وکی لیکس کی مثال پنڈورا نامی اس
صندوق کی سی ہے جس کے بطن سے سے آئےدن نت نئے آسیب نمودار ہوتے تھے اور
یہ غیر یقینی مخلوق کب کس سے لپٹ جائے اسکی بھویشیہ وانی مہا رشی ویاس
کیلئے بھی ممکن نہیں ہوسکتی تھی حالانکہ سنا ہے ویاس جی انتریامی تھے ۔انہوں
نے دواپر یگ میں بیٹھ کر تریتا اور ست یگ کے حالات معلوم کر لئے اور نہ صرف
ویدوں کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ان کی تدوینِ جدید کا عظیم کارنامہ
انجام دے ڈالا بلکہ ۱۸ پرانوں کی تصنیف کر گزرے جس میں لاکھوں اشلوک پائے
جاتے ہیں وکی لیکس کے حالیہ انکشاف کے بعد جس میں ارون جیٹلی کے حوالے یہ
کہا گیا تھا کہا انہوں نے ہندوتوا کو محض ایک سیاسی ابن الوقتی قرار دیا
ارون جیٹلی سمیت سنگھ پریوار یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات سراسر غلط
ہے لیکن بی جے پی والوں یہ نہیں کہہ رہے کہ ہندوتواگر سیاسی ڈھکوسلہ نہیں
ہے ؟توآخر کیا ہے؟ یہ مسئلہ نہ صرف اس نظریہ کے ساتھ ہے بلکہ اس دھرم کے
ماننے والوں کے ساتھ بھی ہے ۔ ہندوستان کا دستور تک اس ہندو کی تعریف بیان
کرنے سے قاصر ہے اس لئے وہ کہتا ہے کہ جو مسلمان، عیسائی،جین ، بدھ یا سکھ
نہیں ہے وہ ہندو ہے ۔سناتن دھرم کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت حکایات میں
گم ہو کر رہ گئی ہے ۔ جس طرح یہ مذہب انسانوں کو چار طبقات میں ذات پات کی
بنیاد پر تقسیم کرتا ہے اسی طرح یہ انسانی تاریخ کو بھی چارادوار میں
بانٹتا ہے ۔ ست یگ ، تریتہ ، دواپر اور کل یگ۔ تریتا یگ تک اس مذہب کی
بنیاد ویدوں پر تھی جس پر یہ لوگ برہما کے اپنے الفاظ کی حیثیت سے ایمان
رکھتے تھے لیکن دواپر یگ میں ویدوں کو چار عنوانات کے تحت تقسیم کر دیا گیا
اور اس طرح یجر وید ، سام وید ، اتھر وید اوررگ وید مرتب ہوئے ۔ اس دوران
ان تعلیمات میں کس قدر خلط ملط ہوا اس کا اندازہ کرنا ناممکن ہے ۔ اس کے
بعد ویدوں کی تعلیمات کو آسان بنانے کی خاطر ہندو رشی منی ان کی تفسیر
بیان کرنے میں جٹ گئے اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ۱۰۸ اپنشد تصنیف کر ڈالے گئے
لیکن اس کے باوجود ویدوں اور اپنشدوں کو عوام میں قبول عام حاصل نہ ہو سکا
تو پھر قصے کہانیوں سے مدد لی گئی اوررزمیہ کتھاؤں پر مشتمل پرُان لکھے
جانے لگے اس طرح ۱۸ پُران عالمِ وجود میں آگئے جن میں سے وشنو پُران سب سے
زیادہ مقبول ہوا۔ وشنو پُران کے اندر وشنو دیوتا کے دنیا کو ظلم سے پاک
کرنے کی خاطر اور یہاں سے برائیوں کے خاتمے کی غرض سے اوتار بن کر آنے کا
بیان پایا جاتاہے لیکن ان کے تمثیلی و علامتی قصہ ہونے پر سارے ہندو علماء
کا اجماع ہے ۔
وشنو پُران ہندو عوام کے اندر خاصے مقبول ہوگئے جن میں وشنو کے آٹھ اوتار
کا ذکر اور ایک کی پیشن گوئی ملتی ہے ۔ ان کہانیوں کے اندر ایک خاص ارتقاء
اور تدریج کا عمل کارفرما دکھلائی دیتا ہے مثلاً پہلے چار اوتار ست یگ کے
ہیں ان میں سے تین تو مکمل طور سے جانور کے بھیس میں اور چوتھا نصف انسان
اور نصف شیر گویا آدھا جانوراور آدھا انسان ۔پہلی کہانی حضرت نوح ؑ کے
واقعہ سے متاثر ہے جس میں ساری کائنات کے عظیم سیلاب کی نذر ہوجانے کا اور
وشنو کے مچھلی بن کر اسے بچانے کا قصہ ملتا ہے ۔ دوسری میں وشنو کچھوا بن
کر آتے ہیں اور اس کچھوے کی پیٹھ پرکھونٹہ گاڑ کر دیو اور دانو ارتھ(زمین
کا) منتھن کرتے ہیں تاکہ اس میں سے امرت کشید کیا جاسکے ۔تیسری کہانی میں
وشنو خنزیر کے بھیس میں تشریف لاتے ہیں اور ساری دنیا کو اپنے سونڈ نما منہ
پر اٹھا کر سمندر کی طہ میں چلے جاتے ہیں اور چوتھی میں نر سمھا جو آدھا
شیر اور آدھا انسان ہے اپنے دشمن کو پھاڑ کھاتا ہے ۔ اب ظاہر ہے اس طرح کی
کہانیوں کو مقبول ہونا ہی تھا سو ہوگیا۔
تریتا یگ کے تینوں اوتار اتقاق سے انسان ہیں سب سے پہلا پستہ قد بونا جس کا
نام وامنا ہے اپنی چالبازی اور چمتکار کی بنیاد پر دشمن کوزیر کر لیتا ہے۔
وہ تین قدم زمین کا وردان مانگتا ہے اور اپنے قدموں کو پھیلا کر ساری دنیا
کو اس کے احاطےمیں لے لیتا ہے ۔ یہاں کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوتا۔
دوسرااوتارپرشورام اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے دشمن کو کاٹ کر رکھ دیتا
ہے یہاں تشدد تو ہے سیاست نہیں ہے ۔تیسری کہانی مشہورومعروف رام چندر جی کی
رامائن ہے جس میں سیاست اور اور جنگ دونوں ہے لیکن یہ ایک صاف ستھری داستان
ہے جو جنسی زدگی سے پاک صاف ہے ۔ اس میں راون کی بہن سپر نکھا لکشمن کو
شادی کی پیش کش کرتی ہے اس کے باوجود وہ اس کی ناک کاٹ کر اس سے دور ہو
جاتا ہے۔راون جیسا ولن سیتا کا اغوا کرنے کے باوجود اس پر دست درازی کی
جرأت نہیں کرتا لیکن کیکئی کی سیاست بہرحال رامائن کو اپنے پیش رو حکایات
سے ممتاز کر دیتی ہے ۔
دواپر یگ میں رام لیلاکرشن لیلا میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مہابھارت اس کو
بیان کرتی ہے جو ان سب سے آگے نکلی ہوئی ہے ۔ یہ جنگ و جدال، سیاسی چال اور
جنس پرستی سے مالامال طلسمِ ہوشربا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رامانند ساگر کی
رامائن کو بی آر چوپڑہ کی مہا بھارت نے مقبولیت میں مات دے دی اور اس کے
بعد دوبارہ سنجے دت نے اسے بنایا اور وہ بھی خاصی کامیاب رہی گویا لوگ ایک
ٹی وی ڈرامے میں جو کچھ دیکھنا چاہتے ہیں وہ سارا مسالہ اس میں موجود ہے ۔
ویسے ادی شنکر اچاریہ نے بودھ مت کو نگلنے کی خاطرگوتم بدھ کو بھی وشنو کا
اوتار قرار دے دیا اور اس طرح وشنو کا نواں اوتار کل یگ میں نمودار ہوگیا
لیکن بہت سارے ہندو اب بھی اس کو صحیح نہیں مانتے اور بودھ تو اپنے دین کو
ہندو مت سے بغاوت قرار دیتے ہیں جو صد فی صد حقیقت ہے ۔
رامائن اور مہا بھارت کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اولذ کر کہانی میں
دشمن غیر ہے اور مؤخر الزکر داستان میں ساری کشمکش اپنوں کے درمیان ہے ۔
راون کی ذات برہمن ہے جبکہ رام شتری،رام ہندوستانی ہے راون سری لنکا کا
باشندہ گویاایک شمال تو دوسرا جنوب ۔ اس کے برعکس مہابھارت میں ساری سیاست
اور ساری جنگ وجدال ایک خاندان کے اندر برپا ہے ۔ کورو اور پانڈو چچا زاد
بھائی ہیں اور ارجن و کرن توایک ہی ماں کنتی دو پتریعنی آپس میں سگے بھائی
اس کے باوجود ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ۔ کرشنا اپنے ماما کنس کو قتل کرتا
ہے تو شکنی اپنی بہن کے سسرال والوں کو رسوا کرتا ہے گویا ایک خانہ جنگی ہے
جو ہر سو برپا ہے۔ سنگھ پریوار کو اگرہندودھرم کے تناظر میں دیکھا جائے
ایسا لگتا ہے کہ جن سنگھ کا زمانہ اس کا ست یگ تھا اس کے بعد بھارتیہ جنتا
پارٹی کے پہلی ربع صدی اس کا تریتہ یگ تھا جس میں بی جے پی کی پہلی نسل نے
رام مندر کی تحریک چلائی اور اس کے بعد کا زمانہ یعنی ۲۰۰۵ کے آگےدواپر یگ
جس میں آپسی سرپھٹول اب خانہ جنگی کی شکل اختیا ر کرگئی ہےاس مرحلے میں
ضعیف اور دھرندر آرایس ایس گرو درونا چاریہ کی مانند کوروں کے ساتھ ہے
کرشنا کا کردار نائیڈو اور نتیش کمار جیسے لوگ ادا کر رہے ہیں ۔
تریتا یگ کی کیفیت اس سے یکسر مختلف تھی اس وقت پارٹی کی توجہ پوری طرح
باہر کے راون یعنی کانگریس کو شکست دینے پر مرکوز تھی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ
اس دوران بھی آر ایس ایس نے کیکئی کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑے بیٹے اٹل
بہاری واجپائی کو درمیان ہی میں بنباس پر روانہ کردیا اور اپنے منظور ِنظر
اڈوانی کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا ۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے بی جے پی
کوہنومان اور اسکی وانر سینا کی حاجت ہوئی تو وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو
میدان میں اتارا گیا لیکن اس کے باوجود کانگریسی راون کو شکست دینے میں
کامیابی نہیں ہوئی اور ۱۳ دن کی جنگ میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا ۔اس
ناکامی کے باوجود پارٹی کے حوصلے بلند تھے اب راون کے بھائی وبھیشن کو توڑ
کر اپنے ساتھ ملا نے کی کوشش شروع ہوئی اور جارج فرنانڈیس نے اس خدمت کیلئے
اپنے آپ کو پیش کر دیاوہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہ رام سینا کا حامی بن
گئے لیکن یہ سودے بازی خاصی پیچیدہ تھی۔ راون کے ساتھی اپنی شرائط لیکر
آئے تھے ۔راون کی لنکا کو خاکسترکرکے جب رام سینا ایودھیا نگری میں داخل
ہوئی تو باہر والوں کے اصرار پر بھرت کو سنگھاسن سے ہٹا کراصلی رام یعنی
اٹل جی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔اس کے بعدجب دوبارہ انتخاب میں کامیابی
درج کرنے کیلئے شری رام اپنے اشو میگھ پر سوار ہو کرنکلے تو نئی نسل کے
مہاجن اور مودی نےلو اور کش کی مانند نادانستہ وجئے یاترا کوروک دیا۔ اس
سارے مرحلے میں سازشوں کے جال تو بنے جاتے رہے لیکن کوئی بغاوت یا خانہ
جنگی کی فضا پیدا نہیں ہوئی۔ گویا کل یگ کی رامائن کا ماحول بھی تریتا یگ
کا سا تھا یعنی نی ست یگ اور نہ کل یگ بلکہ دونوں کے درمیان مگر ست یگ سے
قریب تر۔
رامائن کے بعد ہندوتوا کے اس قافلے کو مہابھارت سے دوچار ہونا تھا سو وہ
بھی ہو گیا ۔اٹل جی کی بیماری اور اڈوانی جی کی پے در پے ناکامیوں نے بی جے
پی کو تریتا سے دواپر یگ میں پہنچا دیا ۔ ارون جیٹلی کی رابرٹ بلیک سے
گفتگو اور سشما سوراج کا ریڈی برادران کو لے کر موجودہ تنازعہ اسی مہابھارت
والی خانہ جنگی کا شاخسانہ ہے ۔مہابھارت ویسے تو نہایت دلچسپ رز میہ داستان
ہے مگر اس کا انجام بڑا دردناک ہے ۔ اس لحاظ سے بھی یہ رامائن اور دیگر
وشنو پُرانوں سے مختلف ہے ۔کروکشیتر میں لڑی جانے والے آخری معرکے میں
سارے کورو مارے جاتے ہیں ۔ اپنے بیٹوں کی بکھری ہوئی لاشوں کو دیکھ کر ان
کی ماں گندھاری کرشن کو شاپ (بددعا) دیتی ہے اور اسے اس خون خرابے کیلئے
ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔گندھاری کے مطابق کرشنا ایسی مابعد طبعی قوتوں کا مالک
تھا کہ جنگ کو ٹال سکتا تھا لیکن اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا آج
کل لال کرشن اڈوانی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ پارٹی کے اندر برپا ہونے والے
خلفشار کو ٹال سکتے ہیں لیکن گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر اپنی ذمہ داری ادا
نہیں کر رہے ہیں ۔ گندھاری کی بددعا ۳۶ سال بعد پوری ہوتی ہے اور کرشنا
اپنے خاندان کو اسی طرح تباہ و تاراج ہوتا دیکھتے ہیں اور خود بھی ہلاک ہو
جاتے ہیں اور کرشن کی دوارکا نگری سمندر میں غرق ہو جاتی ہے ۔یا دو نسل کی
بربادی کی خبر سن کر راجہ یدھشٹر کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے اوروہ اپنے بھائیوں
کے ساتھ رہبانیت اختیار کرتے ہیں اور اپنا تخت و تاج چھوڑ کر ہمالیہ کی
جانب کوچ کرتے ہیں اور کیلاش پربت کے راستے میں ایک ایک کرکے چار بھائی اور
دروپدی راستے میں گر جاتے ہے ۔ ان کے گر نے کی وجہ دھرتراشٹر یہ بتلاتے ہیں
کہ انہیں اپنی طاقت ،فن یا حسن و جمال پر کبر غرور تھا ہاں دروپدی اپنے
امتیازی سلوک کے باعث نجات سے محروم رہتی ہے۔ بی جے پی کی دوسری نسل کے
رہنماؤں کے اندر بھی کبر و غرور کی برائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انہیں
چاہئے کہ مہابھارت کے انجام سے سبق لیں ۔یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ارون جیٹلی نے
بھی لیڈرشپ کے لئے پانچ دعویداروں کا ذکر کیا جن میں سے ایک خاتون یعنی
سشما سوراج ہے ۔ مہابھارت کے آخر میں صرف دھرت راشٹر کوموکش(نجات) پراپت
ہوتا ہے جو اس جنگ اور خون خرابے کا سخت مخالف تھا ۔بی جے پی کے معاملے میں
اگر کوئی کردار دھرتراشٹر سے مشابہ ہے تو وہ اٹل بہاری واجپائی ہے جو اپنی
عمر اور مر تبے کے لحاظ سے بھی دھرتراشٹر کی مانندہے ۔ بی جے پی لمحہ بہ
لمحہ مہابھارت کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے قرار واقعی انجام کی جانب
رواں دواں ہے ۔ |