زاید النہیان 15؍ ستمبربروز منگل ،
امریکہ میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدے پر دستخط
کریں گے۔ امریکی صدر نے گذشتہ ماہ 13؍ اگست کو دونوں ممالک کے درمیان ہونے
والے معاہدہ کا اعلان کیا تھا اس معاہدہ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب
سے اسرائیل کے ساتھ باہمی تعلقات کو معمول پر لانے پر آمادگی ظاہر کی گئی
تھی ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل نے یہ مانا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مجوزہ امن منصوبے ’’ویژن فار پیس‘ میں متعین
کردہ علاقوں پر اپنی خود مختاری کا دعوی کرنا بھی روک دے گا۔ دیکھنا ہے کہ
اسرائیل کیا واقعی فلسطینی علاقوں پر جہاں اس کا قبضہ ہے چھوڑدے گا۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طے پائے معاہدے پر ایران او رترکی
نے شدید تنقید کی ہے اور اسے فلسطینی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے مترادف
قرار دیاہے۔ اس معاہدے سے امریکہ ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کو فائدہ
ہوگا جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکی
ووٹروں کے سامنے اپنے آپ کو مشرقِ وسطیٰ میں بطور امن مندوب پیش کرسکتے ہیں۔
سعودی عرب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طے پائے معاہدے پرنرمی
اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے تعلق سے سعودی عرب کی مستقبل
میں کیا پالیسی رہے گی اس سلسلہ میں متضاد بیانات اور اشارے مل رہے ہیں۔
امریکہ چاہتا ہکہ دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کریں
تاکہ خطہ میں حالات بہتر اور پرامن ہوجائیں ۔ لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں
دیتا کیونکہ عام مسلمان اسرائیل کی بربریت اور ظلم کو دیکھ چکے ہیں انہیں
پتہ ہیکہ معصوم اور بے قصور فلسطینی عوام پر اسرائیل نے کس طرح مظالم ڈھائے
ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ 15؍ ستمبر کو امریکہ میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات
کے درمیان طے پائے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد دیگر عرب ممالک کس قسم کے
ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں اور کون کون اسرائیل ساتھ سفارتی تعلقات قائم
کرنے کے لئے آگے آتے ہیں۰۰۰
سوڈان میں اسلامی قوانین کی 30سال بعد برخواستگی
سوڈان میں 30سال بعد اسلامی شرعی قوانین ختم کردیئے گئے اور مذہب کو ریاستی
امور سے الگ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ سوڈان جو شمالی افریقہ کا ملک ہے۔
بلومبرگ کے مطابق سوڈانی وزیر اعظم عبداﷲ حمدوک اور سوڈانی پیپلز لبریشن
موومنٹ نارتھ باغی گروپ کے سربراہ عبدالعزیز الحولو نے ایتھوپیا کے
دارالحکومت ادیس ابابا میں اس اعلامیہ پر دستخط کئے، اس اعلامیہ میں بتایا
گیا کہ سوڈانی ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ عمر
البشیر نے جب 1989ء میں سوڈان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت قائم کی
تھی تو انہوں نے ملک میں اسلامی قوانین نافذ کئے تھے۔ سب سے سوڈان میں
عالمی پابندیاں عائد تھیں جو اب بتدریج اٹھائی جارہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق بتایا جاتا ہے کہ نئے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ’’ سوڈان کو ایسی
جمہوری ریاست بنانے کے لئے، جس میں تمام شہریوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو،
ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہوگا‘‘۔ رپورٹ کے مطابق سوڈانی
حکومت اور باغی گروپ کے درمیان ایک ہفتہ قبل ایک امن معاہدے کی طرف پیشرفت
ہوئی تھی اور اب دونوں کے درمیان سوڈان سے شرعی قوانین کے خاتمے پر اتفاق
ہوگیا ہے۔
افغان نائب صدر امراﷲ صالح پر حملہ۰۰۰
افغانستان کے نائب صدر امر اﷲ صالح دارالحکومت کابل میں ایک خودکش حملے میں
بال بال بچ گئے انہیں چند معمولی چوٹیں آئی ہیں ۔حملے کے بعد جاری ہونے
والے ایک بیان میں نائب صدر امراﷲ صالح نے کہا کہ ان کا ایک ہاتھ جلا ہے۔
اس حملے میں دس افراد ہلاک اور دس زخمی بتائے جارہے ہیں۔ خودکش حملہ کابل
کے علاقے تائیمانی میں ہوا، ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ خودکش حملہ افغان نائب
صدر امراﷲ صالح کے قافلے پر کیا گیا ۔امراﷲ صالح سے متعلق کہا جاتا ہے کہ
وہ طالبان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں۔ ادھر افغان طالبان کا کہنا ہیکہ
انکا اس حملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک
ایسے وقت کیا گیا جب افغان حکومت اور طالبان کے بالآخر مذاکرات کا دوبارہ
شروع کرنے کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اب اس حملہ
کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے ۔افغان صدر اشرف غنی نے حملہ کی مذمت
کی۔ اس سے قبل بھی 5؍ جولائی کو بھی امراﷲ صالح کے دفتر پر حملہ کیا گیا
تھا ، جب وہ افغانستان کے پہلے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ امراﷲ اس سے قبل
افغانستان کے وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے
خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اس حملہ کی ذمہ داری کون قبول
کرتے ہیں اور افغان حکومت ظالم دہشت گردوں کو کس طرح کی سزا دیتی ہے۔
ترکی کی مخالفت میں دشمنانِ اسلام ہی نہیں عرب ممالک بھی پیش پیش ۰۰۰
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اقتدار پر انکی مضبوط
گرفت نے دشمنانِ اسلام ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے بعض حکمرانوں کی نیندیں
اڑاکر رکھ دی ہیں۔ مصر کی ترکی کی مخالفت صرف بحیرۂ روم کے گیس کے ذخائر تک
ہی محدود نہیں ہے ۔ مصر اور متحدہ عرب امارات بحیرۂ روم میں ترکی کے
اقدامات کو اس کی مبینہ توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اسے
روکنا چاہتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی اور یونان میں
کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ نیٹو کے ان دوممالک کے درمیان سمندری
حدود اور وہاں قدرتی وسائل کو حاصل کرنیکے تنازعے نے جنگ کی صورتحال پیدا
کردی ہے۔ ترکی نے شمالی قبرص میں موجود فورسز کے ساتھ پانچ روزہ فوجی مشقیں
شروع کی ہیں جنہیں طوفانِ روم کا نام دیا گیا ہے۔ قبرص یونان اور ترکی کے
درمیان تقسیم ہے اور صرف ترکی ہی ترک جمہوریہ شمالی قبرص (ٹی آر این سی) کو
تسلیم کرتا ہے۔ ترکی کا کہنا ہیکہ یونان اس خطے کی موجودہ حیثیت کو تبدیل
کررہاہے جو عالمی معاہدوں کے تحت غیر فوجی علاقے ہیں۔ ترکی کا کہنا ہیکہ
یونان نے ترکی کی سرحد کے قریب اپنے جزیرے کاسٹلیزو میں اپنی فوجیں روانہ
کی ہیں جس پر یونان کا کہنا ہیکہ اس نے گارڈز کو تبدیل کیا ہے جو معمول کی
کارروائی ہے۔ 6؍ اگسٹ کو یونان اور مصر نے سمندری حدود کے حوالے سے ایک
معاہدے پر دستخط کئے جس پر ترکی نے سخت ردّعمل کا اظہار کیا اور علاقے میں
تیل و گیس کی تلاش کیلئے اپنا جہاز ان پانیوں میں بھیجا جو اب بھی قبرص کے
قریبی علاقوں میں سروے کررہا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ روزہ فوجی مشقیں بھی
شامل ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ترکی اردغان نے 26؍ اگسٹ کو اپنی ایک تقریر میں
کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی دیکھ لے کہ ترکی ایسا ملک نہیں رہا جس کے
عزم، حوصلے اور صبر کو آزمایا جاسکتا ہے، ہم سیاسی، فوجی اور معاشی طور پر
سب کچھ کرنے کیلئے پرعزم ہیں، ہم کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں‘‘۔ فرانس کی
جانب سے یونان کی حمایت کے اعلان پر ترکی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے
کہاکہ پیرس یونان کو اشتعال دلارہا ہے تاکہ وہ سخت موقف اختیار کرے۔ ترکی
ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک غلط قدم دونوں ممالک کے مابین جنگ کا موجب بن
سکتا ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ ترکی کی مخالفت میں کتنے اسلامی ممالک کے حکمراں
متحد ہوتے ہیں، ترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے کئی مسلم حکمراں
اسکی مخالفت کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔
|