روحانی کتاب کے دو صفحے

روحانی کتاب کے دو صفحے میں روحانی اور برگزیدہ لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے

روحانی اور برگزیدہ افراد

خیال آیا کہ حالات اور سیاست کے ماتمی جلوس میں شامل ہونے کے بجائے حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف حضور داتا بخش پر لکھا جائے کیونکہ آج کل ان کا سالانہ عرس جاری ہے اور نور کا سمندر بہہ رہا ہے۔نور کا سمندر ان نگاہوں کے لئے جو بینا ہیں جو دیکھتی اور جاگتی ہیں۔انکھیں جاگتی اور بینا ہوں تو مادیت کے دنیاوی پردے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔اس خیال کے آتے ہی ایک انگریزی کتاب یاد آئی جو کچھ عرصہ قبل پڑھیں تھی۔میرے لئے یہ کتاب نہ صرف معلومات افروز بلکہ ڑوح افروز بھی تھی۔معلومات افروز ان معنوں میں کہ مصنف نے ایک منفرد اور فکر انگیز انکشاف کیا تھا۔اس نے لکھا تھا کہ میں 1930 میں لاہور آیا اور داتا دربار کے قریب ایک فلیٹ کرائے ہر لے کر رہائش اختیار کی۔میں دن میں کئی بار داتا دربار کا چکر لگایا کرتا تھا۔وہیں میری ملاقاتیں علامہ اقبال سے ہوئیں جو نماز تہجد میں تشریف لاتے تھے۔اور نمازفجر ادا کر کے واپس لوٹتے تھے۔انہوں نے مجھے خطبہ الہ آباد مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کرنے سے قبل دکھایا اور بتایا کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا خیال انہیں داتا دربار میں عبادت کے دوران ایا۔کتاب کا نام ہے" حضرت داتا گنج بخش روحانی سوانح عمری" اور مصنف کا نام ہے مسعود الحسن۔یہ کتاب کئی دہائیوں قبل چھپی تھی اور اب شاید مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔

مصنف کا بیان ہے ایک بار وہ داتا دربار میں مراقبہ کے لیے رہنمائی طلب کر رہا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ جیسے داتا صاحب اسے کہہ رہے ہیں کہ روزے رکھو ۔میں رہنمائی کے لیے داتا دربار حاضری دیتا رہتا تھا۔ایک رات حضرت علی بن عثمان ہجویری میرے خواب میں آئےاور فرمایا۔imprison your senses یعنی اپنے حواس کو قابو میں رکھو ۔میں اس کا مطلب نہ سمجھ سکا لیکن ایک روز کشف المحجوب پڑھتے ہوئے اچانک اس فرمان کا مفہوم ذہن پر چھا گیا۔کشف المحجوب میں داتا صاحب نے لکھا تھا کہ انہیں ایک بار خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔۔میں نے رہنمائی چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی زبان اور حواس کو قید میں رکھو۔imprison thy tongue and senses.داتا صاحب نے وضاحت فرمائ کہ کھانے پینے سے پرہیز تو آسان کام ہے ۔بےہودہ خواہشات اور غیر اخلاقی حرکات سے اجتناب لازم ہے ۔یہ پڑھ کر مجھے داتا صاحب کا فرمان سمجھ میں آیا۔
مسعود الحسن صاحب اس دور کے ایم اے تھے جب سولہ جماعت پاس حضرات کی تعداد بہت کم تھی۔انہوں نے بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کی۔انہوں نے لکھا ہے وہ ہر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی مانند روحانی وارداتوں روحانی تجربات اور معجزات پر یقین نہیں رکھتے تھے لیکن یہ خواب دیکھنے اور کشف المحجوب کے گہرے مطالعے سے مجھ میں انقلاب آگیا اور مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ہماری سوچ،ہمارا ذہن گفتگو اور معاملات کو سمجھنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔اس سے بالاتر سپر نیچرل ذریعہ بھی موجود ہے جو ہمارے ادراک سے ماورا ہے۔پھر مجھے خیال آیا کہ علامہ اقبال نے یہ نظم لکھی" ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں" تو یقیناً انہیں یہ تجربہ ہو ہوگا۔

مسعود الحسن لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کا راستہ ریڈی میڈ نہیں ہے جس پر انسان چل کر اپنے رب کو پالے۔اس راہ میں انسان ٹھوکریں بھی کھاتا ہے اور لڑکھڑاتا بھی ہے ۔مستقل مزاجی ،استقامت اور خالق حقیقی کو پانے کی بہرحال خواہش ضروری ہے ۔ذہن اور قلب کو منفی خواہشات سے پاک کرنا لازم ہے۔سوچ اور حواس کو قید کرنا اسی عمل کا نام ہے۔اس کے نتیجے کے طور پر ضمیر روشن ہو جاتا ہے اور ہر قدم پر روکتا اور خبردار کرتا ہے۔اگر انسان ضمیر کی آواز سننا اور عمل کرنا شروع کردے تو مادی خواہشاتِ دب جاتی ہیں اور انسان روحانی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے ۔روحانی راستہ ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے اور آپ ان بلندیوں پر پہنچ سکتے ہیں جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

ایک روز میں نے مراقبہ کے دوران محسوس کیا جیسے میں بلندیوں کی منزلیں طے کر رہا ہوں۔اس سفر کے دوران وہ مقام آگیا جہاں وقت اور خلا یا مقام کا تصور( time and space) موجود نہیں ہوتا۔مجھے بتایا گیا کہ اب تم اپنے رب تعالیٰ سے رہنمائی لے سکتے ہو۔میرے ذہن میں یہ سوال آیا "زندگی کیا ہے؟" جواب ملا اول مادی( physical) دوم روحانی۔یوں سمجھ لیں جیسے انسانdynamo کی مانند ہے جس سے زندگی پیدا ہوتی ہے۔جب اللہ کے حکم سے ڈائنمو چلنا بند ہو جاتا ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔روحانی زندگی مادی زندگی سے ماورا اور بہت بلند ہے انسان جانتا ہے لیکن اسے سمجھنے سے قاصر ہے وہ حیات ؤ موت کا صحیح ادراک نہیں رکھتا۔پھر میرے ذہن میں سوال ابھرا جزا اور سزا کا اصول کیا ہے ؟میرے ذہن پر یہ جواب منکشف ہوا سزا وجزا دنیا میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی ۔اللہ پاک کی غیر مرئی ( نظر نہ آنے والی) عدالتیں ہر وقت کام میں مصروف رہتی ہیں انسان ہر وقت trial اور آزمائش کے سفر میں ہے کچھ انعامات جزا اور سزا اس دنیا میں دی جارہی ہیں انسان اس عمل سے بے خبر رہتا ہے ۔اگلے جہان کے جزاو سزا کے نظام کو انسانی ذہن نہیں سمجھ سکتا۔

پھر میرے ذہن میں سوال ابھرا زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جواب وارد ہوا یہ جاننا کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا واحد حاکم اعلیٰ اور مالک و خالق ہے۔جب آپ زمرہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ایجنٹ ہیں چنانچہ آپ پر لازم ہے کہ آپ اسی طرح زندگی گزاریں جس طرح آپ کا خالق اور رب چاہتا ہے۔اپ کا ہر خیال درست ،ہر عمل درست اور ہر قدم صحیح راہ پر اٹھنا چاہیے۔اللہ پاک کا ایجنٹ یا نائب ہونے کی حیثیت سے ہر انسان اپنے رب سے تعلق ( equation) قائم کر سکتا ہے ۔یہی تعلق ایمان کہلاتا ہے۔اگر انسان ہر کام اللہ تعالیٰ کی جانب سے کرے تو اس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔اس کی جزا اور انعام کی توقع صرف اپنے رب سے رکھو ۔اخر میں یہ الفاظ میرے ذہن میں ڈالے گئے کہ جو شخص اپنے رب سے محبت کرے گا اسے اسی طرح انعام سے نوازا جائے گا اور جو رب کو پانا چاہے گا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا اور رب کو پانے گا۔


 

Shaheena Naeem
About the Author: Shaheena Naeem Read More Articles by Shaheena Naeem: 21 Articles with 15538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.