روزی روٹی دے نہ سکے جو ،وہ سرکار نکمی ہے

وزیر اعظم نریندر مودی جب 25 سال کے ہوئے تو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی اور آر ایس ایس کے رہنماوں کو جیل میں ڈال دیا ۔ اس وقت مودی جی سنگھ پر چارک تھے لیکن گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ روپوش ہوگئے ۔ انہوں کبھی تو سکھ کی مانند داڑھی اور پگڑی باندھ کر اپنا روپ رنگ بدل دیا تو کبھی سادھو بن کر پولس کی نظر سے چھپتے پھرے ۔ آج کل بھی اسی طرح وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کے لیے پھر سے سادھو کا بھیس بدل لیا ۔ مودی جی نے وہ ناٹک کیوں کیا تھا اس کو2018کے اندر اپنے ٹویٹ میں انہوں نے خودواضح کردیا تھا کہ ’’ہندوستان ایمرجنسی کو ایک تاریک دور کے طور پر یاد کرتا ہے ‘‘ ویسے اس دور کا اندھیرا کم نہیں ہے۔ آگے وہ اس طرح رقمطراز ہوئے تھے کہ :’’اس دوران سارے اداروں کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا اور خوف کا ماحول بنا دیا گیا تھا ‘‘ اتفاق سے آج بھی عدالت عظمیٰ سمیت سارے ادارے سبوتاژ کردئیے گئے ہیں لیکن لوگ ان کی مانند خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ بلاخوف و خطر اپنی صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔

مودی جی کے مطابق اس وقت نہ صرف عوام بلکہ نظریات اور فنکاروں آزادی کو بھی سیاسی قوت نے یر غمال بنالیا تھا ۔ فی الحال مودی اور شاہ نے یہی کررکھاہے ۔ اسی لیے دہلی میں ڈاکٹر عمر خالد اور خالد سیفی جیسے لوگوں کو پابندِ سلاسل کیا جارہا ہے لیکن ان سب کے حوصلے بلند ہیں ۔ مودی نے یاد کیا تھا کہ اس وقت بہت سارے سیاسی رہنماوں کو جیل میں ٹھونس دیا گیا تھا جن میں بی جے پی کے رہنما بھی شامل تھے لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ خودان میں کیوں نہیں تھے ۔ اس کے دو معنیٰ ہیں ایک تو وہ غیر اہم تھے یا بزدل تھے۔ آج بھی لالوپرشاد یادو اور اعظم خان جیسے کئی رہنماوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے لیکن ان میں سے کوئی یوگی کی طرح ایوان پارلیمان میں سب کے سامنے عورتوں کی طرحپھوٹ پھوٹ کر نہ روتا ہے اور نہ بھیس بدل کر چھپتا پھرتا ہے ۔ اس لیے کہ بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سَو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا

آج سے 45سال قبل کے نریندر مودی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جب وہ دوسری مرتبہ ہندوستان کے وزیر اعظم بن جائیں گے اور ۷ مرتبہ لال قلعہ سے ترنگا پرچم لہرا کر اپنا ۷۰ ویں سالگرہ منائیں گے تو ان کی پارٹی کے لوگ ۷۰ کلو کا لڈو بناکر پورے سات دنوں تک جشن منائیں گے ۔ اسی کے ساتھ ان کے خواب و خیال میں یہ بات نہیں ہوگی اس روز ملک کا نوجوان بیروزگار دن منا رہا ہوگا ۔ ملک بھر میں سوشیل میڈیا پر ’روزگار آج دو ابھی دو ‘ جیسے نعرے چھائے ہوئے ہوں گے ۔ سوشیل میڈیا سے سڑک تک گونجنے والے نعرے مثلاً ’’روزگار دو سرکار، بھاشن نہیں روزگار چاہیے یا چور ہوں نہ چوکیدارہوں ، صاحب میں ہوں بیروزگار ہوں ‘ گونج رہے ہوں گے ۔ بی جے پی نے تو خیر اپنی سیوا(خدمت) ہفتے کا آغاز ۱۴ ستمبر سے کیا لیکن ملک کے بیروزگار نوجوانوں نے ۵ ستمبر کو شام ۵ بجے۵ منٹ تک تالی اور تھالی بجاکر اپنا احتجاج درج کرایا ۔ اس کے بعد ۹ ستمبر کو رات ۹ بجے ملک کے طلباء اور طالبات نے ۹ منٹ تک دیا اور موم بتی جلاکر روزگار کا مطالبہ کیا اس کے بعد۱۱ ستمبر کو ٹوئیٹر پر ۱۷ تاریخ کو ۱۷ بجے ۱۷ منٹ کا ہیش ٹیگ ملک کا سب سے مقبول ٹریند بن گیا ۔

وزیر اعظم کے لیے ان کی سالگرہ کے موقع پر اس سے بڑھ کر کوئی اور خراجِ عقیدت نہیں ہوسکتا تھا۔ مودی سرکار سے نوجوانوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور بیزاری جائز ہے ۔ یہ حکومت ہر سال دو کروڈ روزگار کا فریب دے کر ساڑھے6 سال قبل قائم ہوئی تھی لیکن اس نے بیروزگاری میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ اسی لیے سرکار کے رویہ کی ترجمانی کرتے ہوئے آج کا نوجوان نعرہ لگا رہا ہے’’بھرتی نکلے تو امتحان نہیں ، امتحان ہو تو پرینام(نتیجہ ) نہیں ۔ پرینام نکلے تو جوائنگ ڈیٹ کا نام نہیں ، آخر کیوں نوجوانوں کا سماّن(احترام) نہیں‘‘۔ آج کل سب سے زیادہ گونجنے والا نعرہ ہے ’’اٹھو نوجوانو للکار دو، کہو سرکار سے روزگار دو‘۔ نوجوانوں کا یہ آتش فشاں 30 اگست سے جو پھوٹا تو آج بھی لاوہ اگل رہا ۔ اس وقت مودی جی اپنے من کی بات میں کھلونوں سے نوجوانوں کا دل بہلا رہے تھے اور انہیں گلی کے آوارہ کتے پالنے کا مشورہ دے رہے تھے لیکن اچانک نوجوانوں نے انہیں ڈسلائیک کرکے ان سے کھیلنا اور اپنے تبصرے لکھ لکھ کر انہیں کاٹنا شروع کردیا ۔

مور کے آگے دانے ڈال کر اس کے ناچ سے دل بہلانے والے وزیر اعظم اس یلغار کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ وہ تو بیچارے ابھی تک چین کے حملے کو بھی تسلیم نہیں کرپائے ہیں اس لیے نوجوانوں کے اچانک پھوٹ پڑنے والے غم و غصے نے خود ان کے ہاتھوں سے طوطے اڑا دیئے ۔ ٹوئیٹر پر جب ان کے من کی بات کے جواب میں من کی نہیں اسٹوڈنٹ کی بات ٹرینڈ کرنے لگا تو ان کے ہوش ٹھکانے آنے لگے ۔ اس کے بعد طلباء نے سرکاری یوٹیوب چینلس جو تبصرے لکھے تو مجبوراً سرکار کو کمنٹ بکس بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسروں کو ٹرول کرکے گالی گلوچ کرنے والوں پر یہ دن بھی آئے گا یہ کسی نے سوچا نہیں تھا ۔ سرکار لگاتار یہ کوشش کررہی ہے کہ کشمیر کی دفع 370، رام مندر اور این آر سی وغیرہ کے ذریعہ عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائے لیکن مشیت کبھی سیلاب کے ذریعہ ان کو ابھار دیتی ہے تو کبھی چین وارد ہوجاتا ہے اور کورونا تو پچھلے 6 ماہ سے عذاب بن کران پر مسلط ہوچکا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب بی جے پی والوں کو ایک ہفتہ کے بجائے پورا سال پردھان سیوک کی سالگرہ منانا پڑے گا لیکن پھر بھی بات نہیں بنے آج کل نوجوانوں ، کسانوں اور مزدوروں کا جوش دیکھ کر عرفان صدیقی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک
مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

اس دوران پارلیمانی اجلاس شروع ہواتو کورونا کا بہانہ بناکر حکومت نے ایوان پارلیمان کے نظام میں وقفۂ سوالات کو ہی معطل فرما دیا ۔ اس طرح ہزار اصرار کے بعد خدا خدا کرکے وہ بلایا گ جانے والا یہ اجلاس جھوٹ کا ایک ایسا پلندہ بن گیا جس میں اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔ پارلیمان کے مانسونی اجلاس کے پہلے ہی دن ایوانِ زیریں میں کل 10ارکان پارلیمان نےمہاجرمزدوروں کی موت سے متعلق سوالات کی بوچھار کردی لیکن سرکار نے وہی شتر مرغ کا رویہ اختیار کرتے ہوئے بے شرمی سے کہہ دیا کہ اس کے پاس معلومات ہی نہیں ہے۔ جب یہ پوچھا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے گھروں کو لوٹتے ہوئےکتنے مزدوروں کی موت ہوئی ہےتو وزارت محنت و روزگار میں وزیر مملکت سنتوش گنگوار نے کہا،’ایسا کوئی اعداد و شمار نہیں رکھا جاتا ہے۔‘ یہ جواب اپنے آپ میں بے شرمی اور بے حسی کی علامت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں مرنے والے ہر فرد کی موت ریکارڈ کی جاتی ہے یعنی اعدادو شمار موجود ہیں مسئلہ صرف انہیں یکجا کرنے کا ہے لیکن سرکار وہ جمع نہیں کرنا چاہتی تاکہ ان غریبوں کوا مداد سے محروم رکھا جاسکے ۔ حکومت کو یہ پتہ ہے ایوان پارلیمان کی غیر ضروری عمارت کتنے میں بنے گی اور اس کا ٹھیکہ دینے کے لیے سرکاری خزانے میں روپیہ ہے لیکن سڑک پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑنے والے مزدوروں کے نہ اعدادو شمار ہیں اور نہ ان کی مدد کے لیے اس بے حس سرکار کے پاس سرمایہ ہے۔

ویسے سرکار دربار تو ہے ہی جھوٹ کا کاروبار لیکن اس معاملے میں موجودہ حکومت کی ڈھٹائی بے مثال ہے۔ دی وائر نےآر ٹی آئی قانون کے تحت مزدوروں کی موت سے متعلق معلومات طلب کی تو محکمہ ریلوے نے بتایا کہ شرمک ٹرینوں میں کم سے کم 80 لوگوں کے موت ہوئی ۔مرنے والے مسافروں میں آٹھ مہینے کے بچہ سے لےکر85 سال کے بزرگ تک شامل تھے ۔ آر پی ایف کے مطابق مرنے وا لوں میں کورونا متاثرین بھی شامل تھے۔انڈین ریلوے کے جملہ 70 ڈویژن میں سے صرف 14ڈویژن نے جانکاری مہیا کرائی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کل کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ ریلوے کےدوسرے محکمے بھی اگر اس کے اعداد و شمارے عوامی کرتے تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ۔

ایک آزاد تحقیقی ادارہ محض اخباری رپورٹس کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا کہ 19 مارچ سے لےکر 04 جولائی تک لاک ڈاون سے متاثر ہونے والی ا موات کی جملہ تعداد 971 ہے۔ اس میں سب سے زیادہ 216 اموات بھوک اور مالی بحران کی وجہ سے ہوئیں۔ وہیں لاک ڈاؤن کے دوران جب لوگ پیدل اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو مختلف سڑک حادثات میں 209 مہاجر مزدوروں کی موت ہو گئی۔اس کے علاوہ انفیکشن کا ڈر، تنہائی ، آمدو رفت پر پابندی اور گھر جانے میں ناکام رہنے کے سبب 133 لوگوں نے خودکشی کر لی۔ اس رپورٹ کے مطابق شرمک ٹرینوں میں 96 مہاجر مزدوروں کی موت ہوئی ہے۔ اسی طرح قرنطینہ مراکز میں 49 لوگ ہلاک ہو گئے۔ یہ ساری معلومات محدود وسائل کا حامل ایک نجی ادارہ جمع کرلیتا ہے تو حکومت کیوں نہیں کرسکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکار کو ان غریبوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے نہ وہ ان کی کوئی مدد کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیےوزیر اعظم کےیوم پیدائش پر ملک کے طلباء، مزدوروں اور کسانوں نے یہ شاندار نعرہ وضع کرکے ان کی نذر کیا گیا ہے کہ ؎
روزی روٹی دے نہ سکے جو وہ سرکار نکمی ہے
جو سرکار نکمی ہے ، وہ سرکار بدلنی ہے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451167 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.