ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور انسانی سماج

چین میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے موئثر استعمال کی بدولت کووڈ۔19کی روک تھام میں نمایاں مدد ملی ہے۔ اس سمٹ کے دوران بھی فائیو جی نیٹ ورک پر مبنی ایسے آلات رکھے گئے ہیں جنہیں چھوئے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان کا مقصد وبائی صورتحال میں ممکنہ حد تک احتیاطی تدابیر کے حوالے سے معاونت فراہم کرنا ہے۔چین میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے مریضوں کی تشخیص اور علاج معالجے کو بہتر بنایا گیا،بگ ڈیٹا کی بدولت مرض کے کلینکل خدوخال کو سمجھا گیا ،ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال سے مختلف علاقوں میں وبائی صورتحال پر نظر رکھی گئی،روبوٹ ٹیکنالوجی نے اسپتالوں میں ادویات اور طبی سامان کی ترسیل سمیت مریضوں کی طبی دیکھ بھال میں مدد فراہم کی، ٹیلی میڈیسن سنٹرز کے قیام سے دشوارگزار علاقوں میں مشاورتی خدمات فراہم کی گئیں ، ورچوئل کانفرنسز کے ذریعے چینی طبی ماہرین نے دنیا بھر کے ماہرین کے ساتھ انسداد وبا میں چین کے کامیاب تجربات کا تبادلہ کیا۔ اس طرح چین نے صحت عامہ کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرتے ہوئے دنیا کو "ڈیجیٹل ہیلتھ سسٹم" سے روشناس کروایا۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور انسانی سماج

ٹیکنالوجی موجودہ انسانی سماج میں روزمرہ زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبہ جات میں ٹیکنالوجی سے استفادے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی پر دسترس یا فوقیت رکھنے والے ممالک کو دیگر ممالک پر کئی اعتبار سے سبقت حاصل ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے حوالے سے مذکرات کے دوران " ٹیکنالوجی ٹرانسفر" بھی بات چیت کا ایک اہم موضوع بن چکی ہے۔ امریکہ،چین سمیت یورپی ممالک ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے ہیں لیکن ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک بدستور اس شعبے میں کافی پیچھے نظر آتے ہیں۔اس کی اہم وجوہات میں "ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ" کو توجہ نہ دینا ،پالیسی سازی کا فقدان ،مالیاتی وسائل کی کمی اور دیگر بے شمار مسائل شامل ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے برعکس چین ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا چکا ہے اور وقتاً فوقتاً چین کی جانب سے ایسی کانفرنسز اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں تبادلے اور تعاون سے متعلق بات کی جاتی ہے۔

چین کے شہر فوجو میں اس وقت بھی تیسری" چائنا ڈیجیٹل سمٹ" جاری ہے۔ اس سمٹ کی خاص بات دنیا کو کووڈ۔19کی روک تھام و کنٹرول کے لیے چین کی جانب سے استعمال کی جانے والی جدید ٹیکنالوجیز سے متعارف کروانا ہے جبکہ سمٹ کے دوران دنیا یہ بھی جان پائے گی کہ چین کی اقتصادی سماجی ترقی میں ٹیکنالوجی نے کیا اہم کردار ادا کیا ہے۔سمٹ میں ہواوے ،علی بابا اور ٹینسنٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ اداروں کی شرکت سے جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز مثلاً 5G ،آرٹیفشل انٹیلی جنس ،بگ ڈیٹا اور بلاک چین وغیرہ میں تبادلوں اور تعاون کا بھی مضبوط پلیٹ فارم میسر آیا ہے۔

چین کی جانب سے اس سمٹ کا انعقاد ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دنیا کے بیشر ممالک بدستور وبا کی سنگینی کا شکار ہیں ۔دنیا نے دیکھا کہ چین میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے موئثر استعمال کی بدولت کووڈ۔19کی روک تھام میں نمایاں مدد ملی ہے۔ اس سمٹ کے دوران بھی فائیو جی نیٹ ورک پر مبنی ایسے آلات رکھے گئے ہیں جنہیں چھوئے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان کا مقصد وبائی صورتحال میں ممکنہ حد تک احتیاطی تدابیر کے حوالے سے معاونت فراہم کرنا ہے۔چین میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے مریضوں کی تشخیص اور علاج معالجے کو بہتر بنایا گیا،بگ ڈیٹا کی بدولت مرض کے کلینکل خدوخال کو سمجھا گیا ،ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال سے مختلف علاقوں میں وبائی صورتحال پر نظر رکھی گئی،روبوٹ ٹیکنالوجی نے اسپتالوں میں ادویات اور طبی سامان کی ترسیل سمیت مریضوں کی طبی دیکھ بھال میں مدد فراہم کی، ٹیلی میڈیسن سنٹرز کے قیام سے دشوارگزار علاقوں میں مشاورتی خدمات فراہم کی گئیں ، ورچوئل کانفرنسز کے ذریعے چینی طبی ماہرین نے دنیا بھر کے ماہرین کے ساتھ انسداد وبا میں چین کے کامیاب تجربات کا تبادلہ کیا۔ اس طرح چین نے صحت عامہ کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرتے ہوئے دنیا کو "ڈیجیٹل ہیلتھ سسٹم" سے روشناس کروایا۔

اس وقت عالمی سطح پر ایک جانب جہاں اقتصادی بحران کے باعث کاروباری اداروں کے مستقبل کو چیلنجز کا سامنا ہے وہاں دوسری جانب کووڈ۔19نے دنیا کو اقتصادی سماجی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی پر انحصار سے متعلق بھی سکھایا ہے۔ وبائی صورتحال میں ویڈیو اجلاس ،ورک ایٹ ہوم ،ورچوئل کانفرنس ، آن لائن تعلیم وغیرہ کے تصورات ابھر کر سامنے آئے ہیں اور انہیں عالمی سطح پر مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔

چین اس ضمن میں سرفہرست ہے جس نے نہ صرف اندرون ملک ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا ہے بلکہ دنیا کو بھی جدت سے روشناس کروایا ہے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین میں اس وقت انٹرنیٹ صارفین کی مجموی تعداد 940 ملین ہے ، دنیا بھر میں4G صارفین کے اعتبار سے چین دنیا میں سرفہرست ہے جبکہ ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زائد5Gبیس اسٹیشنز بھی تعمیر کیے جا چکے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے چینی سماج میں ٹیکنالوجی کس تیزرفتاری سے فروغ پا رہی ہے۔ چین کی ڈیجیٹل معیشت گزشتہ برس2019میں 35.8ٹریلین یوان تک جا پہنچی ہے جو امریکہ سے پانچ ٹریلین ڈالرز زائد ہے۔ چین نے ترقی کے روایتی تصورات کو جدت سے ہم آہنگ کیا ہے اور اسمارٹ مینو فیکچرنگ ،انڈسٹریل انٹرنیٹ ، ای کامرس ،اسمارٹ وئیر ہاوسنگ اور شیئرنگ اکانومی چین کی تیزرفتار اقتصادی ترقی کا انجن بن چکے ہیں۔ڈیجیٹل معیشت کی ترقی نے ملک میں روزگار کے مواقعوں کو بھی وسعت دی ہے اور گزشتہ برس2019میں اڑتالیس ملین لوگوں کو ای کامرس کے شعبے میں روزگار ملا ہے۔زراعت کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا گیا ہے اور جدید زرعی اصولوں کی بدولت آج چین خوراک میں خود کفیل ہو چکا ہے۔

چین کی کوشش ہے کہ ڈیجیٹل ترقی کے سفر میں اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص ترقی پزیر ممالک کو بھی شامل کیا جائے ، دنیا ڈیجیٹل بیلٹ اینڈ روڈ کے تصور سے بھی بخوبی آگاہ ہے جس کا ایک مقصد پاکستان سمیت بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ دیگر ممالک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں تبادلے اور تعاون کی مضبوطی ہے۔ایک بڑے ذمہ دار ملک کے طور پر چین چاہتا ہے کہ ڈیجیٹل ترقی کے ثمرات صرف مغربی ترقی یافتہ ممالک تک ہی محدود ہو کرنہ رہ جائیں بلکہ دنیا کے ہر فرد کی ٹیکنالوجی تک رسائی چین کا مشن ہے اور " چائنا ڈیجیٹل سمٹ" جیسا پلیٹ فارم اس ہدف کی تکمیل میں انتہائی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616117 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More