ایبٹ آباد کی تاریخی پیلس ہوٹل .. زبون حالی کا شکار..

ریلیجس ٹورازم کا فروغ
اوقات کے زیر انتظام اس بلڈنگ کی ری نویشن پر توجہ دی جائے اور اسے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کسی ایسے ادارے یا شخصیت کے حوالے کرے جو اس کی اہمیت سے واقف ہو تو یقینایہ عمارت ریلیجس ٹورازم کیلئے ایک بہترین جگہ بن سکتی ہیں جس سے نہ صرف سیاحوں کی پاکستان آمد زیادہ ہوگی بلکہ ان سے پیدا ہونیوالی آمدنی نہ صرف ایبٹ آباد بلکہ ملکی سطح پر بھی استعمال ہوسکے گی .
ایبٹ آباد کا پرفضا مقام اور اس کی مختصر تاریخ
خیبر پختونخواہ کے علاقے ہزارہ کا خوبصورت شہر ایبٹ آباد جو برطانوی شہری میجر جیمز ایبٹ کے نام پر بنا تھا میجر جیمز ایبٹ 1849سے 1853 تک اس علاقے کے پہلے ڈپٹی کمشنر رہے. اسی کے نام سے بننے والے ایبٹ آباد کی اہمیت اپنی جگہ لیکن موسم کے حوالے سے صوبہ بھر کے بہترین علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ بلکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے یہاں کا موسم بہ نسبت دوسرے شہروں کے بہتر ہیں یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں آنیوالے سیاحوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہیں پاک چین دوستی کا راستہ شاہراہ ریشم بھی اسی راستے پر آتا ہے اور یہ راستہ نہ صرف چین بلکہ اسی روڈ پر سوات اور کوہستان تک کے خوبصورت علاقے واقع ہیں جس کی وجہ سے اس روڈ کو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہیں-پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اس اکیڈمی نے خوبصورت جوان پاک آرمی کو دئیے جنہوں نے نہ صرف ملکی سرحدات کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کردی بلکہ انہی جانبازوں کی کاوشوں سے آج اس مملکت خدادا میں امن قائم ہے.ایسٹ انڈیا کیساتھ آنیولے ایبٹ کے نام سے بننے والے اس شہر میں کلیسا بھی ہے ، مندر بھی ہے ، مسجد بھی ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر واقع ہیں جہاں پر ہونیوالی عبادات سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق بھی ملتا رہا ہے-اسی شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سویلین کیلئے بنایا گیا کمپنی باغ بھی موجود ہے جو اب تجاوزات کی وجہ سے ختم ہو کر رہ گیا ہے تاہم اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے-

پیلس ہوٹل
ایبٹ آباد کے کینٹ کے علاقے میں واقع پیلس ہوٹل جس کا مالک بابو ایشر داس تھا اور قیام پاکستان سے قبل یہاں پر ایک بار ہوا کرتا تھا جہاں پر الکوحل سے لیکر چائے تک ملتی تھی طبقہ اشرافیہ یہاں پر آکروقت گزارتے تھے اسی بابو ایشر داس کا مردان کا شوگر ملز بھی تھا اور قیام پاکستان کے بعد یہ پیلس ہوٹل جولگ بھگ 80 سال سے زائد کا ہو چکا ہے کو حکومتی سرپرستی حاصل رہی اسی ہوٹل میں چین کے چو این لائن ، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ، ایران کی فرح دیبا سمیت اعلی ریاستی حکام آتے رہے اور سٹیٹ گیسٹ کے طورپر وقت گزارتے رہے ہیں-
پیلس ہوٹل چونکہ ایبٹ آباد کے ٹھنڈے موسم میں بنایا گیا تھا اس لئے اس وقت برطانیہ کی مشہور کمپنی shink کے تیار کردہ سامان کو امپورٹ کرکے یہاں پر لگایاگیا تھا ، جو اب بھی یہاں کے باتھ رومز میں کہیں کہیں پر نظر آتا ہے ، اکیس سے زائد ٹب یہاں پر لگائے گئے تھے جبکہ لگ بھگ تیس ایکڑ پر بنے اس بلڈنگ کو گرم کرنے کیلئے چاروں اطراف میں پانی کو گرم کرنے کیلئے ایک مخصوص سسٹم لگایا گیاجس سے نہ صرف گرم پانی پورے بلڈنگ میں مہیا ہوتا تھا بلکہ اس کے ذریعے یہ بلڈنگ کو گرم بھی رکھا جاتا تھا جبکہ اس پیلس ہوٹل کی چھتیں اتنی اوپر رکھی گئی تھی کہ ہوا کو اندر لانے کیلئے روشن دان تک بنائے گئے جو مختلف سمتوں سے آنیوالے ہوا سے کمروں کو بھی تازہ رکھتے اور گرمی میں کمرے بھی ٹھنڈے رہتے ، اسی طرح نکاسی اب کیلئے الگ ہی سسٹم رکھا گیا تھا ایسے مین ہول بنائے گئے تھے جس میں ایک شخص نیچے اتر کر پوری بلڈنگ کی نکاسی کے نظام کو چیک کرسکتا تھا . پیلس ہوٹل کے چاروں اطراف میں چنار ، دیار کے خوبصورت درخت اور خوبصورت چمن یہاں پر آنیوالے افراد کو بڑے دلفریب لگتے ہیں.برما سے امپورٹ کی گئی ساگوان کے مخصوص دروازے ، کرسیوں پر بیٹھ کر لوگ موسم کو بھی انجوائے کرتے تھے قیام پاکستان سے قبل کی اس عمارت کو 2005 میں آنیوالے تباہ کن زبزلے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا- کیونکہ اس کی بلڈنگ کو بارہ سے چودہ فٹ نیچے سے شروع کیا گیا . مخصوص ڈیزائن کے پلرز پر بنے والے اس بلڈنگ میں جہاں اندرونی طور پر گول سیڑھیاں موجود ہیں وہاں پر باہر سے جانے کیلئے گول چکر والی زینے بنائے گئے ہیں جس پر چل کر نہ تو تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ زینے پر کوئی چل رہا ہے.

تاریخی عمارت پیلس ہوٹل اور اس کی بربادی
قیام پاکستان سے قبل کی اس عمارت کی صورتحال انتہائی ابتر ہے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کے زیر انتظام ہونے کی وجہ ضلع کے مختلف دفاتر یہاں پر موجود ہیں تاہم اس بلڈنگ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی حالانکہ مینٹیننس اینڈ ری پیئرنگ کے نام پر لاکھوں روپے سالانہ حکومت کی جانب سے جاری ہوتے ہیں لیکن اس بلڈنگ کی مرمت پر خرچ نہیں ہورہے جس کی وجہ سے یہ تاریخی عمارت مختلف جگہوں پر سیم کا شکار ہورہی ہیں زینے توڑ دئیے گئے ہیں اس بلڈنگ کے ٹب غائب ہیں ، شینک نامی کمپنی کے باتھ رومز میں لگائے گئے مخصوص اشیاء غائب کردئیے گئے پورے بلڈنگ کو گرم پانی فراہم کرنے والے سسٹم کو تباہ کردیا گیا ہے ، مخصوص شہتیروں کے مدد سے بنائے گئے بلڈنگ کی اوپری چھت پر توجہ نہیں دی جارہی تاکہ پانی ٹپک ٹپک کر اسے تباہ کر ے اسی طرح بلڈنگ کی چھتوں میں درخت تک اگ آئے ہیں جس کی وجہ سے بلڈنگ کو تباہ کیا جارہا ہے جس کا بنیادی مقصد اس تاریخی ورثے کو تباہ کرنا ہے تاکہ ایک مخصوص محکمہ اسے ختم کرے اور پھر کمیشن کی خاطر نئی بلڈنگ قائم کی جائے. دوسری طرف آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے بھی اس معاملے میں مکمل طور آنکھیں بند کر رکھی ہیں اس عمارت کو تاریخی عمارات کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا. تاکہ اس ورثے کو محفوظ کرکے آگے نسلوں کو منتقل کیا جاسکے.

ریلیجس ٹورازم کا فروغ
اوقات کے زیر انتظام اس بلڈنگ کی ری نویشن پر توجہ دی جائے اور اسے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کسی ایسے ادارے یا شخصیت کے حوالے کرے جو اس کی اہمیت سے واقف ہو تو یقینایہ عمارت ریلیجس ٹورازم کیلئے ایک بہترین جگہ بن سکتی ہیں جس سے نہ صرف سیاحوں کی پاکستان آمد زیادہ ہوگی بلکہ ان سے پیدا ہونیوالی آمدنی نہ صرف ایبٹ آباد بلکہ ملکی سطح پر بھی استعمال ہوسکے گی .
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420499 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More