انتخابی موسم میں خبروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ فی الحال
امریکی صدر اپنے مخالف امیدوار جو بائیڈن سے فاصلہ کم کرنے کے لیے ہاتھ پیر
مار رہے ہیں اس لیے ان کے نزدیک ہر خبر بہت اہم ہےمثلاً ان کے زی نیوز یعنی
امریکہ کے فاکس نیوز نوبل پرائز کے نامزدگی ۔ اس برے وقت وقت میںامریکہ کے
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین امن معاہدہ کی
کوششوں کے لیے 2021 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا احسان ناروے
کیپاپولسٹ پروگریس پارٹی کی رکن پارلیمانکرسچن ٹائبرنگ گیجڈے نے کیا ہے ۔
وہ 2008 میں بھی ایسی حرکت کر چکی ہیں اس باران کا خیال ہے کہ اسرائیل اور
متحدہ عرب امارات کے مابین فلسطین کا معاہدے سے بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔
یہ نتائج کس کے حق میں بہتر ہوں گے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ فلسطینی عوام تو اس قاتلانہ معاہدہ قرار دے رہے ہیں ۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات دودھ شریک بہنیں ہیں ۔ ان کی امریکی ماں نے
عرصۂ دراز تک اس رشتے کو صیغۂ راز میں رکھا اور اب اس کا اعلان کروا دیا
تو اس میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہوگئی کہ باپ یعنی امریکی صدر کو
اس کے لیے نوبل انعام دیا جائے ۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ صدر ڈاکٹر
محمد مورسی سے شکست کھانے کے بعد جنرل بشیر دبئی آگئے تھے ، وہیں بیٹھ کر
اخوانی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش اسرائیل اور یوروپ کی مدد سے رچی گئی ۔
اس کے بعد امریکہ کی مدد سے اسے نافذ کیا گیا اور صدر عبدالفتاح السیسی کی
غیر قانونی حکومت قائم کی گئی ۔ یہ سارا کھیل فلسطینیوں کو کمزور کرنے کے
لیے ، اسلامی بہار کو خزاں میں بدل کر اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے کھیلا
گیا تاکہ مغرب کے مفادات کی حفاظت کی جاسکے لیکن اس پر ایک رازدادری کی
اتنی مہین سی چادر پڑی ہوئی تھی کہ’ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی
نہیں کی کیفیت تھی‘ جو اب ہٹا دی گئی ہے ۔ اس لیے اس پر نوبل پرائز تو کسی
صورت نہیں بنتا ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین ہے کہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد انہیں کوئی نہیں پوچھے گا
اس لیے وہ اس عرصے میں جو کچھ بھی ممکن ہو حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔ پچھلے
سال ایک معتبر جاپانی اخبار آساہی کے توسط سے یہ خبر آئی تھی کہ جاپانی
وزیراعظم شینزو آبے نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز کے لیے امریکہ
کی درخواست پر نامزد کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران
خود پسند ڈونلڈ ٹرمپ نے نامہ نگاروں کواپنی خود ستائی کرتے ہوئے بتایا تھا
کہ شیزو آبے نے ان کے اور شمالی کوریائی لیڈر چیرمین کم جونگ اُن کی
سنگاپور میں ہونے والی پہلی ملاقات کی بنیاد پر یہ نام تجویز کیا ہے۔
نامزدگی کی تحریر میں اس چوٹی کانفرنس کو عالمی امن کے لیے انتہائی اہم
قرار دیا گیا اور اُن کی تعریف میں پانچ صفحات تحریر کیےگئے ۔ جاپانی اخبار
نے کوئی نام ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی امریکی ذرائع ابلاغ کا رد عمل سامنے
آیا اس طرح بات آئی گئی ہوگئی۔ ٹوکیو حکومت نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ۔
ویسے ہر سال کئی لیڈروں کو نوبل پیس پرائز کے ليے نامزد کيا جاتا ہے۔ ان
نامزدگیوں کو پچاس برس کے بعد ظاہر کیا جاتا ہےلیکن ٹرمپ کے معاملے میں
مسلسل دوبار اس روایت کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ٹرمپ کو طالبان کے ساتھ امن
معاہدے کے لیے امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے تھا لیکن چونکہ اس اقدام میں
امریکہ اور یوروپ کی شکست کا پہلو نکلتا ہے اس لیے وہ اسرائیل اور امارات
کی بات کرتے ہیں ۔
امریکہ کا صدارتی انتخاب اب اپنے ’ناک آوٹ راونڈ‘ یعنی آر پار کی لڑائی
میں داخل ہوچکا ہے ۔ اس میں صدر ٹرمپ کا تو ہر داوں فاول ہوتا لیکن اس
ڈبلیو ڈبلیو ای کی تفریح میں سب کچھ جائز ہے اس لیے نہ کوئی اس کا احساس
کرتا ہے اور نہ کسی کو اعتراض ہوتا ہے ۔ وہ مثل کہ جنگ اور محبت میں سب
جائز ہے فی الحال امریکی انتخاب پر پوری طرح صادق آرہی ہے۔ ہندوستانی
سیاستدان اس پیش رفت کا بڑے غور سے مطالعہ کررہے ہیں اس لیے آج دنیا کی سب
سے عظیم ترین جمہوریت میں جوہورہا ہے کل اسی کو دنیا کی وسیع ترین جمہوریت
ہندوستان میں بڑے فخر کے ساتھ دوہرایا جانا ہے ۔ ویسے تو ٹرمپ کی امیدواری
ایک کھلا راز تھا کہ لیکن پھر اس کا رسمی اعلان ۳ ستمبر ۲۰۲۰ کی شام
ریپبلکن پارٹی کا کنونشن کے اختتام پر انہوں نے پارٹی کی جانب سے باضابطہ
صدارتی امیدوار کی نامزدگی کو قبول کیا۔ اس موقع پر قصر ابیض کو سیاسی پس
منظر کے طور پر استعمال کرنے کی روایت شکنی کے بعد ٹرمپ نے فرمایا کہ
ابراہم لنکن کی جماعت کسی بھی شخص کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے جو امریکہ
کی راستبازی میں یقین رکھتا ہو۔
امریکہ کی قدیم روایت رہی ہے کہ صدر یا کوئی بھی سیاست دان وائٹ ہاؤس کا
استعمال اپنے سیاسی مقاصد کے لیے نہیں کرتا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے
انحراف کیا اور اپنے خطاب کے لیے قصر ابیض کا باغ استعمال کیا۔ کورونا
وائرس کی وبا کے دور میں ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ بنائے رکھنا لازم ہے
تاہم صدر ٹرمپ کے شاہی مہمانوں نے اس پر بھی عمل نہیں کیا۔ اس کے باوجو د
اپنے اجلاس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس سے متعلق اصول و ضوابط کو پامال
کرنے کے بعد اس وبا پر فتح پانے کا دعوی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ''اس سال کے
اختتام تک بہت ممکن ہے کہ امریکہ کے پاس اس کا ویکسین موجود ہوگا۔'' وہ تو
خیر کسی نے یہ سوال نہیں کردیا کہ یہ چمتکار کیسے ہوگا ورنہ بعید نہیں کہ
اس غریب کو پولنگ تک قرنطینہ کردیا جاتا ۔
تمہیدی کلمات کے بعد اپنی انتخابی تقریر میں ٹرمپ بولے ، '' یہ ہمارے ملک
کی تاریخ کا سب اہم الیکشن ہوگا کیونکہ دو جماعتوں، نظریوں اور دو فلسفوں
کے درمیان انتخاب کا اتنا واضح فرق پہلے کبھی نہیں تھا۔'' ڈیموکریٹک پارٹی
کے ایجنڈے پر تنقید کرتے ہوئےا س کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ، '' کسی بھی
بڑی جماعت کے نامزد امیدوار نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کی انتہا پسندانہ
تجاویز کی پیشکش نہیں کی ہوگی۔''ٹرمپ جیسے انتہا پسند خود سر انسان کی زبان
یہ جملہ سنتے ہوئے بے ساختہ سادھو کا وستر دھارن کرکے مودی جی کےمور کےآگے
دانہ ڈالنے وا لی ویڈیو نظروں کے سامنے گھوم گئی ۔ جس ملک کے غریب عوام
دانے دانے کو ترس رہے ہیں وہاں وزیر اعظم مور ناچ سے دل بہلا رہا ہو ایسا
بھی انسانی تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا ۔ صدر ٹرمپ نے ویکسین کا مژدہ اس وقت
سنایا جب امریکہ میں کورونا وائرس کی وبا کا قہر بامِ عروج پر ہے۔ دنیا میں
سب سے زیادہ یعنی تقریباً 69 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور2 لاکھ 2
ہزار سے زائد امریکی شہریوں کو یہ وباء ہلاک کرچکی ہے۔
امریکی صدارتی مہم کے اس فیصلہ کن مرحلے میں معروف صحافی باب ووڈ ورڈ کی
نئی کتاب RAGE نے ایک نیا ہنگامہ کھڑا کردیا ہے ۔ اس کتاب کے مطابق صدر
ٹرمپ نے فروری 2020 میں ہی وؤڈ ورڈ کو بتا دیا تھا کہ انہیں اس بات کا پورا
اندازہ ہے کہ کورونا وائرس امریکا کے لیے کتنا ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے
لیکن اس کے باوجود انہوں نے امریکی شہریوں سے یہ حقیقت چھپائی اور انہیں اس
کی سنگینی سے آگاہ نہیں کیا۔سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی حکومت کے خاتمے
کا باعث بننے والا واٹرگیٹ سکینڈل کوسامنے لانے کا سہرہ اسی باب ووڈ ورڈ کو
ہے اور بعید نہیں کہ ان کی نئی کتاب ٹرمپ کو بھی اسی انجام سے دوچار کردے۔
صدرٹرمپ نے ان کو دیئے گئے انٹرویوز میں کورونا وائرس کے حوالے سے کہا تھا
کہ ان کے خیال میں صورت حال اس سے کہیں زیادہ خوف ناک ہے۔ یہ مرض شدید ترین
فلو سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ اور ہلاکت خیز ہے جو سانس کے ذریعہ بھی منتقل
ہوسکتا ہے۔اس کے برعکس صدر ٹرمپ فاکس نیوز پر عوام کو یہ بتارہے تھے کہ
وائرس جلد ہی ختم ہوجائےگا اور یہ موسمی فلو سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔
باب ووڈ ورڈ نے صدر ٹرمپ کے ساتھ گزشتہ 6 ماہ کے دوران 18 بار ٹیلی فون پر
انٹرویوز کیے۔ کتاب کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایک بار گفتگو کے دوران باب ووڈ
ورڈ سے کہا، ”میں آپ کو سچ بات بتاوں، دراصل میں ہمیشہ اس کی سنگینی چھپانا
چاہتا تھا۔ مجھے ابھی بھی اسے کم سنگین بنا کر پیش کرنا ٹھیک لگتا ہے
کیونکہ میں افراتفری نہیں پھیلانا چاہتا۔"اس پر وائٹ ہاوس کی ترجمان کیلی
میک نینی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے میں صدر ٹرمپ
نے مثالی کردار ادا کیا اور انہیں ہمیشہ سے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ اس
وائرس سے کتنا جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ میک نینی کا مزید کہنا تھاکہ صدر نے
مارچ میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ وائرس کتنا مہلک ہے اور اس کی وجہ سے
امریکہ میں ایک سے دو لاکھ تک اموات ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب
میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جا
رہی ہے۔ ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ کے حریف صدارتی امیدوار جو بائیڈن نےیہاں تک
کہہ دیا ہے کہ 'جب ایک ہلاکت خیز وائرس ہماری قوم میں تیزی سے پھیل رہا
تھا، وہ(ٹرمپ) اپنا کام کرنے میں دانستہ طور پر ناکام رہے۔ یہ امریکی لوگوں
کے لیے زندگی اور موت کی دغابازی جیسا تھا۔‘ اس میں شک نہیں کہ انتخابی
نتائج پر اس کتاب کے اثرات غیر معمولی ہوں گے ۔اس کتاب سے ٹرمپ کی بوکھلاہٹ
کو دیکھ کر ’آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ‘ یاد آتا ہے۔
)۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|