فوج۔سیاستدان۔مداخلت

سیاست میں فوج کی مداخلت تو بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ مگر فوج میں سیاستدانوں کی مداخلت کا راز بھی بلآخر عام عوام کی سامنے آشکار ہو گیا۔ ہمارے سیاستدانوں کا واویلا کہ فوج سیاست میں مدتاخلت کر رہی ہے صرف تب سننے کو ملتا ہے جب کسی خاص معاملہ میں فوجی مداخلت ان کی توقع کے مطابق نہ ہو یا پھر فوجی حمایت ان کے ساتھ نہ ہو۔ ہم عوام بھی اس موقف کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ فوج اگر کسی ملکی سیاسی معاملہ کو بہتر کرنے کے لیے بھی سامنے آئے تو اسے فوج کے دائرہ کار سے باہر سمجھتے ہیں۔فوجی مداخلت ہمیں صرف تب قابل قبول ہے جب سیلاب آیا ہو،زلزلہ کی تباہ کاریاں ہو،کسی وباہ کا سامنا ہو یا واپڈا جیسے کسی ادارے کوبہتر بنانا ہو،کسی گاوُں یا شہر میں امن و امان بحال کرنے کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہو۔اور اگر ایسا کچھ نہ ہو تو ہم صرف حکومت کرنا چاہتے ہیں، جا ئیدادیں بنانا چاہتے ہیں اور اس میں فوجی مداخلت قطعاً گوارہ نہیں ہے۔

یہ جو ہمارے ملک میں کسی نہ کسی طرز کی جمہوریت آج بھی موجود ہے اس کا سبب بھی فوجی مداخلت ہے ورنہ ہماری اشرافیہ تو اب تک ہمیں بادشاہت یا امیر المومنین کے عظیم منصب پر براجمان کر چکی ہوتی۔اور ویسے بھی سیاست تو ہماری سیاسی اشرافیہ جتنی فوج کو کبھی آ بھی نہیں سکتی اس لیے صرف سیاستدانوں کو ہی کرنی دی جائے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فوج کو بھی بہتر سیاست آتی ہے تو فوجی حکمرانی کے ۳۰ سالہ دور کے تمام آرمی چیف کی جائیداد اور دولت اکھٹی کر لیں اور ہماری کسی ایک حکمران فیملی کی دولت سے موازنہ کر لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ کسے بہتر سیاست آتی ہے۔

تھوڑی سی بات دائرہ کار اور فرائض کی انجام دہی کی بھی کر لی جائے تو فوجی ڈیوٹی تو ایک کام ہے جو فوج نے کرنا ہی کرنا ہے۔ اس کی انجام دہی میں فوجی شہید ہو جائیں یا مستقل اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے لڑنا پڑے اور اپنی اور اپنی فیملی کو خطرہ میں ڈالنا پڑے تو اسے معمول کی باتیں کہتے ہیں۔

اصل کام تو سیاست ہے جو کہ خدمت سے عبارت ہے اور ہمارے سیاستدان خادم اعلیٰ اور خادم اعظم بن کر یہ قومی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔خود کو اور اپنی فیملی کو خطرہ سے نکال کر دولت،آسائشوں اور محلوں میں رکھنا اصل مشکل کام ہے جو کہ وہ دن رات ایک کر کے کر رہے ہیں۔

ہمارے فوجی حضرات کو اگر اپنا کام مشکل لگتا ہے اور سیاستدانوں کا آسان لگتا ہے تو ایک مہینہ کے لیے اپنے رول بدل لیں فوجی قانون سازی کر لیں اسمبلیوں میں کانٹوں کی سیج پر بیٹھیں اور اپنے بچوں کو خود سے دور کر کے دور یورپ یا امریکہ کے ملکوں میں مہنگے گھروں میں رکھ لیں۔ اگر ایسا ھو گیا تو پھر یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ ہمارے سیاستدان بھی آگے بڑھیں گے اور تمام پارلیمنٹیرینز صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں کو فوراً چھوڑ کر بندوق پکڑ کر یک زبان ہو کر اگلے مورچے سنبھال لیں گے۔اور آپکو شاید مہینہ گزرنے پر واپس اپنے دائرہ کار میں جانا چاہیں گے مگر قوم کے عظیم سپوت ہمارے سیاستدان ان مورچوں سے شاید واپس نہ آنا چاہے۔

ملکی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے شاید آئندہ بھی سیاستدانوں اور فوج کی ملاقاتیں ضروری ہوں مگر فوج ہمارے سیاستدان بھائیوں کے فن سیاست سے محتاط رہیں۔اور اس بات کا تو یقین ہے کہ فوج انٹر نیشنل حالات، انڈیا چائینہ کشیدگی کے اثرات اور ساوُتھ چائینہ سمندر پر گہری نظر رکھتے ہوئے ملکی سالمیت کا دفاع ہر حال میں کر لے گی مگر کیا ہر حال میں اس مخصوص سیکیورٹی حالات کا ادراک ہمارے سیاسی بھائیوں کو بھی کسی بریفنگ میں ہو جائے گا ۔
پاکستان پائندہ باد
 

Kurbaan ali bhatti
About the Author: Kurbaan ali bhatti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.