ڈاکٹر عافیہ ۸۶ سالہ قیدی کا قصہ

یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے جب امریکا کی ایک کال پر گھٹنے ٹھیک دیے۔ اپنے پڑوسی محسنوں، مسلمان بھائیوں، طالبان ،جن کی وجہ سے ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو گئی تھی۔ جس پر اب ہمیں اربوں خرچ کے آئینی باڑ لگانی پڑی ہے۔ ڈکٹیٹرنے افغان طالبان کی جائزامارت ِاسلامیہ کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا۔کتاب’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ کے مصنف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز لکھتے ہیں کہ فوج امریکا ساتھ دینے کی مخالف تھی۔ جب ہم امریکا کی پاکستان مخالف کاروائیوں کی بات کرتے ،تو ڈکٹیٹر کہتا کہ آپ کا وژن معدود ہے ،جو میں سمجھتا ہوں وہ آپ نہیں سمجھ سکتے۔ بحر حال ڈکٹیٹر نے نہ فوج کو اعتماد میں لیا،نہ سیاستدانوں کو اعتماد میں لیا۔جو کچھ کیا خود ہی کیا۔ ڈکٹیٹر کو فون پر دھمکی دینے والا امریکی اپنی کتاب میں لکھتا کہ ہم نے نو(۹) مطابات کیے تھے اور سوچا تھا کہ ڈکٹیٹر ہمارے آدھے مطالبات تو ضرور مانے گا۔مگر ہم حریت زدہ ہو گئے کہ ہمارے سارے نو(۹) مطالبات ڈکٹیٹر نے مان لیے۔ امریکاکو پاکستان کے بحری، بری اور زمینی راستے دے دیے۔ امریکا نے ڈکٹیٹر کے ساتھ مل کرطالبان کی جائز حکومت کا تورا بورا بنا دیا۔ فاقہ کش افغانی اپنے ملک کو بیرونی قبضے سے بچانے کے لیے لڑتے رہے۔ امریکا اور اس کے حواری طالبان کو دہشت دہشت گرد کہا کرتے تھے۔ کیا کسی نے خوب کہا ہے کہ’’ ڈریے رب قادر کولوں جیڑا چڑیاں تے باز مرایندا ہے‘‘ یہی کچھ ہوا، امریکا کو فاقہ کش طالبان نے اپنی قوت بازو اور اﷲ کی مدد سے اور بیرونی مدد کے بغیر شکست فاش دی۔اب افغانستان سے نکلنے کے لیے افغان طالبان کے ساتھ برابری کے مذاکرات کرارہا ہے۔لگتا ہے ڈکٹیٹر نے امریکا کے ساتھ کوئی نہ کوئی خفیہ معاہدہ کیاہوا ہے۔ جس کی وجہ سے زرداری،نواز شریف اور عمران خان ،باوجود اپنے دعدوں کے قوم کی بیٹی کو آج تک واپس نہ لا سکے؟ ڈکٹیٹر پاکستان سے ۶۰۰ مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر صلیبی امریکا کے حوالے کیا۔انکی جانوں کے بدلے لاکھوں ڈالر وصول کیے۔ اس کا ذکر اپنی کتاب’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے۔ یہ وہی مسلمان نوجوان جہادی تھے جنہوں نے افغانیوں کی مدد کر کے روس کو شکست دے کر افغانستان سے باہر نکالا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ اسلام کی مبلغہ ہے۔جو امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ ڈاکٹرعافیہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، حافظ قرآن، بچوں کی تعلیم میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ امریکا میں اسلام کی تبلیغ کرتی رہی ہے۔ ڈکٹیٹر نے اس کو تین معصوم بچوں کے ساتھ امریکا کے حوالے کر دیا۔ مکافات عمل کہ اب درد بدر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ پاکستان سے بھاگا ہواہے۔ کئی مقدمات میں مطلوب ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو پہلے پاکستان پھر افغانستان اور بلا آخر امریکا منتقل کیا۔وہ اس طرح کہ افغانستان میں امریکا کے کنٹرول میں بلگرام جیل کی خاتون قیدی نمبر ۶۵۰ کی چیخوں کی آزادی سن کر پاکستان میں، جب برطانیہ کی نو مسلم صحافی مریم ریڈلے نے، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نیازی کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں دنیا کوڈاکٹرعافیہ کی مظلومیت سے آگاہ کیا۔ہم اپنے کالموں میں ڈاکٹر عافیہ کو مظلومہ امت اس لیے لکھتے ہیں کہ ایک انصاف پسند امریکی نے، جب امریکی عدلیہ کے یہودی جج نے ۲۳ستمبر۲۰۱۰ء کو بے قصور اور زخمی ڈاکٹر عافیہ کو ۸۶ سال قید تنہائی کی سزا سنائی۔تو اس نے کمرہ عدلت میں کہا تھا کہ یہ سزا عافیہ کو نہیں سنائی گئی، بلکہ یہ سزا’’ امت مسلمہ ‘‘کو سنائی گئی۔امریکی عدالت میں عافیہ پر دہشت گردی کا کوئی جرم نے ثابت نہیں ہوا۔صرف امریکی ہٹے کٹے فوجی پر ایک کمزور سی نہیف عورت ڈاکٹر عافیہ نے امریکا کی وزنی بندوق تانی، جس سے امریکی فوجی زخمی ہوا۔ اس الزام کا بھی ثبوت بھی عدالت کو نہ مل سکاتھا۔ہاں ڈاکٹرعافیہ کا یہ قصور تھا کہ وہ ایک با عمل مسلمان ہے۔ وہ امریکیوں کو اسلام کی دعوت دیتی تھی۔ ڈکٹیٹر کے حواریوں نے اسے امریکی شہری کہا۔ جب کہ اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے۔ امریکا نے اسے کئی بارشہرت دینے کی پیش کش کی تھی مگر اس نے پاکستانی رہنا ہی پسند کیا۔
ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکڑ فوزیہ جو عافیہ موومنٹ چلا رہی ہے۔ اس نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھا ہے کہ آپ نے تیرہ سال پہلے ڈاکٹر عافیہ کے لیے جیسا دلیرانہ مؤقف اختار کیا تھا۔ ڈاکٹرعافیہ کو ’’قوم کی بیٹی‘‘کہا تھااور اقتدار میں آکر اسے ہر صورت وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کا وعدہ کیا تھا۔ آپ نے ایسا کر کے لاکھوں پاکستانیوں کے دل جیت لیے تھے۔ آپ نے گذشتہ حکومتوں پر تنقید بھی کی تھی۔دو سال سے وعدہ وفا کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ آپ وزیر اعظم کا عہدہ بھی دیا۔ اب آپ کو ڈاکٹر عافہ کو رہائی دلانے کے اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے ۔ مجھے یقین کہ آپ کی والدہ حیات ہوتی تو وہ ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے میں راضی ہوتیں۔ جناب وزیر اعظم آپ معلوم ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو عالمی وبائی مرض کووڈ ۔ ۱۹ سے متاثرہ امریکا کی بدترین جیل میں قید رکھا گیا ہے۔ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکا آپ کو قرضوں کی لالچ دے کر مذید ڈو مور کا کہیں گا۔

مگرمیں اُمید کرتی ہوں کہ آپ امریکا کے لیے ڈو مور کی بات نہیں مانیں گے ،جیسے پہلے حکمران مانتے رہے ہیں۔ آپ تو ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کے سربراہ ہیں۔ کمزور طالبان نے امریکا سے اپنے مطالبات منظور کر اپنے قیدی رہا کروائے ہیں۔ جیسے آپ پہلے چمپیئن بنے تھے۔ اﷲ آپ کو جہاں بھی چمپیئن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔جیسے آپ قوم کے سامنے ارطغرل غازی کا کردار سامنے لائیں ہیں۔ہماری تاریخ محمد بن قاسم ، صلاح الدین ایوبی اور معتصم باﷲ کے شاندار کردار موجود ہیں۔ وزیر اعظم صاحب! بیٹی قوم کی روح ہوتی ہے۔ عافیہ قوم کی بیٹی ہے۔ امریکا جانے سے پہلے اگر مجھے ملاقات کا وقت دیں تو میں وضاعت کرنا چاہتی ہوں کہ اب عافیہ کو وطن واپس لانا کتنا سادہ عمل بن چکا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ ۲۱؍ ستمبر کو وزیر اعظم پاکستان آپ امریکا روانہ ہو رہے ہیں۔ آپ کی ۲۳ ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے ملاقات طے ہے۔ اس موقعہ پر ۸۶ سال قید تنہاہی والی مظلومہ امت ،پاکستان کی بیٹی کی رہائی کی امریکی صدر سے بات کریں۔ آپ جب وزیر اعظم نہیں بنے تھے تو مریم ریڈلے کے ساتھ پریس کانفرنس کر کے مظلومہ کے کیس کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ جب آپ وزیر اعظم پاکستان بنے تو آپ نے مظلومہ کو پاکستان لانے کا وعدہ کیا تھا۔ امریکہ کی جیلوں میں کروونا وائرس کی وجہ سے کئی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا ہے۔ آپ بھی اسی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرپمپ صدر امریکا سے بات کریں۔

صاحبو!ویسے بھی امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جاتے جاتے قیدویوں کو رہائی دلا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے رہائی ممکن نہ ہو تو کم از کم ڈونلڈ ٹرپمپ سے یہ بات تو منوائیں کہ ڈاکٹرعافیہ باقی سزا پاکستان کی جیل میں گزارے۔ وزیر اعظم صاحب آپ پاکستان کی بیٹی کو پاکستان واپس لائیں۔ ویسے بھی پاکستان کی پارلیمنٹ نے فیٹف کے حوالے سے جو قانون پاس کیا گیا ہے۔ اس کے تحت کسی بھی پاکستانی کو امریکا کے حوالے کرنے کی بات سنی گئی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی اس بات کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر عافیہ کوواپس مانگ سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ کام کر لیں تو پاکستانی عوام کے ہیرو بن جائیں گے۔ اﷲ ڈاکٹر عافیہ کی مدد کرے آمین۔
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094938 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More