پےسلیش، پرپال سے کمائی، پسِ پردہ حقائق

انٹرنیٹ سے کمائی کے نئے دھندے

تحریر: شیدامحمدی۔
کامیابی کی ڈیفینیشن تو ایک سے بڑھ کر ہوسکتی ہے، مگر عام طور مال ودولت حاصل کرنا، مالک بننا کامیابی کے زمرے میں آتی ہیں،
یعنی The have nots سے The haves بننے کا سفر کامیابی ہے۔
اگر چہ کامیابی کی یہ تعریف دنیاوی، مال ومتاع اور مادیت کے بنیاد پہ ہے،

تاہم کچھ اصولوں اور اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ قانون کے تحت انسان نیست سے ہستی تک کا سفر کرتا ہے۔
اور ہستی تک پہنچنے کے لئے کوئی درمیانی راستہ، شارکٹ راستہ نہیں، یہ قانون قدرت ہے۔ یہ اٹل ہے۔

ہاں اگر آپ بنیادی قاعدے اور ضوابط پہ یقین نہیں رکھتے، یعنی حلال اور حرام کے تمیز سے ناواقف ہیں، تو دولت مند بننا شائد مشکل نہیں۔

آپ ہیروئن، آئس، افیون کو لوکلی بھی سمگل کرکے دنوں میں امیر بن سکتے ہیں،
مگر ممنوع اور حرام ہونے کیوجہ سے کوئی بھی آج تک ان شارٹ کٹس سے دیرپا امیری کا لطف نہ اٹھا سکا، بالکہ ذلت ورسوائی ایسے لوگوں کی مقدر بنی ہے۔

ہمارے اندر مادہ پرستی کا بڑھتا رجحان ہمیں حلال حرام کی تمیز سے ناآشنا کرتی جارہی ہے، ھم آسان اور پُر آسائش زندگی کے امنگ لئے اُس دَلدل میں دھیرے دھیرے جاگررہے ہیں، جہاں وقتی سکون کے چکر میں ہم اپنا آخرت برباد کررہے ہیں۔
آج زیرِ بحث ہے، Payslash/ PrPal-
ان پروگرامز سے آپ واقف ضرور ہوئے ہونگے،
دھڑا دھڑ یہاں لوگ اپنا پیسہ invest کررہے ہیں۔
ہم اس کا جائزہ لینگے۔

کسی بھی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (CA) جو بڑے سے بڑے سے بزنس کی چھان بین کرتاہے اور سمجھتا ہے، ان سے پوچھیں تو کسی بزنس میں equity پہ زیادہ سے زیادہ ریٹرن کیا مل سکتا ہے؟
تو جواب آئےگا per annum 15 percent, یعنی سال میں پندرہ پرسنٹ۔
آج میں اور آپ جہاں انوسٹ کررہے ہیں، وہاں ہمیں ہفتہ کے حساب سے پانچ پرسنٹ منافع، مہینے کا 30 پرسنٹ اور سال کا؟
آپ خود اندازہ لگائیں، یہ صرف آپ کا منافع ہے، اس میں کمپنی بھی کمارہی ہے۔
یہ بزنس کسی بھی اکاونٹس اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے سمجھ سے باہر ہے۔

ایسے بزنسز میں جو ہیومن نیٹ ورک کے زریعے پیسہ انوسٹ کیا جاتاہے، ایک طرح کا Pyramid بنتاہے،
جو کہ اصل میں Ponzi scheme کے بنیاد پہ کام کرتی ہیں۔
اس فراڈ Scheme کا آغاز 1800 کے اوائل میں پونزی نامی شخص نے کیا تھا، جو کہ ابتدائی ناکامیوں کے بعد کسی حد تک پیسہ لوٹنے میں کامیاب رہا۔

یہ فراڈ scheme مختلف اشکال میں دنیا کے ترقی پزیر ممالک میں زیادہ دیکھا جاسکتا ہے۔

گوجرانولہ کے صالح بدری المعروف ڈبل شاہ جو ایک ان پڑھ تھا، اس فراڈ scheme کو اکیلے چارسال تک چلاتا رہا۔
جو بعد میں پکڑا گیا، اور جیل ہی میں ان کا انتقال ہوا۔

آج وہی ڈبل شاہ آئڈیا Team work اور جدید اصطلاحات کے زریعے تعلیم یافتہ نوجوان، آئی ٹی کے ماہرین کے زریعے کبھی PrPal تو کبھی Payslash کے زریعے اُسی ڈبل شاہ کے بنائے اصولوں پر لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کے منافع کو بار بار انوسٹ کرنے کے لئے راغب کیا جاتا ہے۔

ان کے طریقہ واردات میں AdPower یعنی اشتہارات پہ کلک کرنے کے مد میں پیسہ بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، جو کہ غیر منطقی ہے۔
اشتہارات کے زریعے اس گھناونے دھندے کو Centralized کرکے پیسے Clicks سے مشروط کرتے ہیں۔
ایک طرح سے تلقین کے طور پہ آپ کلک کریں گے، تو پیسے آئینگے۔
اور بس یہ حلال ہے۔
نہیں کریں گے۔ تو نہیں کمائیں گے۔

پاکستان میں Click کی Value باہر ممالک کے نسبتاً بہت ہی کم ہے۔ یعنی ایک کلک پہ ایک پیسہ بھی نہیں، 100 روپے کے لیے دو درجن سے زیادہ کلس کرنے پڑھتے ہیں۔
ہمارے نسبت انڈیا میں کلک ویلیو زیادہ ہے، مغربی ممالک کی ٹریفک، اور کلک کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔

یہاں پرپال اور پے سلیش ایڈز کے مد میں منافع Claim کرتی ہے، جو کہ جھوٹ ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی Advertising company Google کو دنیا کے مختلف ممالک اشتہارات دیتی ہے۔
گوگل ان اشتہارات کو لوگوں کے Interest کے بنیاد پہ وہ پبلش کرتی ہیں۔
کمپنی کو اشتہار کے مد میں کلائنٹس، کسٹمر ملتے ہیں۔ کیونکہ ان کی تشہیر ہوجاتی ہے۔

مثال۔ جرمن کمپنی Adidas سپورٹس شرٹس، بوٹس اور کیجول چپل وغیرہ بناتی ہیں۔
وہ گوگل کو اشتہارات چلانے کے لئے پیسے دیتی ہیں۔

گوگل آرٹیفشل انٹلیجنس کے زریعے لوگوں کی ترجیح کے مطابق وہ اشتہار متعلقہ خلقے میں چلاتی ہیں۔

جب آپ یوٹیوب پہ Top tenوکٹس دیکھتے ہیں، تو گوگل ایڈسنس کے زریعے آپ سپورٹس کے جوتے، شرٹس اور دوسرے ریلیٹڈ چیزیں آپ کو اشتہار دیکھنے پہ مجبور کرتی ہیں۔
اس طرح آپ کلک کرتے ہیں، آپ آن لائن شاپ کرتے ہیں۔

اور اس طرح کمپنی کو بزنس ملتا ہے۔

اب آپ بتائیں کہ وہ کونسا بے وقوف شخص ہوگا، جو لوگوں اس بات پہ پیسہ دیگی، کہ آپ میرے کمپنی کے اشتہارات پہ کلکس کریں، بے شک غور سے دیکھیں بھی نہ۔ میں پیسے دونگا۔
ایسے میں اس کمپنی کو بزنس کیسے ملے گا؟
کیا یہ دھوکہ نہیں؟
کہ کمپنی اپنے بزنس کے لیے پیسہ لگائے،
اور advertising company ان اشتہارات کو ایسے لوگوں سے کلک کروائیں۔ جہاں ان کا مقصد کلک سے کچھ اور ہو، کمپنی کا کچھ اور۔
یہ conflict of interest ہے۔ جو کہ دھوکہ ہے۔

سوال ہے کہ اتنا پیسہ کیسے ممکن ہے، کہ وہ حقیقی طور پہ لوگوں کو دے رہی ہے۔
لالچ کا عنصر ہمیں پیسہ انوسٹ کرنے پہ مجبور کرتاہے،
مزید منافع کے چکر میں ہم فوری طور اپنے عزیز واقارب کو دعوت دیتے ہیں، پیسے ملتے ہیں، انھیں اکثر دوبارہ انوسٹ کرتے ہیں، دولت کی بڑی ڈھیر جمع ہوتی ہے۔

فراڈیئے کے پاس جمع ہونے والا پیسہ انوسٹرز میں باٹنے والے پیسے سے کم ہوتی ہے۔
جب کسی سٹیج پہ انوسٹ ہونے والا رقم باٹنے والے رقم سے کم ہوجاتی ہے۔
تو ایک چال چلاتے ہیں، website maintenance کے چکر میں کچھ دنوں کے لئے وقفہ کرتے ہیں۔
اسی دوران جب مزید پیسہ انوسٹ ہوتا ہے، تو کام جاری کرتے ہیں، تو جب انوسٹمنٹ مل مکمل روک جاتی ہے۔ تو یہ سائٹ کو بند کرکے بھاگ جاتے ہیں۔
پھر وہی گروہ دوبارہ مارکیٹ میں نئے نام سے آتی ہے۔
اور اسی طرح یہ دھندہ چلتا رہتا ہے۔

ایسے پروگرامز میں اگر کوئی مطمئن ہے، کہ مجھے تو گاڑی ملی۔ بنگلہ بھی۔

تو انھیں ان متاثرین کو دیکھنا چاہئے، جو سب سے آخر میں آج انوسٹ کرتے ہیں، اور انھیں اپنے پیسے بھی نہیں ملتے۔
ان متاثرین کے مجرم وہ سب ہیں، جنہوں نے پیسہ کمایا، پروگرام کا حصہ بنیں۔

یہ white color criminals لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیئے ہر ہربہ استعمال کرتے ہیں، ان میں بڑے بڑے مدارس کے فتوے شاملِ ہیں، کہ یہ حلال ہے۔
جو سب فیک فتوے ہوتے ہیں۔
پے سلیش کے حوالے سے فتویٰ جامعہ عثمانیہ کی طرف سے بے بنیاد اور فیک ثابت ہوا۔ انتظامیہ نے رد کیا۔
لہذا اپنے حلال رزق کو آلودہ کرنا، روپےکی خاطر دوسرے کو نقصان پہنچانا، سب شارکٹس نقصان دہ ہیں۔
ان سے دور رہیں۔
شکریہ
 

Shaida Muhammad
About the Author: Shaida Muhammad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.