یوں تو دشمنانِ اسلام مسلم حکمرانوں کو کسی نہ کسی طرح
نیچا دکھانے اور ان کی سلطنتیں ہتھیانے کی ہمیشہ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ مسلم
حکمرانوں کے خلاف انکے ما تحتین اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو خریدنے
اور انہیں کئی طرح کے لالچ دے کر غداری پر اکساتے رہے ہیں۔ ترکی کی ایک
عظیم الشان تاریخ رہی ہے۔ اور آج بھی ترکی دنیا میں اپنا ایک علحدہ مقام
رکھتا ہے ۔موجودہ صدر رجب طیب اردغان نے جس طرح ترکی کو پھر ایک مرتبہ دنیا
کے سامنے ایک طاقتور اور خوشحال ملک کی طرح پیش کرنے کی سعی کررہے ہیں اس
سے انکے دشمنوں میں کھلبلی مچی نظر آتی ہے۔ دشمنانِ اسلام ہی نہیں بلکہ
مسلم حکمراں بھی طیب رجب اردغان کے فیصلوں سے خوف کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان سب کے باوجود صدر ترکی رجب طیب اردغان نے ملک کے بہتر مستقبل کے سلسلہ
میں کہا کہ ’’میری جدوجہد اپنے ملک اور اس کے مستقبل کیلئے ہے‘‘۔ اردغان
حزب اقتدار جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی کے استنبول میں منعقدہ ایک لاکھ نئے
اراکین پروگرام سے خطاب کے دوران کہا کہ ترکی کو دہشت گردی، دباؤ اور
اقتصادی ہتھکنڈوں سے ہدف بنانے والوں کا مقصد ہمارے پروقار مصمم موقف کو
متزلزل کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ دشمن طاقتیں انہیں اور جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ
پارٹی کو ہدف بناکر اصل میں ترکی کو اسیر بنانا چاہتے ہیں، ترکی کو نیچا
دکھانے کے لئے ہر ہتھکنڈے آزمانے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ طیب اردغان نے اس سے
قبل بھی سیواس کانگریس کی 101ویں سالگرہ کے موقع پر کہا تھا کہ ’’جو کوئی
بھی ہماری سرزمین ، ہمارے پرچم اور ہماری آزادی کو نقصان پہنچانے کی کوشش
کرے گا اسے بھرپور طریقے سے انکا جواب دیا جائے گا اور ان سب کو مایوس ہونا
پڑے گا۔ انکا کہنا تھاکہ ترک قوم ان جنت نما سرزمین کی ہر طرح سے حفاظت کرے
گی اور اسے کبھی تقسیم ہونے نہیں دے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسا کہ
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ ’’ہمارا مسئلہ ترک ملت سے
نہیں اردغان سے ہے، اردغان کو اقتدار سے ہٹانا ضروری ہے ‘‘۔ جس پر صدر ترکی
اردغان نے کہاکہ میکرون تمہارا تو یوں بھی وقت کم رہ گیا ہے، تم تو اقتدار
سے جانے والے ہیں۔ رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ انہوں نے چند سال قبل
فرانس کے صدر میکرون کو ایک ٹیلی فونک ملاقات میں کہا تھا کہ دیکھو تمہیں
تاریخ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے پہلے تاریخ کو جانو اور ترکی کو تاریخ
کا درس دینے کی کوشش مت کرو، ہم الجزائر سے پہنچانتے ہیں، ایک ملین
الزائریوں کو آپ لوگوں نے مارا ، روندا، آٹھ لاکھ شہریوں کو آپ نے قتل کیا،
ہم آپ کو لیبیا سے پہنچانتے ہیں ، آپ لیبیا کے ہزاروں باشندوں کے قاتل ہیں،
آپ ہمیں انسانیت کا درس دینے کے اہل نہیں ہیں، ہم عثمانیوں کی حیثیت سے جب
ان علاقوں میں پہنچے تو اپنے ساتھ امن و آمان لے کر گئے، ہم وہاں انسانیت
لے کر گئے ، تم پہلے ان سب کو جانو‘‘۔ صدر ترکی کا مزید کہنا تھا کہ اصل
بات یہ ہے کہ یہ ان باتوں کو ہضم نہیں کرپارہے ہیں اس لئے سیخ پا ہورہے
ہیں۔ ان دنوں یورپین ممالک بھی ترکی کو نشانہ بنارہے ہیں۔ واضح رہے کہ
گذشتہ ماہ ترکی نے سمندری علاقے میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں اپنا
بحری جہاز بھیجا تھا جس پر قبرص اور یونان کا کہنا ہیکہ یہ جزیرے انکے ہیں
جبکہ ترکی انہیں اپنی حدود میں تصور کرتا ہے۔ ترکی کے اس اقدام کے بعد
یونان اور قبرص نے ترکی کے خلاف احتجاج کیا اور ان ممالک کے درمیان کشیدگی
میں اضافہ ہوا۔ترکی نے مشرقی بحیرہ روم میں فوجی مشقیں بھی کیں، ترکی
کاکہنا ہیکہ یہ اس کا ہمیشہ کا معمول ہے۔ یونان اور قبرص اس علاقے کو اپنا
خصوصی معاشی زون ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ تیل او رگیس کے ممکنہ ذخائر پر
تنازعے نے مشرقی بحیرہ روم میں جنگی کشیدگی کا باعث بنا۔ یونان نے بھی اس
علاقے میں اپنے جنگی جہاز بھیجے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک
پومپیو نے ترکی پر زور دیا تھا کہ وہ بحیرہ روم سے اپنی فوج واپس بلائے۔
خیرذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی نے اپنی فوجی مشقیں مکمل کرنے کے بعد اپنے
بحیری جہاز کو بحیرہ روم سے واپس بلالیا ۔ جس پر یونان نے ترکی کا خیر مقدم
کیا ۔ترکی کے وزیر خارجہ میولودچاوش اولو کا کہنا ہیکہ ترکی نے مشرقی بحیرہ
روم کے معاملے میں پیچھے قدم نہیں ہٹایا ہے ، اورچ ریئس ڈرلنگ بحری جہاز کو
ایندھن بھرنے اور دیکھ بھال کے لئے انطالیہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیا
گیا ہے جو کہ ایک معمول کی کارروائی ہے ۔ ان کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ
ترکی بھی اپنے دعویٰ میں پیچھے نہیں ہٹا ہے اور وہ اپنے بحری جہاز کو کسی
مصلحت کے پیشِ نظر واپس بلایا ہے۔ویسے قدرتی وسائل کی تلاش میں ترکی کے
بحری جہازسمندری حدود میں حصہ لیتے ہیں اور ترکی نے اپنے سمندری اور زمینی
علاقوں کے سلسلہ میں واضح کردیا کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے علاقوں کو
دوسروں کے حوالے نہیں کرسکتے اور اس کے لئے انکے حفاظتی اقدامات جاری
رہینگے۔ ترکی کے خلاف متحدہ عرب امارات نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
کو ایک خط لکھ کر واضح کیا تھا کہ ترکی عرب دنیا میں انارکی پھیلارہا ہے۔
عرب ممالک میں ترک حکومت کی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات
نے کہا کہ ترکی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پناہ گزینوں کو آلہ کار کے طور
پر استعمال کررہا ہے اور جارحانہ خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔ صدر ترکی رجب
طیب اردغان کے فیصلوں اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر ہلچل دکھائی
دیتی ہے اور یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک طاقتور مسلم ملک یعنی ترکی کے
خلاف مستقبل قریب میں دشمنانِ اسلام کسی نہ کسی بہانے کے تحت اسے کمزور
کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ دیکھنا ہیکہ رجب طیب اردغان اپنے دور اقتدار
میں کس طرح ترکی کے پرچم کو مزید بلندیوں تک لے جاتے ہیں اور دنیا بھر کے
مسلمانوں نے جس طرح عالمی سطح پررجب طیب اردغان کو اپنا عالمی رہنما تصور
کیا ہے اس میں صدر ترکی کتنے کھڑے اترتے ہیں۔
ہم فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ سعودی کابینہ
گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی
تعلقات کی بحالی اور معاہدوں پر دسخط نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے ۔
عالمِ اسلام کے کتنے حکمراں اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اس
سلسلہ میں مستقبل قریب میں معلوم ہوجائے گا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ سعودی
عرب بھی عنقریب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلے گا۔ فلسطینی عوام
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اقدام سے ناخوش ہیں اور اس کے خلاف احتجاج
بھی کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اپنے دورِ
اقتدار میں فلسطینی عوام کو انکے جائز حق دلانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں یا
نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ اتنا ضرور ہیکہ شاہ سلمان فلسطینی
عوام کو انکے حقوق دلانے کی بات کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کو پُر امید
رکھے ہوئے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں جمعہ کے خطبہ میں امام و خطیب حرم مکی
عبدالرحمن السدیس نے جس طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بات کی ہے
اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سعودی شاہی حکومت بھی بہت جلد اسرائیل کے ساتھ
تعلقات بحال کرلے گی۔ شاہی حکومت کے اس اقدام کے بعد مملکت میں کس قسم کا
ماحول بنتاہے اس سلسلہ میں کچھ کہانہیں جاسکتا۔ البتہ اندرونی طور پر سعودی
عوام فلسطینی مظلموں کے ساتھ ہونگے لیکن شاہی حکومت کے ڈر سے اسکے خلاف
آواز اٹھ پاتی ہے یا نہیں اس سلسلہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سعودی فرمانروا
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت آن لائن اجلاس کے دوران سعودی کابینہ
نے کہا کہ عرب علاقوں کے اتحاد، سالمیت اور خودمختاری پرسعودی عرب کا موقف
غیر متزلزل ہے۔ کابینہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ خطے کے استحکام کو نقصان
پہنچانے والی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جاے گا۔ سعودی ذرائع ابلاغ
کے مطابق کابینہ کا کہنا تھا کہ وہ ’’فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، اپنا
تاریخی موقف دہراتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے ایسے جامع اور منصفانہ حل
تک رسائی کیلئے کوشاں ہیں جن کی بدولت فلسطینی عوام 1967والی سرحدوں میں
خود مختار ریاست قائم کرسکیں اور اس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو‘‘۔ سعودی
عرب کا کہنا ہے کہ ’’ہم ایسا حل چاہتے ہیں جو عرب امن منصوبے اور بین
الاقوامی قانونی قرار دادوں کے مطابق ہو‘‘۔ اسرائیل اپنی ہٹدھرمی پر ڈٹا
ہوا ہے اور مستقبل میں بھی وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عرب ممالک کو اپنا
ہمنوا بنانے کی کوشش کرے گا جس میں وہ کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے
۔اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان بہتر سفارتی اور دوستانہ تعلقات کیلئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم رول ہے اور ہوسکتا ہیکہ بہت جلد کئی اہم عرب
ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے ۔ ایران کی قومی سلامتی
اعلیٰ کونسل کے سکریٹری جنرل علی شمسانی کا کہنا ہیکہ اسرائیل کے امن
منصوبے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر اپنی اجارہ داری قائم
کرنا ہے۔انکا کہنا تھاکہ امریکہ صیہونی نظام کی بحالی اور عرب ممالک پر اس
کی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے علاقائی ممالک کو کمزور کررہاہے اور وہ
چاہتا ہے کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ صیہونی نظام کے زیر
تسلط آجائے مگر ایسا نہیں ہوگا۔ علی شمسانی عراق کے سابق وزیر اعظم نوری
المالکی کے ہمراہ علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کے موقع پر اپنے ان
خیالات کا اظہار کیا۔
***
|