میں کیسے مان لوں کوئی میرانہیں رہا
جب تک خدا کی ذات ہے تنہا نہیں ہوں میں
میں نے اپنی بات اس شعر سے اس وجہ سے شروع کی ہے کیوں کہ ہم مانتے ہیں کہ
اﷲ ایک ہے اور ہم اسی پر ایمان بھی رکھتے ہیں مگرشیطان کے پھیلائے گئے
وسوسوں کو ہم نہیں چھوڑرہے زمانہ جہالت میں لوگ اس مہینے کو منحوس قراردیتے
تھے کیونکہ اس مہینے میں عرب کے لوگ گھربارچھوڑکرجنگ کیلئے نکل جاتے تھے جس
کی وجہ سے مردحضرات مارے جاتے اور جنگ کی وجہ سے معاشی حالت ابترہوجاتی
بھوک افلاس بڑھ جاتی بیماریاں پھیلنا شروع ہوجاتیں اس لیے اس مہینے کو بھوک
افلاس بڑھانے اور گھرخالی کرنے کا مہینا کہا جانے لگا عالم اسلام کے طلوع
کے بعد حضورنبی کریم ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ اﷲ پاک فرماتے ہیں ’’ابن آدم
زمانے کو گالیاں دے کرمجھے اذیت دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ
میں ہرکام ہے دن رات کو میں الٹ پلٹ کرتاہوں (بخاری شریف)تونبی کریم ﷺ کی
پیروی کرنے والوں نے آپ کی بات مان کے اس مہینے کو بھی معتبرمانا مگرجو آپ
سے بغض رکھتے تھے انہوں نے اس مہینے کو منحوس قراردیا اوراس میں خوشی کرنے
اورسفرکرنے سے بھی منع کیااب ہمیں غورکرنا چاہیے کہ ہم حضورپاک ﷺ کی پیروی
کررہے ہیں یا آپ ﷺ سے بغض رکھنے والوں کی۔حالانکہ کہہ جب سارا نظام اﷲ رب
العزت کے ہاتھ میں ہے تودن ہفتے سال مہینے یاگھنٹے کیسے منحوس ہوسکتے ہیں
جواﷲ ہمیں 70ماؤں سے زیادہ پیارکرنے والاہے کیاوہ ہمارے لیے اذیت کا سوچے
گا؟آج کل ہرکسی کے زبان پرشکوے کے کلمات سننے کو ملتے ہیں خاص کرعورتوں کو
جب گھرمیں جھگڑاہویا کوئی براکام ہوجائے توفوراً کہتی ہیں کیسی منحوس گھڑی
تھی جب میں نے تم سے شادی کی یا کیسامنحوس دن ہے کہ یہ وقت بھی دیکھنا
تھا۔ان کلمات سے احتیاط کرنی چاہیے اور ہروقت کلمہ شکراداکرنا چاہیے اس کے
برعکس آج کے دورمیں بھی لوگوں نے دورجہالت کی یادیں تازہ کی ہوئی ہیں وہ اس
مہینے میں شادیاں،سفرکرنا،گھربنانا،گھروں میں شفٹ ہونا یا کاروبارشروع کرنے
کو نحوست سمجھتے ہیں کئی لوگ پریشانیاں،مصائب کا ذمہ دار اس مہینے
کوٹھہراتے ہیں حالانکہ مصائب ،پریشانیوں اور ہماری خوش قسمتی بدقسمتی کا
ذمہ دار کوئی مہینہ نہیں بلکہ انسان کے اپنے اعمال سے ہی ہرچیز ہوتی ہے
اوروہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی قسمت خوش قسمتی اور بدقسمتی میں بدلتا ہے
اسی مہینے کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے:کوئی بیماری متعدی ہونایعنی ایک
دوسرے کولگناپرندوں کے ذریعے بدفالی لینابدشگونی صفرکی کوئی حقیقت نہیں(سنن
داؤد،بخاری)اب انسان اپنے دل میں جو بھی وسوسے ڈال لے گا اکثرویساہی ہوتا
ہے اسی وجہ سے وہ دن کومہینے کوکوستا ہے اورخود کو گناہ کا حقدارٹھہراتا ہے
بہرحال اس مہینے میں ساری خوشی کی تقریبات کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں
جیسا کہ اﷲ پاک کہتا ہے کہ میں ہی دن رات چلاتاہوں توسب مہینوں پروہی
قادرہے تو کوئی مہینہ منحوس کیسے ہوسکتا ہے؟
ہمارے علاقے میں عورتیں اپنے مردوں کا صدقہ نکالتی ہیں جن میں چنے ابال
کرگھروں میں بانٹے جاتے ہیں حالانکہ ہرگھرصدقہ کا مستحق نہیں ہوتا تو
ایساکرنے سے بہترہے وہ رقم کسی حقدارکودے کرصدقہ بھی دے دیں اوراسکی دعائیں
بھی لے لیں صدقہ صفرکے علاوہ ہرمہینے دینا چاہیے صفرمیں صدقہ فرض نہیں
مگرصدقہ صرف مردوں کیلئے نہیں پورے گھرکے سکون وچین کیلئے نکالناچاہیے اس
مہینے میں سورۃ ملک اورسورۃ مزمل پڑھوائی جاتی ہے تاکہ کوئی پریشانی یا
مصیبت نہ آئے توہمیں صرف صٖفرمیں قرآن پاک پڑھ کراپنے ایمان کو کمزورنہیں
کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ہرروز قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے تب کوئی مصیبت
پریشانی ہمارے قریب ہی نہیں بھٹکے گی اس کی مثال میں مسجدکے استاد سے دوں
گاجوبچوں کوپڑھا کے اپنی زندگی گزاررہے ہیں جن کی دیہاتوں میں 5000سے
8000تک اور شہروں میں 8000سے 12000تک مہینہ لیتے ہیں توان کے گھر40,000سے
50,000مہینہ کمانے والوں سے زیادہ خوشحال ہیں اس کا راز یہی ہے کہ وہ ہرروز
قرآن پاک پڑھاتے ہیں اور پڑھتے ہیں ۔انسانی زندگی خوشی ،غمی،کامرانی
اورناکامی کا گہوارا ہے انسان پراچھے اوربرے حالات آتے رہتے ہیں ان حالات
کی وجہ سے انسان کی کیفیت بھی بدلتی رہتی ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ’’اورہم
نے انسان کو کم ہمت پیدافرمایا ہے جب اس کو تکلیف ہوتی ہے توحد سے زیادہ
جزع قزع کرنے لگتا ہے اورجب خوشی ملتی ہے تو بخیل ہوجاتا ہے جب کوئی خوشی
ملتی ہے تویاتواپنی طرف منسوب کرتا ہے یا کسی انسان کو اس کا حقدارٹھہراتا
ہے اورجب دکھ ملتا ہے تو اس کا ذمہ داراپنے پروردگارکوٹھہراتا ہے جس کی وجہ
سے خودبخود منکرہوتا جاتا ہے ۔
میں قارئین سے کچھ چیزیں شیئرکرنا چاہتا ہوں کہ جولوگ اس مہینے میں شادی
نکاح نہیں کرتے تووہ یادرکھیں حضورپاک نے صفیہ بنت حی سے صفرکے مہینے میں
نکاح کیا اور حضرت بی بی فاطمہ کا نکاح 2صفرکوہی ہوا4صففرکوزینب بنت خزیمہ
کا نکا ح ہواجس کی وجہ سے ثابت ہوتاہے اس مہینے میں خوشی منانا منع نہیں
اورنہ ہی مصیبتوں کا ذمہ دار ہے۔اس مہینے چندوسوسے ہیں جن میں پہلا ہے اس
مہینے میں شادی کی گئی توکامیاب نہ وہوگی،اس مہینے میں مزدوراکثرکام نہیں
کرتے اوراس ماہ کے اختتام پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ،صفرکے آخری بدھ
کوشنبہ تقسیم کیا جاتا جو آٹانمک،،شیرنی کا بناہوتا ہے،اس مہینے کی مصیبتوں
اورپریشانیوں سے بچنے کیلئے تعویزاورکالے دھاگے پہننے کارواج عام ہے یہ
ساری کی ساری رسومات دورجہالت کی تیارکردہ ہیں ہمیں اتنا یقین رکھناچاہیے
خوشی،غمی،پریشانی،مصیبت اورہمارے اعمال لکھے جاچکے ہیں تواس مہینے میں جتنی
بھی رسومات ہیں سب من گھڑت اورفرضی ہیں ان سے بچنا چاہیے مگرہم لوگ
دورجہالت کی رسومات اداکرکے ثابت کررہے ہیں کہ ہماراایمان کتنا پکا ہے
اورہم کس کی پیروی کرنے والے ہیں اس لیے ہمیں اﷲ پاک پریقین رکھنا چاہیے
اوران کے بنائے کسی مہینے دن ہفتے سال کو منحوس نہین کہناچاہیے کیونکہ یہ
رب پاک کو اذیت دینے کے برابرہے ۔
|