خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں فتوحات و مہمات
کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہم پرعیاں ہوتی ہے کہ اس وقت کے
مفتوح ممالک کے اکثر حکمران ،امراء و رُوسا،اراکین دربار اور بیشترنام نہاد
مذہبی پیشوا ؤں نے نفسانی خواہشات میں مبتلا ہو کرکمزور اور مظلوم انسانوں
کی عزت و آبرو اور جان و مال کو کھیل تماشا بنا لیا تھا حالات اس قدر
انتشار کا شکار تھے کہ اسلام نے خاندانوں اور قبائل کی جس تفریق اور امتیاز
کو مٹا دیا تھا اس کو بھی انہوں نے دوبارہ رائج کر دیا تھا نیز خواتین کی
عصمت دری ان حکمرانوں کا معمول بن چکا تھا ۔واقعہ کربلا نے تو تاریخ بنو
امیہ کو ہی لہو لہو کر ڈالا تھا اقتدار بندمٹھی میں ریت کی مانند پھسلتا
جارہا تھا بغاوتوں اور شورشوں کے اس ازدہام میں ایک ایسے جابر مردِ آہن کی
خدمات بنو امیہ کو میسر آئیں کہ جس کی سربراہی میں لائق فائق جرنیلوں نے
دنیا کا صرف جغرافیہ ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کا دھارا بھی بدل ڈالا ۔
یہ نوجوان شہر طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف میں پیدا ہوا والد مدرس تھا
ابتدائی تعلیم ان سے حاصل کی اور تدریس کا پیشہ ہی اختیار کیا مگر میلان
طبیعت نہ ہونے کیوجہ سے طائف چھوڑ کر دمشق کا رخ کیا وہاں اسے خلیفہ کے
وزیر روح بن زنباع کی جاگیر کی بطور کوتوال دیکھ بھال کی ملازمت مل گئی اسی
دوران اس کی خدادا صلاحیتیں عوام الناس پر آشکار ہوئیں اور ہر طرف چرچا
ہونے لگا ۔حالات یہ تھے کہ خلیفہ عبدالمالک بن مروان اپنی فوج کی کاہلی اور
سستی سے سخت نالاں تھا اسے فوجیوں کے لیے ایسے محتسب کی ضرورت تھی جو اس
بکھرے ہوئے انبوہ کو لشکر جرار کی سطوت دے تو اس کے وزیر نے اس عہدے کے لیے
اپنے کوتوال کا نام پیش کیا وقت نے ثابت کیاکہ خلیفہ عبدالمالک کا فیصلہ
درست تھاکیونکہ اس نوجوان نے کچھ ہی عرصہ میں فوج کو سیدھا کر دیا یہاں تک
کہ اموی فوج اس نوجوان سے دہشت کھانے لگی خلیفہ عبد المالک اس کی اقتداری
صلاحیتوں کا معترف ہو چکا تھا لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ اس وقت وہ جس انتشار
سے نبرد آزما ہے اس کی بہتری کے لیے اس نوجوان سے بہترحاکم کوئی اور نہیں
ہو سکتا اور اس نے اہل خراسان ،کوفہ اور بصرہ کی باغیانہ روش کو ختم کرنے
لیے اسے گورنر مقرر کر دیا ۔گورنر مقرر ہونے کے بعد حجاج نے صرف 12آدمی
ہمراہ لیے اور غیر متوقع طور پر کوفہ پہنچ گیا حجاج نے منہ پر نقاب ڈھالا
ہوا تھا کہ لوگ پہچان نہ پائیں اور مسجد میں داخل ہوگیا اس کے آدمی لوگوں
کو اکٹھا کر رہے تھے حالات یہ تھے کہ اپنے گورنر کے استقبال کے لیے لوگ
ہاتھوں میں پتھر لائے تھے مگر اس نوجوان نے ممبر پر چڑھ کر جو خطا ب کیا اس
کو سن کر لوگوں نے نہ صرف پتھر ہاتھوں سے چھوڑ دئیے بلکہ دہشت سے لرز گئے ۔
یہ نوجوان ’’ حجاج بن یوسف ‘‘ تھا جس کو سفاک اورظالم گورنر کے القاب سے
یاد کیا جاتا ہے مگر اس کی سفاکی کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ
حجاج بن یوسف کی سخت گیری نے اسلامی سلطنت کو ایسا وسعت اور استحکام عطا
کیا کہ اس کی قیادت میں نہ صرف مظلوم انسانوں کو نجات ملی بلکہ اسلام کی
کرنوں سے یہ خطے تھوڑے ہی عرصے میں جگمگا اٹھے حتی کہ امت کی ایک بیٹی کی
پکار پر لبیک کہتے ہوئے راجا کو سبق سکھانے کے لیے حجاج نے اپنے ہی بھتیجے
محمد بن قاسم کو سندھ روانہ کر دیا جس کی فتوحات کے نتیجہ میں سیاسی ،تہذیبی
اور علمی اعتبار سے ایک جمہوری اور روشن خیال دور کا آغاز ہوا ،ہر شہری کے
جان و مال کو تحفظ حاصل ہوا محمد بن قاسم اور اس کے جانشینوں نے رعایا
پروری کی ایسی مثال قائم کی کہ اس کی روانگی پر عوام آنسو بہاتے تھے اور اس
کی یادگاریں بنا تے تھے ۔
آج کے حکمرانوں کے پتلے جلائے جاتے ہیں کیونکہ راجا داہر کی دہریت اوربے
غیرتی پر مبنی غفلت ہمارا شیوہ بن چکی ہے ہر روزبیٹیوں کی عزتیں پامال ہوتی
ہیں مگر کوئی فریاد بھی ایوانوں پہ لرزہ طاری نہیں کرتی اگر جابر حکمران
مظلوموں کی داد رسی اور ایک عورت کی عصمت لٹنے پر پریشان ہو کر اپنے ہی
بھتیجے کو میدان جنگ میں اتارسکتا تھا تو آج کے کرتا دھرتا خاموش تماشا ئی
کس مصلحت کی بنا پر ہیں ؟کیا و ہ قوم کی بیٹیوں کو اپنے گھر کی بیٹیوں جیسا
نہیں سمجھتے ؟ پورے ملک کی اسمبلیاں و دیگر زیریں و بالا ایوان‘ مذہبی
جماعتوں کے سمال و لانگ مارچ کرنے والے قائدین اور انسا نی حقوق کی تنظیمیں
‘مجرمانہ انداز میں چپ کیوں ہیں؟کیا یہ سب گمان کرتے ہیں کہ انھیں تاریخ
معاف کر دے گی؟
بہرحال قیام امن کی بنیادی ذمہ داری پولیس اور ضلعی انتظا میہ پر عائد ہوتی
ہے اگر پولیس مظلوموں کی داد رسی کی بجائے با اثر عوامل کا اثر قبول کر کے
ایسے مقدمات درج کرتی رہے گی کہ جن میں بد نیتی سے ایسے سقم رکھے گئے ہوں
جو عدالتوں میں ایسے مواقع فراہم کریں کہ جن کے نتیجے میں کافی ثبوت فراہم
کرنے کے باوجود بھی جرح کے مراحل میں شک و شبہات کا فائدہ دے کر سنگین سے
سنگین جرائم کرنے والوں کو بھی جب قرار واقعی سزا نہ ملے گی تو پھرایسے
واقعات ہوتے رہیں گے لیکن ایسی لرزہ خیز حقیقتیں ثبوت ہیں کہ موجودہ حکمران
مکمل طور پر امن عامہ قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ایک وہ وقت تھا کہ
حاکم وقت یہ سمجھتا تھا کہ اگر کوئی جانور بھی پیاسا مرگیا تو اس کی موت
کیوجہ میری بد نظامی قرار پائے گی تو روز محشر وہ نجات نہیں پائے گا اور آج
حالات اس نہج پر ہیں کہ بچے بھی محفوظ نہیں اور ہمارے حکمران صرف نوٹس لینے
پر خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں جبکہ آج تک کسی نوٹس کے نتیجے میں کوئی
منطقی انجام تک نہیں پہنچا ۔بے شمار ایسے معاملات ہیں جن کو یکسر فراموش کر
دیا جائے تو کوئی بات نہیں لیکن جہاں چادر اور چار دیواری کا نہیں تو حاکم
وقت کو حقیقی معنوں میں حکومت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں اگر آج ہم نے حالات
سنوارنے کے لیے حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کی غیرت اور حمیت کو اختیار
نہ کیا تو خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔یہ یاد رکھیں کہ اُس وقت
تک قانو ن و انصاف کی عملداری قائم نہیں ہو سکتی جب تک ذمہ داروں پر سختی
نہ کی جائے اور خاص طور پر حکومتی عہدے داران اور اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہے کہ
اگر کسی واردات کا نوٹس لیا کریں تو اُ س پر ایکشن بھی نظر آنا چاہیے وگرنہ
تو یہاں نوٹس لینا مذاق بن چکا ہے ۔یہ فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ مجرمانہ غفلت
کو ترک کر کے ا من و سلامتی کا علم بلند کرنا ہے یا یزیدیت کو اپنا کر
تاریخ کے صفحات کو لہو لہو کرنا ہے ۔
|