آج عالم ِ اسلام کو طرح طرح کے مصائب والم کا
سامناہے اورتو اور سعودی عرب جیسا بابرکت ملک بھی مسائل سے دوچارہے ان
مسائل و مصائب سے نکلنا وقت کا تقاضا ہے لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ یہود
ونصاریٰ کی ایک سازش کے تحت مسلمانوں میں بدعقیدہ لوگوں کی تعدادمیں
برابراضافہ ہوتاجارہاہے جو نبی ٔ رحمت ﷺ کے وسیلہ کو بھی شرک قراردے
کربھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں اور قرآن مجیدمیں جتنی آیات
بتوکیلئے نازل ہوئی ہیں ان کہ اولیاء کرام پر نتھی کردیا گیا حالانکہ اﷲ
تعالیٰ سے مسلمان ہر نماز میں دعا کرتے ہیں کہ اے اﷲ ہمیں ان لوگوں کے
راستہ پر چلا جن پر تونے اپنا فضل و کرم کیا انعام بخشا اور بدقسمتی یہ ہے
جن ہستیوں پر اﷲ نے اپنا فضل وکرم کیا ان کے راستے پر چلنے کو شرک و بدعت
قراردیاجارہاہے آج کے مسائل و مصائب سے نکلنا ہے تو اﷲ کی انعام یافتہ
ہستیوں کے ر استے پرچلناہوگا تاریخ بتاتی ہے مسلمانوں نے جب بھی اﷲ تعالیٰ
سے نبی ٔ رحمت ﷺ کے وسیلہ جلیلہ کا واسطہ دیا کرم ہوگیاگنبد خضرا" پر بنی
کھڑکی(طاق وسیلہ) بھی اسی سبب بنائی گئی آج کے مسائل سے نمٹناہے تو "گنبد
خضرا" پر بنی کھڑکی(طاق وسیلہ) کو کھول دیا جائے ان شااﷲ کرم ہوگا ہر وباء
دور ہوجائے گی کیونکہ حضرت محمد ﷺ دو جہانوں کے لئے قیامت سے پہلے اور
قیامت کے بعد بھی رحمتہ اللعالمین ہیں ۔آپ گنبد ِ خضریٰ کو بغور دیکھیں آپ
کو ایک جانب ایک بند کھڑکی نما روشندان نظر آئے گا جسے طاق ِ وسیلہ
کہاجاتاہے دراصل گنبد شریف کے اوپر نظر آنے والی یہ روشن دان اْم المؤمنین
حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے کہنے پر بنوایا گیا تھا۔اْس وقت
باقاعدہ گنبد شریف نہیں تھا جیسے موجودہ شکل میں ہے بلکہ چھت تھی جس سے
روشن دان نکالا گیا پھر بعد میں گنبد بنایا گیااور مختلف ادوار میں گنبد
شریف میں تغیر وتبدل ہوتا رہا اور اس پر مختلف رنگ بھی کئے جاتے رہے لیکن
سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر روشن دان بنانے کی روایت
کو ہمیشہ برقرار رکھا گیا۔ یہ گنبد کیوں بنایا گیا؟ اس کا جائزہ لینے کے
لئے یہ روایت ملاحظہ کیجئے: ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا
ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت
کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک
کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور
آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر
تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اْگ آیا اور اْونٹ
موٹے ہوگئے۔ پس اْس سال کا نام ہی ’’عامْ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘
رکھ دیا گیا۔‘‘ (سنن دارمی، 1 : 56، رقم : 92 الوفا باحوالِ دار
المصطفیٰ:ابن جوزی : 817، رقم : 1534 شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام :
128) مشہور مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی’’وفاء الوفاء (2 :
560)‘‘ میں لکھتے ہیں: زین المراغی نے کہا : جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں
کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رْخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک
اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔ (تاریخ وفاء الوفا باخبار دار المصطفیٰ
: نور الدین علی بن احمد السمھودیا لمتوفی911ھ ج۲ص ۰۶۵) اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ یہ روشن دان اْم المؤمنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے
قحط کے زمانے میں حضورِ انور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے بارش لانے
کے لئے بنوایا تھا۔ جب قحط سے لوگ اور جانور بھوکے مررہے ہوتے ، بارش نہ
ہونے سے زمین پر سبزہ ختم ہوجاتا اور سورج آگ برسارہا ہوتا ایسے میں رحمۃ
اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے اوپر سے اس کھڑکی کو کھول
دیا جاتااور دیکھتے ہی دیکھتے رحمۃ اللعالمین کے وسیلہ سے بارانِ رحمت
چھماچھم برسنے لگتی۔ مدینہ شریف کے لوگوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا۔ چنانچہ
ترکوں کے دور کا احوال ملاحظہ کیجئے: حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی قبرِ انور کے پاس جا کر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے توسّْل سے دعا کرنے
کا معمول عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے اوائل دور تک رائج رہا،
وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ مدینہ کسی کم عمر سید
زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جوقبرِ انور
کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق سوراخ کے
ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ انور اور آسمان
کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔
|