عام تاثر تو یہ جاتا ہے کہ جب موسم سرما قریب آتا ہے تو
سیاسی عوامل مزید چست ہوجاتے ہیں. قدرتی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی
فطری حرارت کم ہوتی ہے تو سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے. گو کہ جب
بھی موسم بدلتا ہے اس کے ماحول پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں. اسی طرح سیاست
کا بھی اپنا موسم ہے جو کہ موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے تیور بھی بدلتا
رہتا ہے. بس کچھ دنوں سے میرے ملک میں بھی سیاست کا عجب موسم اُترا ہے. جس
نے سیاسی منظر نامے کو پر لطف بنا دیا ہے. لیکن بعض کے لئے یہ منظر نامہ
موسم خزاں کی مانند سمجھا جا رہا ہے.
در اصل سیاسی منظر نامے میں یہ تیزی چار دن پہلے 20 ستمبر کو اس وقت دیکھنے
کو ملی جب میاں نواز شریف نے لندن سے بیٹھ کر آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت
کی اور اس دوران کانفرنس کے شرکاء سے خطاب بھی کیا. موصوف کا پرچی میں لکھا
انقلابی خطاب ہی اصل میں سیاسی موسم کی شدت میں اضافے کا باعث بنا. اس خطاب
کا اگر میں چیدہ چیدہ تذکرہ کروں تو سابق وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ ہماری جدوجہد عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کے خلاف ہے.
لیکن قبلہ محترم یہ بھول رہے تھے کہ وہ بھی ایسے ہی پس پردہ ہاتھ کے ذریعے
سیاست میں داخل ہوئے تھے. نیز یہی ہاتھ ہی انھیں ہر موقع پر تحفظ فراہم
کرتا تھا. آج بھی انھیں میں سے چند افراد میاں نواز شریف کے لئے نرم گوشہ
رکھتے ہیں. اس لئے تو موصوف جیل سے نہیں بلکہ لندن میں بیٹھ کر خطاب کر رہے
تھے. خیر یہ تو میں میاں صاحب کے خطاب کا احوال بیان کر رہا تھا.
لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ اپوزیشن کو اس آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت کیوں
محسوس ہوئی؟ اس کا جواب اتنا سادہ نہیں ہے. بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن
ایف اے ٹی ایف بل کو پاس کروا کر ایوان میں بالکل ناکام ہوچکی تھی. لہٰذا
اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے اپوزیشن نے ہمیشہ کی طرح اپنا
بہترین حربہ استعمال کیا. لیکن عجیب بات ہے کہ اپوزیشن کا یہ حربہ ان کی
ساکھ تو نہ بچا سکا بلکہ اپوزیشن کو مزید بے نقاب کر دیا. ممکن ہے کہ
اپوزیشن کو پارلیمنٹ سے بل پاس کروا کر اتنی سبکی نہ اُٹھانی پڑی ہو جتنا
کہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اُٹھانی پڑی ہے.
اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بیانیے میں بھی تضاد موجود ہے .
کیونکہ ایک جگہ تو آپ جمہوریت کی ساکھ کی بات کر رہے ہوں اور دوسری طرف خود
آپ اس جمہوریت کا گلا گھونٹ دیں. کیونکہ اصل میں اپوزیشن صرف سیاسی حوالے
سے تو جمہوریت چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں
بلکہ جماعت اسلامی کے علاوہ ہر جماعت نے اپنی پارٹی میں ملوکیت کو رائج کیا
ہوا ہے. یعنی میاں نواز شریف کی ولی عہد مریم نواز شریف اور دوسری طرف
جمہوریت کے لئے جان دینے والی جماعت پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے. یعنی
کہ پارٹی میں ملوکیت ہو اور سیاست ہم نے جمہوری کرنی ہے. کیا یہ کھلا تضاد
نہیں؟ خیر یہ تو خاکسار کی ذاتی رائے ہے. آپ اس سے مخالفت بھی کر سکتے ہیں.
آپ نے یہ محاورہ یقیناً سنا ہوگا "ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے
اور" بس یہی محاورہ بد قسمتی سے ہماری ملکی سیاست کی بنیاد ہے. یہاں جو آپ
کو دکھایا جاتا ہے. حقیقت میں اس کے پس پردہ کچھ اور کیا جاتا ہے. اس
محاورے کا سب سے زیادہ استعمال ہمیں مسلم لیگ (ن) میں دیکھنے کو ملتا ہے.
کیونکہ جب میاں نواز شریف کو 2018 میں کرپشن کے الزام میں اعلیٰ عدلیہ کی
جانب سے نااہل قرار دیا گیا. تو موصوف نے اپنا نعرہ یہ بنا لیا کہ ووٹ کو
عزت دو. لیکن حقیقت یہ تھی کہ ماضی میں یہی موصوف ووٹ کے ذریعے آئی ہوئی
حکومتوں کو گرانے میں معاون ثابت ہوتے تھے. یہی موصوف تھے جنہوں نے بینظیر
حکومت کو دو دفعہ مدت سے پہلے ناکام کیا تھا. اس سے پہلے محمد خان جونیجو
کے بطور وزیراعظم استعفے کی وجہ بھی موصوف کو ہی سمجھا جاتا تھا. یہاں تک
کہ پیپلزپارٹی کی تیسری مدت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی نااہل
کروانے کے لئے موصوف کالا کوٹ پہن کر کے آگے آگے پیش ہوتے تھے. لیکن ایک
لفظ آپ نے سنا ہوگا "مکافات عمل" بس وہی میاں صاحب کے ساتھ ہوا ہے. لیکن
تعجب کی بات یہ ہے کہ اب کی بار میاں صاحب اپنا رونا رو رو کر تھکتے نہیں
ہیں. جہاں بھی موقع ملتا ہے برملا اظہار کرتے ہیں.
لیکن دوسری طرف موصوف کے چھوٹے بھائی خادم اعلیٰ شہباز شریف ہیں. جو کہ پس
پردہ ملاقات کا ریکارڈ بنا چکے ہیں. یہاں تک کہ آل پارٹیز کانفرنس سے کچھ
دن قبل موصوف خادم اعلیٰ دو دفعہ اسی مخلوق سے ملاقات کر کے آئے تھے . جس
کو میاں نواز شریف اپنے خطاب میں بار بار یاد کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے
کہ ان کو سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے. یہاں تک تو بات میاں صاحب کی
بھی درست ہے کہ ﷲ نے ہر مخلوق کو علیحدہ سے فرائض سونپے ہیں. لہذا جس کا جو
فرض بنتا ہے اس کو وہی سرانجام دینا چاہیے. لیکن کیا ہے کہ ہمارے سیاست دان
بھی خوشی خوشی ان کے پاس جاتے ہیں. مزید یہ کہ اگر ان کی سپورٹ حاصل نہ ہو
تو اپنے آپ کو کمزور بھی سمجھتے ہیں. بسا اوقات ملک سے باہر جانے کے لئے
اجازت بھی ان سے لیتے ہیں اور واپس بھی انھی کی کال پر آتے ہیں.
یہ سب تو ان کی پالیسی ہے کہ ایک بھائی بڑے میاں صاحب عوام کے سامنے
جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور سول بالادستی کا نعرہ بلند کرتے ہیں . جبکہ
دوسرے بھائی چھوٹے میاں صاحب پس پردہ معاملات نمٹاتے ہیں اور بیک ڈور سے
سیاست کی راہ ہموار رکھتے ہیں. بقول شیخ رشید احمد کہ انھیں پچ کے دونوں
جانب بخوبی کھیلنا آتا ہے. بس اسی وجہ سے ماضی میں ن لیگ فائدہ لیتی آئی ہے.
جبکہ پیپلزپارٹی کو اتنا کریڈٹ تو بنتا ہے کہ انھوں نے کبھی اس ذریعے سے
کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا. لیکن اس دفعہ تو پیپلز پارٹی نے بھی ملاقات کو
خفیہ رکھا ہے. در اصل اس دفعہ عسکری قیادت نے بھی کھل کر کھیلا ہے اور نام
نہاد جمہوری رہنماؤں کو بے نقاب کردیا ہے.
اپوزیشن اور عسکری قیادت کی ملاقات میں ہمیں کہیں بھی حکومت کا کردار نظر
نہیں آتا اور نہ ہی عمران خان کا نام سننے کو ملتا ہے. اس سے دو باتوں کا
امکان پیدا ہوتا ہے یا تو عمران خان خود ان سب سے دور ہیں یا پھر انھیں
رکھا گیا ہے. خیر جہاں تک مجھے معلوم ہوا کہ اس سب معاملات میں عمران خان
کو ساتھ رکھا گیا ہے. نیز جب اپوزیشن رہنما گلگت - بلتستان کو صوبہ بنانے
پر بات کررہے تھے. تب ذرائع کے مطابق عمران خان دوسرے کمرے میں ہی موجود
تھے. لیکن وہ ان کے سامنے نہیں آئے تھے . میرے خیال سے تو یہ بھی غیر
جمہوری عمل ہے.
لیکن شائد وہ یہ اس لئے بھی کر رہے ہوں کہ عوام کے سامنے اپوزیشن کو بے
نقاب کیا جاسکے. لہذا میں تو اس کو عمران خان کی سیاسی چال ہی سمجھوں گا.
اب جب اتنا کچھ بے نقاب ہوگیا ہے. مزید یہ کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسد
عمر کے بڑے بھائی محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات کے بارے میں بھی اپنی
پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے. بلکہ یہ ہی نہیں ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ
ملاقات مریم نواز شریف اور نواز شریف کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں کی گئی
تھی. یعنی سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملاقات نواز شریف اور
مریم نواز کے لئے ڈیل حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی. شائد یہ ہی وہ ناکامی
تھی جب محمد زبیر نے صاف الفاظ میں میاں نواز شریف کو بتایا ہوگا کہ اس
دفعہ کوئی رعایت نہیں ملے گی . یعنی اسٹیبلشمنٹ نے مزید رعایت دینے سے
انکار کردیا ہوگا . یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے کشتیاں جلا کر آن لائن خطاب
میں جارہانہ بیان دیا. نیز تصادم کی سیاست کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ
کیا. لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان کے بعد اپوزیشن کے بیانیے کو
مزید نقصان پہنچا ہے. نیز یہ کہ محاورہ " ہاتھی کے دانت کھانے کے اور
دکھانے کے اور" پر اپوزیشن خاص طور پر ن لیگ من و عن عمل کرتے ہوئے بے نقاب
ہوگئی ہے.
اس سب منظر نامے کو یقیناً عمران خان دیکھ کر محضوظ ہورہے ہوں گے. لیکن ایک
بات یہاں عمران خان صاحب کے لئے بھی سبق آموز ہے کہ مستقبل میں اگر عمران
خان صاحب نے یہ پالیسی اپنائی تو ان کو اس سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے.
کیونکہ عوام اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ صرف کارکردگی کے ساتھ مشروط ہے. عوام
تو عمران خان سے دن بہ دن نالاں نظر آرہی ہے. لیکن اگر عمران خان نے اپنی
کارکردگی بہتر نہیں کی تو دوسرا ہاتھ بھی ان کے سر سے اُٹھ سکتا ہے. لیکن
اگر وہ اپنی باقی مدت بہترین حکومت کرتے ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرتے
ہیں تو یہ امکان موجود ہے کہ ان کی جماعت اگلے الیکشن میں بھی حکومت کرنے
کے قابل ہوجائے.
|