وقت (ٹائم) کی میزان پر دبنگ دادی بمقابلہ باہو بلی پردھان سیوک

معروف عالمی جریدہ ٹائم(وقت) نے ایک رعونت پسند وزیر اعظم کو اس کی اوقات دکھا دی کیونکہ اس میں ایک دبنگ دادی نے نام نہاد دبنگ پردھان سیوک کو مات دے دی۔ ٹائم جریدے کے بااثر شخصیات کے شمولیت کی فہرست میں جو ہوا وہ وہم گمان سے پرے تھا۔ اس معاملے کا ایک پہلوسیاسی اور دوسرا دینی ہے لیکن چونکہ اسلام دین سیاست کی تفریق سے بالاتر ہے اس لیے دونوں کا احاطہ کیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی عالمی شہرت کا گراف دیکھنا ہو تو اسے ٹائم جریدے میں ان پر لکھے جانے والے مضامین سے جانچا جاسکتا ہے۔ ابھی تک جملہ چار مرتبہ مودی کو بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد تین اور پہلے ایک بار انہیں یہ اعزاز بخشا گیا ۔ ؁۲۰۱۲ میں جس وقت وزیراعظم کے عہدے کی خاطر مودی جی کے امیدوار بنائے جانے کی قیاس آرائی شروع ہوئی تو ٹائم نے انہیں بااثر شخصیات میں شمار کیا ۔ اس کے بعد ؁۲۰۱۴ میں انتخاب جیتنے کے بعد اور پھر سے ؁۲۰۱۵ میں وہ ٹائم کے صفحۂ اول پر وہ نظر آئے لیکن ؁۲۰۱۶ میں ناغہ ہوگیا ۔ ؁۲۰۱۷ میں پھر سے ان کے درشن ہوئے مگر ؁۲۰۱۸ اور ؁۲۰۱۹ میں وہ پھر سے غائب ہوگئے اور اب ؁۲۰۲۰ میں نمودار ہوئے ہیں ۔

مثل مشہور ہے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ اسی طرح ٹائم کی بااثر شخصیت کا نیک نام ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے اس شخصیت سے متعلق لکھے جانے والے تاثرات سےکیا جاتا ہے۔ ؁۲۰۱۲ ان کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا (Modi means business) یعنی ’مودی کاروباری ہیں‘ یا ’وہ سودہ بازی کرنا چاہتے ہیں ‘ ۔ یہ ایک محتاط اور معتدل سرخی تھی جس کے اندر منفی و مثبت دونوں پہلو موجود تھے لیکن مضمون کے اندر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا وہ ہندوستان کی قیادت کرسکتے ہیں؟ بھکتوں نے اس سوال کو مودی کی قائدانہ صلاحیت پر سوالیہ نشان کہہ کر ناراضی کا اظہار کیا، حالانکہ وقت نے ثابت کردیا کہ وزیر ایک ایسے خطیب ضرور ہیں کہ جو انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن کسی ملک کی قیادت کرنا ایک دیگر مسئلہ ہے۔ انہیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بی جے پی پرچار منتری نہیں بلکہ ہندوستان کے پردھان منتری ہیں ۔ اپنے آپ کو ایک باصلاحیت رہنما ثابت کرنے میں مودی ہنوز کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور آئندہ بھی اس کا امکان مفقو دہے۔

؁۲۰۱۵ کے اندر جب مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سےپہلا سال مکمل کر لیا تو ٹائم نے لکھا (Why Modi matters) یعنی مودی کیوں اہم ہے؟ لیکن اسی کے ساتھ یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا وہ نتائج بر آمد کرسکتے ہیں ؟ (Will he be able to deliver?)یعنی مودی کی کارکردگی شکوک شبہات کا اظہار کیا گیا ۔ مودی بھکت اس لیے ناراض ہوئے کہ ۱۲ سالوں تک کامیاب وزیر اعلیٰ رہنے کے بعدانتخابی کامیابی حاصل کرکے وزیر اعظم بننے والی عظیم شخصیت کے متعلق یہ سوال کرنا کہ کیا وہ کام کرنے لائق ہیں یا قابلِ اعتماد ہیں نہیں؟ مناسب نہیں تھا۔ ؁۲۰۱۶ کے ٹائم عالمی نمبر میں ثانیہ مرزا اور پرینکا چوپڑا کو تو’دنیا کے 100 سب سے زیادہ بااثر‘ لوگوں میں شامل کیا گیا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کو نظر انداز کردیے گئے حالانکہ یہ غیر اہم بات تھی لیکن اس کو بھی محسوس کیا گیا۔ اس سال ٹائم میگزین نے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے گورنر رگھورام راجن کو موثر شخصیات کی فہرست میں جگہ دے کر’ہندستان کا دور اندیش بینکر‘ کے خطاب سے نوازہ تھا ۔ غالباً یہی سبب تھا کہ مودی جی نے راجن کی چھٹی کردی ۔

؁۲۰۱۹ میں انتخابی مہم کے دوران ٹائم میگزین نے مودی کو (India’s Divider in Chief) کے خطاب سے نواز دیا ۔ مودی کے تعارف پر یہ سرخی معروف کالم نگار تولین سنگھ کی بیٹے آتش تاثیر نے لگائی تھی۔ پلوامہ حملے کے بعد جس جارحانہ انداز میں اپنی انتخابی مہم چلا ئی گئی تھی اس کے تناظر میں مودی کو ’ہندوستان کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا سپہ سالار‘ کہنا غلط نہیں تھا ۔ ٹائم نے یہ اعتراف کیا تھا کہ مودی ایک مصلح کی حیثیت سے آئے تھے لیکن اب بگاڑ پیدا کررہے تھے ۔ مودی حکومت کے پانچ سالہ کارکردگی کو پیش کرنے کے بعد یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مودی حکومت کے مزید پانچ سال برداشت کر پائے گی؟آتش تاثیر نے اپنے شعلہ بار مضمون میں پی ایم نریندر مودی کے کام پر سخت تنقید کرتے ہوئےپنڈت جواہر لال نہرو کے سماجواد اور ہندوستان کی موجودہ سماجی حالت کا موازنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ’’نریندر مودی نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے جذبہ کو بڑھانے سے متعلق کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔‘‘
مضمون نگار نے بلا خوف و خطر لکھا تھا کہ ’’نریندر مودی کا اقتدار میں آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں جس روشن خیال تہذیب( لبرل کلچر) کا تذکرہ مبینہ طور پر کیا جاتا تھا، اس کی جگہ مذہبی راشٹرواد(قوم پرستی)، مسلمانوں کے خلاف جذبات اور ذات پر مبنی شدت پسندی پنپ رہی تھی۔‘‘اس مضمون میں اشارہ کیا گیا تھا کہ ’’ 2002 کے(گجرات) فسادات کے دوران اپنی خاموشی سےنریندر مودی ’فسادیوں کے لیے دوست‘ ثابت ہوئے‘‘ ۔ مودی کے قومی سطح اولین انتخابی کامیابی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ٹائم نے لکھا ’’2014 میں لوگوں کے درمیان پنپ رہے غصے کو نریندر مودی نے معاشی وعدے میں بدل دیا تھا۔ انھوں نے ملازمت اور ترقی کی بات کی، ‘‘لیکن پھر آتش تاثیر نے گائے کے نام پر برپا ہونے والے ہجومی تشدد کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تفصیل پیش کرنے کے بعد اعتراف کیا کہ ’’مودی کے ذریعہ معاشی چمتکار لانے کا وعدہ ناکام ہو چکا ہے۔ یہی نہیں، انھوں نے ملک میں زہریلا مذہبی قوم پرستی(نیشنلزم) کا ماحول تیار کرنے میں مدد کی ہے۔‘‘

؁۲۰۱۹ کا انتخاب جیتنے کے بعد کشمیر سے دفع ۳۷۰ کا خاتمہ ، بابری مسجد پر متنازع فیصلہ اور سی اے اے کے قانون نے تو گویا ٹائم جریدے کی پیشنگوئی کو حرف بہ حرف سچ ثابت کردیا ۔ اس کے بعد دوبارہ ؁۲۰۲۰ میں مودی کو بااثر شخصیات میں شامل کرکے ٹائم نے وہ لکھ دیا کہ ان کے سارے بھکت شرم سے پانی پانی ہوگئے ۔ اس پر معروف صحافی رعنا ایوب نے اپنے ٹویٹکیا کہ ان (مودی ) کی پی آر میشنری ( یعنی آئی ٹی سیل ) اس کے بارے میں ٹویٹ نہیں کرے گی۔‘‘اس بار وزیر اعظم نریندر مودی کا تعارف کراتے ہوئے پہلے تو یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ :’’جمہوریت کے لیے بنیادی بات محض آزادانہ انتخابات نہیں ہیں۔ انتخابات محض یہی طے کرتے ہیں کہ کسے سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ لیکن اس سے زیادہ اہمیت ان لوگوں کے حقوق کی ہے، جنھوں نے جیتنے والوں کو ووٹ نہیں دیا۔ ہندوستان گذشتہ سات دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر برقرار ہے‘‘۔

اس کے بعد ٹائم جریدے نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا :’’یہاں(ہندوستان میں ) 1.3 ارب آبادی میں مسیحی، مسلمان، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ سب ہندوستان میں رہتے ہیں، جس کی دلائی لاما ہم آہنگی اور استحکام کی مثال کے طور پر تعریف کرتے ہیں۔نریندر مودی نے ان تمام باتوں کو تشویش کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے اب تک کے تقریباً سبھی وزیر اعظم ہندو برادری سے آئے ہیں جو کہ آبادی کا 80 فیصد ہیں، لیکن مودی اکیلے ہیں جنھوں نے ایسے حکومت چلائی جیسے انھیں کسی اور کی کوئی پرواہی نہیں۔ ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے ،خاص طور پر مسلمانوں کو ہدف بنا کرحکمران اشرافیہ کے علاوہ تکثیریت کو بھی مسترد کیا۔ وبا ان کے لیے مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کا بہانہ بن گئی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مزید تاریکی کی گہرائیوں میں چلی گئی۔' وزیر اعظم کی کارکردگی کو بیان کرنے کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مناسب الفاظ کا انتخاب ممکن نہیں تھا۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228983 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.