سید سیدن علیشاہ البھاکری/راقم کا آزادی کی تحریک میں کردار

 سید سیدن علیشاہ البھاکری/راقم کا آزادی کی تحریک میں کردار
تاریخ مظفرآباد/ازحاجی سیدغلام حسین شاہ

میں نے اور میرے خاندان نے بر صغیر کے جو حالات و واقعات دیکھے اور جن سے ہم عملی طور پر گزرے وہ سارے حالات و واقعات میری نظر میں اب تک کسی مصنف نے صحیح سمت میں قلمبند نہیں کیے اور نہ ہی تمام واقعات میں دانائی و احساسات کو مد نظر رکھا، جیسا کہ پنڈت غلام احمد صاحب نے کتاب لکھی، مگر اس میں حقائق کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ غلام حسین شاہ کاظمی (ٹھنگر والے) نے ایک کتاب انقلاب کشمیر کے حوالے سے لکھی ہے، اس میں بھی کچھ واقعات موجود ہیں، مگر مربوط و مضبوط طریقے سے منضبط نہیں کیے گئے، میں ان شاء اﷲ اس کتاب میں آپ کو پورے حالات و واقعات سے آگاہ کروں گا لیکن اس سے پہلے میں اپنے بارے میں ضروری معلومات دینا چاہوں گا؛

میرا نام سید غلام حسین شاہ ہے اور میں 1933؁ء میں پاجگراں میں پیدا ہوا۔

مظفرآباد کا پرانا نام چکڑی بہک تھا، جس کو بعد میں مظفر خان نے آباد کیا اور اس بنا پر اس کا نام مظفرآباد رکھا گیا۔ مظفر خان جب ہری پور سے یہاں آئے تو ہمارے بزرگوں کو ساتھ لے کر آئے تھے، ہمارا خاندان مظفرآباد میں تقریباََ 600 سال سے آباد ہے، یہ بزرگان دو بھائی تھے جن میں سے ایک ہمارے دادا سید مردان علی شاہ اور دوسرے حاجی محمد شاہ تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے پیدل حج کی سعادت حاصل کی۔ حسین خان جو موجودہ گڑھی کے خان محمد اسلم خان کے مختار کے دادا تھے۔ انہوں نے سید مردان علی شاہ کی خدمت کی تھی۔ خان محمد اسلم خان کے مختارکے والد کا نام اکرم خان تھا اور ان کے باپ کا نام حسین خان تھا، ادھر انہوں نے ان کی خدمات سر انجام دیں اور ادھر انہوں نے ان کو عزت و احترام کے ساتھ رکھا، وہاں کشٹلا کا ایک علاقہ تھا جو سارے کا سارا خدمت کے طور پر انہوں نے سید مردان علی شاہ صاحب کو دیا ہے۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ مردان علی شاہ (م) نے اس خاندان کو گڑھی حبیب اﷲ کے خاندان کو حسین خان حبیب اﷲ خان مرحوم کے نام سے جو منسوب کیا، اس کو بر صغیر میں بڑے اعلیٰ مقام پر پہنچایا، لیکن آخر میں انہوں نے خدمت کے طور پر کشٹلے کی جو جائیداد دی ہوئی تھی وہ رفتہ رفتہ بعد میں آنے والے لوگوں، اکرم خان، اسلم خان اور اسلم خان کے صاحبزادے نسیم خان نے ہم سے لے لی اور ہمیں اس جائیداد سے محروم کر دیا، (مردان علی شاہ صاحب کے بیان کردہ واقعات اور کتاب کے مطابق) جس کو آپ نے چکڑی بہک کا نام دیا ہے، یہ پہلے زمانے میں یاغستان کے نام سے موسوم تھا، یاغستان کو ضلع پہاڑ بھی کہتے تھے، میر محمد علی صاحب جو تحصیلدار گزرے ہیں، انہوں نے یہ تحریر لکھی ہے۔ انہوں نے سید مردان علی شاہ صاحب کا تذکرہ کیا ہے اور سب سے پہلے اس کتاب کو ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ سے شروع کیا ہے۔ مردان علی شاہ اور ان کے بھتیجے سید سیدن علی شاہ جو میرے والد گرامی تھے ان دونوں کا اس کتاب میں تذکرہ موجود ہے۔ قاضی امیر شاہ صاحب جو میرے نانا ہیں، ہمدانی خاندان کے بڑے چشم و چراغ تھے، کہوڑی کے مقام پر وہ رہتے تھے، ان کا بھی اس کتاب میں تذکرہ ہے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے ایسی بات نہیں ہے کہ ہم کوئی گئے گزرے لوگ ہیں، ہمارا خاندان میں ایک بڑا مقام ہے اور یہی نہیں بلکہ ہمارا تو یہ مقام ہے کہ سید سبیل شہید اور سید شاہ شہید کی تاریخ کے ہم پاسبان رہے ہیں۔

1870؁ء سے 1880؁ء تک یہ جو اویس کمشنر بندوبست ہزارہ رہا ہے اس نے ایک کتاب لکھی، جس میں سید مردان علی شاہ کا تذکرہ موجود ہے اور یہ کتاب چھپنے کے بعد لوگوں میں بہت مقبول ہوئی، اس کے نسخے آج بھی موجود ہوں گے، ہمارے پاس بھی موجود تھی مگر 2005؁ء کے زلزلے میں کہیں گم ہو گئی ہے جس کا مجھے بڑا صدمہ ہے۔ ہم نے اس کتاب کی تلاش لاہور سے راولپنڈی تک کی لیکن وہ نہیں ملی۔

میرے والد محترم سید سیدن علی شاہ صاحب کے بارے میں ایک واقعہ ہے کہ (1931؁ء میں مسلم کانفرنس آگنائز ہونے سے پہلے) جموں جیل میں ایک ڈوگرہ حکمران تھا جس سے توہین قرآن کی جسارت ہوئی، ہوا یوں کہ ایک قیدی قرآن مجید کا مطالعہ کر رہا تھا، ڈوگرہ نے اس پر اس قیدی سے بہت بد تمیزی کی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی توہین کی۔ اس معاملے پر مسلمانوں میں ایک تحریک پیدا ہوئی جو بعد ازاں جموں سے سری نگر منتقل ہوئی، سینٹرل جیل سری نگر میں اس واقعہ کی تحقیقات اور انکوائری شروع ہوئی۔ وہاں عبدالقدیر نامی ایک شخص سیاحوں کے ساتھ آیا تھا جس کی تقریر بڑی جوشیلی تھی جس کے نتیجے میں مسلمانان کشمیر کے دلوں میں آزادی کی تڑپ میں اضافہ ہوا، حالات اس رخ پر چلے کہ ڈوگرہ نے گولی چلا دی اور 22 کشمیری شہید ہو گئے۔ ان کشمیریوں کی شہادت کی وجہ سے کشمیر میں آزادی کی تڑپ کی ایک نئی لہر نے جنم لیا۔ راجہ عبدالحمید خان اور راجہ محمد حیدر خان مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے اس تحریک میں سامنے آئے۔ راجاؤں میں سے اکثر تو مہاراجا کے بینیفشری تھے سوائے فتح محمد کریلوی جو کوٹلی کے رہنے والے تھے اور سابق وزیراعظم آزد کشمیر سردار سکندر کے والد گرامی تھے، ان کے خاندان کی بڑی خدمات ہیں۔ باقی رہ گئے یہاں کے جاگیردار اور سرمایہ دار، تو یہ لوگ مہاراجہ ہری سنگھ سے پہلے گلاب سنگھ کی ریاست کے پاسبان تھے کہ اس ریاست کو مستحکم رکھا جائے، اس میں کسی قسم کا انتشار نہ ہو اور کوئی آزادی کی تحریک نہ چلے۔ یہ اﷲ کا فضل و کرم ہے کہ مظفرآباد کے 11 افراد جن میں میرے والد گرامی سید سیدن علی شاہ، پیر حسام الدین شاہ، بہادر خان آف راڑہ، پیر قلندر شاہ صاحب سمیت دیگر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مظفرآباد کے مکینوں کو آزادی کے لفظ سے روشناس کرایا۔ اور اسی سلسلے میں 1944؁ء میں قائداعظم محمد علی جناح بھی مظفرآباد میں تشریف لائے، قائداعظم کی آمد پر ان کو ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ یہ سپاسنامہ چوہدری ولی جو کے بیٹے چوہدری شمس دین نے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے پیش کیا تھا۔ اس وقت نیشنل کانفرنس تھی۔ سپاسنامہ خواجہ عبدالقادر صاحب نے لکھا جن کا تعلق نیشنل کانفرنس سے تھا۔ دراصل ہمارے والد گرامی انہیں اپنے ذاتی تعلق کی بنیاد پر اپنی جامعہ میں لے آئے اور ان سے سپاسنامہ لکھوایا۔

میری پیدائش کے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے مہاراجہ نے یہاں کشن گنگا پل پر طرح طرح کے ٹیس لگائے ہوئے تھے وہ پل غالباََ 1986؁ء کے سیلاب میں بہہ گیا، کوئی آدمی اس پر سے اگر سفر کرتا تھا تو اس پر بھی مہاراجہ نے ایک چنگی عائد کی ہوئی تھی اور پل پر ایک ہندو تعینات تھا جو لوگوں پر مختلف نوعیت کے ظلم کرتا تھا، اس غلاظت سے بھی ہمارے خاندان کی بدولت لوگوں نے نجات حاصل کی۔ اس چنگی کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور تمام ٹیکس ختم کر دیے گئے، نہ صرف اتنا بلکہ میرے والد گرامی نے لوگوں کو جنگل کے حقوق بھی حاصل کر کے دیے۔

بہت پرانی بات ہے، خوشی محمد صاحب جب گورنر کشمیر تھے، انہوں نے ایک چٹھی لکھی جو میرے پاس آج بھی موجود ہے، جس میں وہ میرے والد گرامی مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’آپ اس صدی کے حاتم طائی ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ یہ خوانین کہوڑی آپس میں اکثر لڑائی جھگڑے کیا کرتے تھے، میرے والد صاحب نے ان کی صلح کروا دی جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ان خدمات پر انہوں نے خط لکھا۔ اس کے علاوہ اس وقت کے وزیراعظم غلام محمد آہن گر نے ایک چٹھی لکھی جو فارسی میں تھی۔ جب 1947؁ء کی جنگ شروع ہوئی، اس وقت قبائلی مجاہدین کو گائیڈ کرنے والے میرے والد تھے۔ قبائلیوں کے آمد کے وقت ڈوگروں نے نیلم (وٹاسٹا) پل پر لوہے کے گیٹ لگا رکھے تھے۔ ان کو علم تھا کہ سرحد کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد میرے والد گرامی نے چہلہ کے چند آدمیوں کو ساتھ ملایا، منشی سیف علی، علی زمان اور ڈی ایس پی اور اسی طرح اور چند لوگوں کو ملا کر بانڈی میر صمدانی کے مقام سے آگے ایک جگہ ہے جس کو اس وقت ’’کدل‘‘ کہتے تھے، وہاں میرے والد گرامی کی سرکردگی میں مجاہدین کا ایک قافلہ شہر میں داخل ہوا اور شہر میں نیلم پل میں جنوب کی جانب ایک جگہ ’’گف‘‘ کے مقام پر ان کے مستحکم مورچے تھے جن کو مجاہدین نے فتح کیا، تہس نہس کیا۔ اس مورچے کو فتح کرنے کے بعد نیلم پل کے گیٹ کو توڑ کر مجاہدین کا نیلم پل کے اوپر سے گزر ہوا۔ یہاں اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے، جہاں اس وقت مختلف علاقوں سے لوگ آئے، اسی طرح خان آف الائی کے لوگ آئے، یہ بہت بڑا جمگھٹا تھام ان کو بھی میرے والد گرامی نے لیڈ کیا اور ان کی بہتر انداز میں راہنمائی کی، اس وقت برارکوٹ کے مقام پر مہاراجہ کی فوج میں ایک کیپٹن علی محمد (جو اس وقت انڈین آرمی کا حوالدار تھا) نے اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور آسانی سے مجاہدین برارکوٹ کی چوکی عبور کر کے مظفرآباد میں داخل ہوئے۔ دومیل میں اس وقت قدرت اﷲ نامی ایک حوالدار تھے، ان سے کچھ مزاحمت کے بعد قافلہ آگے کو چلا۔ میرے والد گرامی، اکبر شاہ صاحب، پیر قلندر شاہ، بہادر خان آف راڑہ نے ان مجاہدین کی قیادت کی اور یہ لوگ پانڈو پہنچے۔ ہمارے نزدیکی گاؤں بانڈی سماں کے رہنے والے پاپوش بیکرز والے یاسین صاحب تھے، وہ اس وقت شہید ہوئے، آج بھی بانڈی سماں میں ان کا مزار موجود ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ آنے والی حکومتوں نے شہدائے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ ان کے خاندانوں اور لواحقین کو اس طرح نوازا نہیں گیا جیسے پاکستان میں نوازا جاتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا آج بھی اس یاسین نامی شہید کے لواحقین کی پرورش کی ذمہ داری حکومت اپنے ذمے لے اور ان کی اشک شوئی کرے۔ یہی مجاہدین ہمارے ساتھ پانڈو تک گئے اور اس مقام پر یاسین کی شہادت ہوئی۔
جب جنگ آزادی شروع ہوئی تو بیسیوں اقوام کے لوگ اس تحریک میں شامل تھے، ان کو کنٹرول کرنا کافی مشکل کام تھا۔ میجر خورشید انور جو اس وقت انڈین نیشنل آرمی کے ریٹائرڈ میجر تھے، انہوں نے ہماری بہت مدد کی اور ڈوگروں کی اہم پوسٹوں کے بارے میں ہمیں بتایا۔ یہ 22 اکتوبر 1947؁ء کا واقعہ ہے جب رستم خان، خان آف ہل، فرید خان آف الائی اور اسی طرح وادی سوات کی افواج بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ وزیرستان کے قبائل کی حاضری ہوئی۔ صوبیدار مندو خیل جو پاکستان کی اسمبلی میں ممبر رہا، وہ بھی ہمارے ساتھ تھا، لیکن شومیٔ قسمت اس جہاد کو اس وقت زد پہنچی جب کہ ہمارے درمیان اتنی بڑی یلغار میں ففتھ کالمسٹ ہمارے مجاہدین شامل تھے اور ان مجاہدین نے یہ نعرہ لگایا ’’او بابا خدا دا غورہ جز راغلیا‘‘۔ ہم اس وقت جوان تھے اور مجاہدین کی تعداد کو دیکھ کر ہم اپنی بساط کے مطابق جو راشن فراہم کر سکتے تھے ہم نے کیا۔ ٹوکروں میں روٹیاں، سبزی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء گاؤں سے اکٹھی کر کے ان کو فراہم کی جاتی تھیں۔

اصل میں دین کی خدمت ہمیشہ غریب و مسکین لوگ کرتے ہیں۔ تحریک میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ہمارے والد، بزرگ پیر حسام الدین، بہادر خان آف راڑہ، پیر قلندر شاہ اور محمد خان آف گڑھی دوپٹہ جو عباسی خاندان کا چشم و چراغ تھا، اور خصوصاََ مولوی غلام مصطفیٰ مسعودی آف نیلم ویلی، اس کے علاوہ لوات کے لوگ بڑے عالم و فاضل لوگ تھے جنہوں نے یہاں کے لوگوں کو زبان دی۔ ان میں لوات کے رہنے والے ایک خاندان کا ایک شخص جو وکیل ہے، اس سے آج کل بھی میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔

یہاں سید شاہ شہید اور سید اسماعیل شہید نے تحریک آزادی کا جو پودا لگایا تھا، پھل پھول کر خوب بڑھا، اس کے ثمرات کے نتیجے میں 1931؁ء میں مسلم کانفرنس کا اجتماع ہوا، جس میں نومولود مسلم کانفرنس نے بہت اہم کردار ادا کیا جس سے جنگ آزادی کے لیے فضا ہموار ہوئی۔ پانڈو کے محاذ پر 1947؁ء کی جنگ کے دوران میرے والد گرامی سید سیدن علی شاہ صاحب، سید علی اکبر شاہ صاحب، بہادر خان آف راڑہ نے جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ گو اس وقت اسلحہ اتنا وافر نہیں تھا جس قدر آج ہمارے پاس ہے مگر پھر بھی کلہاڑی، تیر، بھالا اور ایسی چیزیں تھیں جن سے مسلمانوں نے بہترین کام لیا۔ مجاہدین کو راشن، پیسہ اور اسلحہ جو اس وقت دستیاب تھا، پہنچانے کے لیے ہمارے بزرگوں کے ساتھ درجنوں نہیں، بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ پانڈو کے محاذ پر گئے، ان لوگوں کے ساتھ چھم سے آگے جانے کا موقع مجھے بھی ملا۔ بانڈی سماں میں پاپوش بیکری ہے اس کا مالک یاسین نامی شخص بھی اسی کوشش میں اﷲ کی راہ میں جام شہادت نوش کر گیا تھا۔ میری حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر سے گزارش ہے کہ جنگ آزادی میں جام شہادت نوش کرنے والے ان گمنام سپاہیوں کو یاد رکھا جائے اور ان کے پسماندگان کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں۔ جنگ آزادی کے بعد نہرو دوڑا دوڑا ایوان میں پہنچا اور اس نے ایک شور برپا کر دیا کہ مجاہدین نے آزاد کشمیر میں حملہ کر دیا ہے، اس کو روکا جائے۔ 27 اکتوبر 1947؁ء کو سری نگر تک ہمارے مجاہدین پہنچ گئے تھے۔ اس دباؤ کی وجہ سے نہرو کو ہری سنگھ کے ساتھ یہ طے کرنا پڑا کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دی جائے گی۔ اس کے مقابلے میں سردار ابراہیم خان جو پہلے ہی سری نگر ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ جنرل یا اسی طرح کے کسی منصب پر فائز تھے، وہ بھی ادھر بھیجے سے گئے۔ سلامتی کونسل میں نہرو کے مقابلے میں سیز فائر ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے مبصرین میں اس کا چرچا ہوا۔ دونوں لیڈروں اور حکومتوں نے اس بات کو قبول کیا کہ مبصرین کو بھیجا جائے اور استصواب کی راہ ہموار کی جائے۔ مظفرآباد شہر میں اس وقت ہندو کافی تعداد میں آباد تھے اور ان کے مورچے بہت اعلیٰ تھے۔ قبل ازیں بھی اس بات کا تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ میرے والد گرامی ان مورچوں کو مسمار کرنے کے لیے چہلہ بانڈی کے دو نوجوانوں اور کچھ دیگر لوگوں کو ساتھ لے کر کدل عبور کر کے گف پہنچے اور گف کے مضبوط مورچے کو مسمار کیا تا کہ مجاہدین کا راستہ نیلم پل سے قابل گزر ہو جائے۔ نیلم پل پر لوہے کے بھاری گیٹ لگے ہوئے تھے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے جو ظالمانہ ٹیکس تھے، اس کے دستاویزی ثبوت میرے پاس موجود ہیں، اس وقت کے ظالمانہ ٹیکسوں کو معاف کروا کر میرے بزرگان نے ان سے لوگوں کی جان چھڑائی اور ان کی زندگی آسان کرائی۔ میرے والد گرامی بہت متحرک آدمی تھے۔ انہوں نے اﷲ کے فضل و کرم سے عوام کے لیے بہت کام کیا۔ آزاد کشمیر کے عوام نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف 1931؁ء سے ہی تحریک آزادی شروع کر دی تھی۔ یہاں جنگل کا قانون تھا۔ جنگل الف کہلاتا تھا۔ اس جنگل کی ایک بیرونی لائن لوگوں کے استعمال کے لیے مقرر کرائی تا کہ لوگوں کو اپنے مکان بنانے یا دیگر کاموں کے لکڑی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ یہاں ایک عجیب و غریب قسم کا ایک ٹیکس لگا ہوا تھا جس کو ختم کرایا۔ قصہ اس ٹیکس کا یہ ہے کہ پل کشن گنگا پر سے جو آدمی انڈا، گھی، لکڑیوں کا گٹھا یا مرغی لے کر پار جاتے تھے، انہیں ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ یہ ظالمانہ ٹیکس بھی میرے خاندان کے بزرگوں کے ہری سنگھ کے خلاف جد و جہد کر کے ختم کرایا۔ الحمد ﷲ، ہمارے بزرگوں کو اﷲ نے عوام کی خدمت کے لیے مختص کیا تھا۔ جن لوگوں کے لیے یہ آسانیاں بہم پہنچائی گئیں، وہ لوگ اس وقت نمایاں نہیں تھے۔ ایک دوسرا طبقہ تھا جو مہاراجہ کا بینیفشری تھا۔ مہاراجا نے اس طبقے کو ایک اعلیٰ درجہ دے رکھا تھا۔ ڈوگرے نے ان کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ اسی طرح سلطان صاحب گڑھی دوپٹہ، سلطان فیروز الدین خان صاحب کو بڑی طاقت دے رکھی تھی۔ ایک ظفر عمر صاحب تھے جو 1947؁ء کے بعد آرمی میں چلے گئے اور کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ ان کی ابتدائی تاریخ تھی، البتہ 1947؁ء کے بعد جو ان کی خدمات ہیں ان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان صاحب کے والد گرامی راجہ حیدر خان اس وقت اے سی ایف کی ٹریننگ حاصل کر کے دہرہ دون (ہندوستان) سے آئے۔ یہاں انہوں نے ٹاہلی منڈی (مظفرآباد) میں رینج ہیڈ کوارٹر ٹریننگ حاصل کی۔ دوران ٹریننگ میرے والد گرامی کا ان کے ہاں ہمیشہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے والد گرامی کے پاس ایک بہت اچھی نسل کی گھوڑی تھی جو بعد میں بریگیڈیر نوشیروان نے لے لی جسے وہ ٹیٹوال، گریس، کیل تک لے گئے تھے۔ بریگیڈیر نوشیروان بڑے نڈر، بلکہ قرن اول کے مجاہد کمانڈروں جیسی صفات کے حامل تھے۔ راجہ حیدر خان پہلے فاریسٹ کالج سے اعزازی طور پر فارغ ہو کر آئے تھے۔ آج کل جو ڈی ایف او کا عہدہ ہے یہ لوگ اس وقت اے سی ایف کہلاتے تھے۔ اسی اے سی ایف کی ٹریننگ انہوں نے رینج ہیڈ کوارٹر میں حاصل کی تھی۔ ان کا پاجگراں آنا جانا رہتا تھا اور وہ بھی ہماری گھوڑی پر سواری کرتے تھے۔ 1947؁ء کے بعد بریگیڈیر نوشیروان کو گھوڑی کی بہت ضرورت پڑی۔ اسے کسی دوسرے اہلکار کی زبانی معلوم ہوا کہ ان کے پاس گھوڑی ہے۔ اس گھوڑی کو لے کر نوشیروان ٹیٹوال تک گیا۔ ٹیٹوال میں اس وقت سیز فائر کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ وہاں نورین عارف کے تایا داد اﷲ تحصیلدار کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ بانڈی سماں کے رہنے والے سید احمد علی شاہ صاحب اس گھوڑی کو ساتھ لے کر گئے اور بریگیڈیر نوشیروان کے حوالے کرتے ہوئے اس کی ٹیٹوال تک رہنمائی اور قیادت کی۔ اگر پولیس کے طور پر کردار کی بات کی جائے تو سید احمد شاہ صاحب جو چکوال (پنجاب) کے رہنے والے تھے، بہت اچھے کردار کے مالک تھے، ان کے بھائی تصدق حسین شاہ صاحب جو وکالت کرتے تھے اور ایک اچھے وکیل اور نمایاں کردار کے حامل تھے۔ سید احمد شاہ کو ایس پی کے عہدے سے نوازا گیا تھا۔ اس وقت سید احمد شاہ صاحب نے میرے چچا زاد بھائی صاحب سید فرمان علی شاہ کو سب انسپکٹر بھرتی کیا۔ یہ فرمان علی شاہ صاحب پہلے ہی انڈین آرمی سے ریٹائر ہو کر آئے تھے۔ بہت پڑھے لکھے تھے، اس لیے انہیں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ ان دنوں حالات ایسے تھے کہ تجربہ کار اور قابل لوگوں کی خدمات لی جاتی تھیں۔ سیز فائر طے ہو جانے کے بعد دونوں اطراف سے فوجیں اتاری جانے لگیں۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کی آرمی کا سربراہ جنرل گریسی ایک برٹش آفیسر تھا۔ وہ فوج کا کمانڈر ان چیف تو تھا ہی، اس کی خواہش تھی کہ ہندوستان کی طرز پر پاکستان بھی اسے گورنر جنرل تسلیم کر لے۔ مگر پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔ پاکستان کے قائدین محمد علی جناح اور لیاقت علی خان بہت اچھے لوگ تھے۔ سیز فائر کے بعد اشد ضرورت تھی کہ آزاد کشمیر کا دارالحکومت ایسے علاقے میں قائم کیا جائے جہاں رسل و رسائل کی سہولیات ہوں۔ لوگوں تک پہنچے میں آسانی ہو۔ جنجال ہل چوٹی بہت دور تھی۔ دوسرا وہ اس وقت ایک الگ ریاست کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہاں کا نواب (راجا) الگ تھا۔ دوسرے وہاں سے سری نگر تک پہنچا بڑا محال تھا۔ عسکری ضرورت کے تحت فوجی افسران نے بھی اسے منتخب نہ کیا۔ اس سلسلے میں سردار عبدالقیوم خان، سردار ابراہیم صاحب، امین گیلانی کا اہم کردار ہے۔ اس کردار میں میرے والد گرامی برابر کے شریک رہے۔ پیر حسام الدین صاحب کی بھی بہت خدمات ہیں۔ بہت سارے لوگوں سے مشاورت کے بعد فوج نے یہاں کیپیٹل قائم کیا۔ دفعہ 370 کا خاتمہ مودی کی گھناؤنی سازش ہے۔ ہم اس کو نہیں مانتے۔ یہاں ہمارا دارالحکومت مظفرآباد موجود ہے۔ یہاں کی انتظامیہ ہے۔ مقامی لوگ ہیں جو ہمارے اپنے ہیں۔ ہم سب آج انڈیا کی فوج اور نریندر مودی کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ بدقسمتی یہاں سے شروع ہوئی کہ نریندر مودی مشرقی ہندوستان کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ اس میں ایک خاص قسم کا کیڑا ہے جو کانگریس کے خلاف ہے۔ یہ آر ایس ایس کا بانی ممبر ہے جو ایک ہندو انتہا پسند جماعت ہے۔ نہرو اور گاندھی کے خاندانوں کے خلاف ایک سازش کی گئی کہ یہ لوگ علیحدہ ہوں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گاندھی کو بھی اسی نے قتل کرایا تھا کیوں کہ گاندھی اتنا ظلم نہیں چاہتا تھا جو مودی نے روا رکھا ہوا ہے۔ گاندھی اگر آج زندہ ہوتا تو سری نگر کا منظر مختلف ہوتا۔ وہ لوگ آزادی کے بہت قریب ہوتے۔ یہاں جو ڈی سی ہوتا تھا وہ وزیر وزارت کہلاتا تھا۔ عدلیہ اس وقت آزاد تھی۔ یہاں کجی انتظامیہ کی اپنی افواج، پیرا ملٹری فورسز تھیں اور یہاں کے جاگیردار پاسبان تھے۔ لیکن ان کی کوئی بھی جد و جہد کامیاب نہیں ہوئی عوام کی بھرپور حمایت کی بدولت یہ خطہ آزاد ہوا اور وقت دور نہیں ہم ہم مقبوضہ علاقے کو آزاد کرا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ سردار ابراہیم صاحب (مرحوم) کے قبیلے کا بڑا کردار ہے۔ جس طرح سدھن قبیلے کا بڑا کردار ہے اسی طرح سردار ابراہیم کے قبیلے کا بھی کردار بہت عظیم ہے۔ انہوں نے دو بریگیڈ خالی کیے تھے۔ باغ بریگیڈ اور ڈولی بریگیڈ۔ باغ بریگیڈ کے کمانڈر سردار غفار خان صاحب تھے اور ڈولی بریگیڈ کے کمانڈر سردار عبدالقیوم تھے۔ ان کی جد و جہد سے باغ اور دھیر کوٹ کا علاقہ آزاد ہوا۔ ان کے اندر ایک مجاہدانہ سپیرٹ تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی جانب سے قائم کردہ دونوں بریگیڈ کے طرف سے یہ لوگ باقاعدہ جنگ میں مصروف تھے۔ اسی طرح مظفرآباد بٹالین بھی تعینات تھی جو کی ایک ریگولر فورس تھی جو بعد میں AK فورس بنی۔ اس میں میجر قدرت اﷲ جو انڈین آرمی کا میجر تھا اور کیپٹن علی محمد شامل تھے۔ ان لوگوں نے اپنی ریاست کی آزادی اور کامیابی کے لیے کوششیں شروع کیں۔ یہاں کے مجاہدین میں 13 آدمی تھے جن میں سید سیدن علی شاہ صاحب، قاضی حمید اﷲ شاہ صاحب، پیر حسام الدین صاحب اور اسی طرح پیر قلندر شاہ صاحب آف روانی، علی اکبر شاہ صاحب آف میانی بانڈی اور محمد زمان آف گرھی دوپٹہ اور اسی طرح لوات کے کچھ لوگ جن کی تصاویر میرے پاس موجود ہیں، ان لوگوں نے بہت کام کیا۔ ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے۔ آج کے لوگ مہاراجہ کے بینیفشری اور تنخواہ لے کر اس کے اقتدار کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ میرے پاس 75 آدمیوں کا ایک فوٹو ہے جس میں میرے والد گرامی سمیت تمام بڑے بڑے لوگ موجود ہیں۔ مجھے سیاست وراثت میں ملی ہے۔ 1931؁ء میں میرے والد صاحب کا بھرپور کردار تھا۔ میرے والد صاحب بانیوں میں سے ایک تھے اس لیے مجھے آزادی کا جو سپیرٹ ملا ہے، میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وراثت میں ملا ہے۔ میں غلام حسین شاہ کو وقتاََ فوقتاََ ان قربانیوں سے آگاہ کرتا آ رہا ہوں۔ حکومت نے اس وقت کشمیر لبریشن سیل کے نام سے جو ادارہ بنا رکھا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب سکندر حیات صاحب وزیراعظم تھے۔ انہیں اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کو اﷲ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت بخشے۔ انہوں نے یہ ادارہ اسی غرض سے بنایا تھا کہ آزادی کے لیے کام کرے، مگر یہ پروان نہ چڑھ سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اس سے پہلے بھی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔ ان کو چاہیے تھا کہ گمنام ہیروز کو ڈھونڈ کر سامنے لاتے، عوام کو بتاتے کہ ان کا کردار کیا تھا۔ آج بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو میرا چیلنج ہے کہ آج آ کر بتائیں۔ ماسوائے سردار سکندر حیات صاحب کے والد گرامی کے بعد کرنل عدالت خان صاحب بھی آئے۔ راجہ اعظم خان بھی آئے۔ یہ لوگ انڈین فوج سے برگشتہ ہو کر باغیوں کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔ 1947؁ء کے بعد اگر کوئی نظر آتا ہے تو یہ لوگ ہیں یا پھر سردار سکندر حیات خان کے والد گرامی ہیں۔ فتح محمد کریلوی کے خاندان سے آپ کو کوئی نظر نہیں آئے گا۔ جو لوگ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے تھے۔ میں قبل ازیں بھی وقتاََ فوقتاََ اس خفیہ کہانی سے پردہ اٹھاتا بھی رہا ہوں۔ میں ذاتی طور پر تحریک آزادی کشمیر کا حصہ بھی رہا ہوں جب راجہ حیدر خان صاحب دولائی جیل میں تھے اور سردار عبدالقیوم صاحب بھی وہیں تھے۔ چوہدری غلام عباس صاحب پنڈی جیل میں تھے۔ اس تناظر سے پرنٹ میڈیا سے درخواست کرتا ہوں کہ ان لوگوں کو ذرا آشکار کریں۔ مزید بتاتا چلوں کہ 3 مہینے میں بھی جیل میں رہا۔ سردار غفار خان صاحب ہمارے ساتھ قلعہ گوجرہ میں اسیر تھے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں۔ یہ 1957؁ء کی بات ہے کہ ہماری ایک ایسی تحریک چلی تھی جس کا نام خاکسار کے بعد بر صغیر کی دوسری بڑی تحریک کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس وقت کے صدر حکومت نے چند پاکستان زعماء و چمچوں کے ساتھ مل کر ہماری تحریک کو دبایا اور ہمیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بریگیڈیر حیات خان کے دور میں تین بار جیل بھی جانا پڑا۔ آج جیل میں ایک خاص الخاص آدمی ہے جو فاروق حیدر خان کا دست راست ہے۔ یہ شخص ہر دور میں حکمرانوں کے ساتھ رہتا رہا اور ان کے لیے کام کرتا رہا۔ میرے ساتھ جو لوگ جیل میں تھے، راجہ عبدالقیوم صاحب، بشیر گیلانی، حمید اعوان، ایک منسٹر تھا جس کام نام سردار یوسف تھا، اس کے علاوہ کے جی خان کے ایک بھی عبدالعزیز خان بھی تھے۔ ہمیں سردار سکندر حیات نے گرفتار کیا تھا اور ہم پلندری جیل میں رہے تھے۔ یہ ہمارے جیل جانے کے تسلسل کا چوتھا واقعہ تھا۔ پہلے ہم لوگ مظفرآباد جیل میں تھے۔ ادھر اس وقت چوہدری نور حسین اور چوہدری خادم حسین کو آپریٹیو بینک کے ڈیفالٹر بھی میرے ساتھ موجود تھے۔

آزاد کشمیر بننے سے پہلے اور اس کے بعد میری اور میرے خاندان کی خدمات کا دستاویزی ثبوت میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ میرے خاندان اور بالخصوص میرے والد گرامی کی ضلع مظفرآباد کے لیے خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہاں جنگل الف کہلاتا تھا۔ پہلے زمانے تو جنگل الف میں عوام کو اتنی سہولتیں یا اتنی آسائشیں میسر نہ تھیں جتنی کہ درحقیقت ہونی چاہئیں تھیں، چنانچہ جنگل الف کے علاوہ میرے والد گرامی نے جنگلات کے حقوق لے کر دیے جس کو بیرون لائن کہتے ہیں۔ اس سے مکان وغیرہ کے لکڑی وغیرہ فراہم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ گزارش ہے جس کا بھی پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ مظفرآباد میں سیتا رام داس کا مندر تھا۔ یہ مرکزی مندر کہلاتا تھا۔ ڈوگروہ عہد میں لوگوں کے پاس ذرائع ناکافی تھے۔ چہلہ کے عوام کو مالکانہ حقوق دینے کے بجائے ان کا حق غصب کر کے ان کی زمینیں مندر کے ساتھ شامل کر دی گئی تھیں۔ یہ اعوان برادری کے غیور لوگ تھے جن کو اپنی اراضیات کی مندر میں شمولیت اپنے ماتھے پر ایک سیاہ ٹیکہ کی طرح محسوس ہوتی تھی۔ ان کی نظر میں اس سیاہ ٹیکہ کو اپنے ماتھے سے دور کرنا از حد ضروری تھا۔ میرے والد نے ان لوگوں کو زمینوں کے حقوق دلانے کے لیے کاوشیں شروع کر دیں۔ اس وقت چہلہ کے سرکردہ خاندانوں میں کالا نمبردار، سردار جمد علی، اکبر خان، بوستان خان اور مسکین خان کے خاندان شامل تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ رکھ کر والد گرامی نے حکومت ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ مل کر مالکانہ حقوق کے لیے کوششیں کیں۔ اس کام میں بہت وقت لگ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ گرمیوں میں اعلیٰ شخصیات حکومت کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے سری نگر میں بیٹھی تھیں اور سردیوں کا دارالخلافہ جموں ہوتا تھا۔ میرے والد گرامی مالکانہ حقوق کے سلسلے میں جموں جایا کرتے تھے۔ سردار کالا خان، سردار جمد علی خان، اکبر خان، بوستان خان اس بات کی گواہی دے سکتے تھے، مگر افسوس وہ لوگ اب دنیا سے جا چکے ہیں۔ ان کی تیسری یا چوتھی نسل کے لوگ آج بھی چہلہ میں آباد ہیں۔ میرے خیال میں یہ تاریخی حوالے ان کو بھی معلوم ہوں گے۔ ہو سکتا کہ ان کے آباؤ اجداد نے ان کے ساتھ اس معاملے میں کوئی گفتگو نہ کی ہو۔ میں اپنے طور پر یہ ذمہ داری اپنے آپ پر فرض محسوس کرتا ہوں کہ ان کو تاریخی حقائق سے آگاہ کروں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ چہلہ کا ایک بہت بڑا رقبہ جو لوگوں کی ملکیت تھی مندر کے ساتھ منسلک کر دی گئی تھی۔ آج کل چہلہ میں آباد زیادہ تر لوگ حسن گلیاں، مکول اور بالک پنہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو بعد میں آ کر چہلہ میں آباد ہوئے اور ان میں سے 5 سے 10 لوگوں کا تعاون حاصل کر کے میرے والد گرامی کبھی سری نگر اور کبھی جموں جایا کرتے تھے، کیوں کہ ایک ہندو حکومت کے دور میں مندر کے ساتھ منسلک املاک کی واگزاری کوئی آسان کام نہ تھا۔ جان جوکھم میں ڈالنے والی بات تھی۔ میرے والد ان لوگوں کی خاطر اپنے گھر سے دور کبھی سری نگر اور کبھی جموں میں رہتے تھے۔ 1932-33 میں یہاں ایک بس سروس چلا کرتی تھی نندا بس سروس کے نام سے، جو موجودہ دور کی چھوٹی ویگن کی طرح ہوتی تھی۔ اس میں 18 نشستیں ہوتی تھیں۔ والد گرامی اس سروس سے سفر کرتے تھے۔ کبھی سیالکوٹ کے راستے جموں جانا پڑتا۔ کئی مرتبہ سردیوں کا کٹھن سفر بھی اختیار کیا۔ سرکردہ لوگوں کا تعاون حاصل کر کے مایوس لوگوں میں بیداری کی لہر پیدا کی۔ لوگوں میں جذبہ حریت کو بیدار کر کے انہیں باور کرایا کہ مالکانہ حقوق ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ وہ لوگ تعاون پر آمادہ ہو گئے اور والد گرامی نے مرکزی حیثیت سے ان کا کیس لڑا۔ ریٹائرڈ سب انسپکٹر بشیر صاحب ابھی بقید حیات ہیں، ان کو ان خدمات کا علم ہے۔ باقی خدمات کے بارے میں جاننے والے لوگوں کی اکثریت دار فانی سے کوچ کر چکی ہے۔ ان فوت شدہ لوگوں کی تیسری یا چوتھی نسل اب زندگی گزار رہی ہے، خدا معلوم ان کو ان باتوں کا علم بھی ہے یا نہیں۔ بہر حال میرا فرض بنتا ہے کہ ان لوگوں کو گزشتہ تاریخ کے صفحات سے روشناس کراؤں۔ جن افراد کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے نمبردار کالا خان کے بیٹے تو وفات پا چکے ہیں، البتہ ان کے پوتے ہیں۔ اسی طرح سیکرٹری گل زمان صاحب بھی اس بات سے آگاہ تھے۔ اب وہ دو یا تین سال قبل 90 برس کی عمر پا کر دنیائے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ خان مظفر خان جب ہری پور سے ڈس لوکیٹ ہو کر مظفرآباد تشریف لائے تو اس وقت ہمارے خاندان کے بزرگان یہاں آباد تھے جو تقریباََ پانچ سو سال پہلے یہاں آئے تھے۔ ان سادات کرام کی وجہ سے ہمیں کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سادات کی عزت کی وجہ سے لوگ ہمیں بخوشی قبول کرتے تھے۔ ہم اس وقت یہاں آئے تھے۔ یہاں جو ہری پور کے گکھڑ قبیلے کے لوگ ہیں وہ مظفر خان کے زمانے میں آئے تھے۔ سلطانی مسجد کے خطیب اول مولوی عبدالرحمن صاحب اور ان کے بھائی بھی اسی زمانے میں یہاں آئے تھے۔ ہمارے پاس جو زمین ہے یہ بھی شاید ڈوگرہ کے ساتھ املاک میں شامل ہو گی، مگر اس پر ہم خود قابض تھے۔ بانڈی صمدانی میں ہمارے تایا سلطان شاہ صاحب تھے۔ ان کی حصہ داری بانڈی صمدانی میں نکلتی تھی۔ وہاں کے لوگ آج بھی ہمارے تایا کا نام لیتے ہیں۔ ان کا نام ریکارڈ مال میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے اپنی حیات میں حسن آباد سے اوپر آلڑہ اور ارد گرد کے لوگوں کو بلا کر آباد کیا۔ اکثر لوگ ارد گرد کے وہاں آباد ہیں۔ ہمارے تایا کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک کا نام شیر بانو تھا۔ ان کا کوئی بیٹا نہ تھا، اس وجہ سے مختلف لوگوں نے قابض ہو کر مالکانہ حقوق حاصل کر لیے۔ 1970 میں پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے۔ سردار عبدالقیوم اور کے ایچ خورشید صدارت کے امیدوار تھے۔ سردار عبدالقیوم صاحب، کے ایچ خورشید صاحب کو بہت بڑی شکست دے کر منصب صدارت تک پہنچے۔ یہ اﷲ کا احسان ہے۔ 1970 میں منتخب ہونے کے بعد اپنی پوری کیبنٹ کے ہمراہ میری رہائش گاہ واقع پاجگراں پر تشریف لائے۔ وہاں ہم نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ اس کے بعد 1985 میں جب مسلم کانفرنس کی حکومت دوبارہ بنی اس وقت بھی اور اس کے بعد 2000 تک مختلف ادوار میں سردار عبدالقیوم صاحب اور سردار سکندر حیات خان صاحب میرے غریب خانے میں تین مرتبہ تشریف لائے۔ پہلی حکومت میں، پھر 1987 میں اور پھر شاید 2001 میں۔ میں مسلم کانفرنس مظفرآباد کا جنرل سیکرٹری رہا ہوں۔ حبیب اﷲ میر کے دور میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس کی صدارت خود سردار عبدالقیوم صاحب نے کی۔ بڑا اجتماع تھا جس میں منشی علی گوہر صاحب، سردار حمید اﷲ صاحب، لطیف خان صاحب، مرحوم غلام حسن حیدری صاحب اور ان کے پائے کے بے شما رلوگ تھے جنہوں نے مجھے جنرل سیکرٹری کے منصب کے لیے منتخب کیا۔ اس کے بعد میں 10 سال تک ضلع مظفرآباد کا جنرل سیکرٹری رہا۔ میرے بھائی صاحب نے ایک سکھ عورت سے شادی کی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اب بھائی صاحب اور ان کی اہلیہ دونوں وفات پا چکے ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ کانگریس پارٹی کے اونچے منصب پر فائز تھے۔ وہ حسن آباد کے ساتھ سراڑ کٹلی سیری نامی ایک گاؤں میں رہا کرتے تھے۔

ایک تو تھے راجہ حیدر خان صاحب جو دہرہ دون فاریسٹ کالج سے فارغ ہو کر آئے ہوئے تھے، انہوں نے یہاں بیلہ نور شاہ رینج کوارٹر میں ٹریننگ حاصل کی۔ دوسرے چناری کے رہنے والے اعزازی کرنل فقیر محمد خان صاحب، وہ بھی ہمارے ساتھ پانڈو محاذ پر موجود تھے۔ کرنل فقیر محمد صاحب کے خاندان اور برادری کے دیگر لوگ بھی ہمارے ساتھ موجود تھے۔ دیگر افراد میں سید نثار ہمدانی موجودہ لیکچرر یونیورسٹی کے والد سید آزاد شاہ، زین العابدین ایڈووکیٹ، سید عنایت شاہ آف گڑھی دوپٹہ، محمد زمان عباسی آف گڑھی دوپٹہ، اور ان کے ساتھ ساتھ بہت سے اور لوگ بھی تھے۔ جب 27 اکتوبر کو پانڈو محاذ پر سیز فائر ہو گیا تو اس کے بعد استصواب رائے کا راستہ ہموار کرنے کے لیے مبصرین پاکستان میں آنا شروع ہو لگئے۔ خیر وہ تو کافی وقت بعد آئے۔ جب اس منصوبے کے تحت جموں و کشمیر میں استصواب رائے کی بات چلی، اس وقت ہم نے کوشش شروع کر دی۔ اتفاق کی بات ہے کہ منسٹری آف کشمیر افیئرز کا عمل دخل اور آزاد حکومت پر گرفت بہت زیادہ تھی۔ یہی وقت تھا جب سردار ابراہیم کی حکومت کو ختم کر دیا گیا اور میر پور کے کرنل علی احمد شاہ صاحب کو حکومت بنانے کا اختیار دیا گیا۔ علی احمد شاہ صاحب نے بہت اچھی طرح آزاد کشمیر کی حکومت کو چلایا اور یہاں کے لوگوں کی بجا طور پر اشک شوئی ہوئی۔ علی احمد شاہ کی حکومت نے انتظام و انصرام بہت اچھی طرح چلائے رکھا۔ کچھ عرصہ بعد اس حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں سہروردی صاحب کی حکومت قائم ہوئی اور ادھر سردار عبدالقیوم خان صاحب کی حکومت بن گئی۔ لیکن چونکہ سردار عبدالقیوم خان صاحب سہروردی صاحب کے منظور نظر نہیں تھے اس لیے انہوں نے سردار عبدالقیوم خان صاحب کی حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد فضا کافی مکدر رہی۔ نظام درہم برہم ہو گیا۔ کشمیریوں نے اس کا بہت برا منایا۔ مولوی غلام مصطفی صاحب لوات کی بہت ہی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ نیلم ویلی میں انہوں نے بہت کام کیا۔ انہوں نے نیلم ویلی کے لوگوں کے اندر آزادی کی روح بیدار کی۔ اسی طرح سردار حبیب اﷲ خان جو ایک بہت بڑی منتظم تھے آزاد کشمیر میں وزیر بنے۔ گل خندان کے والد محترم تھے جن کا تعلق کیل سے تھا۔ کرنل شیر خان کی حکومت کا قیام اس لیے ضروری تھا کہ اس وقت وزارت امور کشمیر اپنے من پسند لوگوں کو آگے لے آتی تھی۔ اس وقت آزاد کشمیر کے لوگوں کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔ آخر کار جب کرنل شیر خان کی حکومت آئی تو سدھن قبیلہ جو راولاکوٹ میں منظم اور متحرک قبیلہ ہے اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ پاکستان کی پنجاب کنسٹیبلری کی کافی نفری بھیجی گئی جنہوں نے سدھن قبیلے کے لوگوں کو بڑی اذیت ناک تکلیفیں دیں، ان تکلیفوں کا حال میں بیان نہیں کر سکتا۔ سدھن قبیلہ انتہائی منظم اور عسکریت پسند تھا اور عسکری اعتبار سے ان کی ٹریننگ بہت اعلیٰ معیار کی تھی۔ اس وجہ سیآزاد کشمیر کی پولیس اس کے ساتھ نہیں چھیڑ سکتی تھی۔ مصلحت کے تحت پنجاب کنسٹیبلری کو امن کے لیے لایا گیا۔ کے ایچ خورشید کے حق میں 1960 کی دھائی میں مسلم کانفرنس نے اپنے پلیٹ فارم سے حکومت بنانے کے لیے حمایت کی۔ جب کے ایچ خورشید کی حکومت معرض وجود میں آئی تو انہوں نے نظریہ پاکستان سے انحراف کر دیا۔ انہوں نے اس بنیادی نظریے جس پر مسلم کانفرنس کا قیام تھا اس سے رو گردانی کی۔ اس کے بعد مسلم کانفرنس ان سے علیحدہ ہو گئی۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت بنیادی جمہوریتوں کا قیام عمل میں آ گیا تھا۔ اس وقت تک چوکی داری اور نمبر داری کا نظام ختم کر دیا گیا تھا اور آزاد کشمیر میں مالیہ کی معافی کا نوٹییفکیشن جاری ہو چکا تھا۔ جب 1970 میں الیکشن ہوا تو سردار ابراہیم خان بھی سردار عبدالقیوم صاحب کے مقابلے میں صدارت کے امیدوار تھے۔ ان دونوں لیڈروں کو بھاری اکثریت سے شکست فاش ہو گئی۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے اور کافی عرصہ بر سر اقتدار رہے۔ نظریہ الحاق پاکستان جس کی آبیاری مسلم کانفرنس نے اس کڑے وقت میں کی تھی آج بھی روز بہ روز اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1970 کے الیکشن میں جب سردار عبدالقیوم خان صاحب بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو اس سے پہلے جنرل عبدالرحمن کی کیئر ٹیکر گورنمنٹ منسٹری آف کشمیر افیئرز نے بنائی تھی۔ بہت اچھے شریف آدمی تھی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ میں جنرل صاحب سے ملا ہوں۔ میرے ساتھ جماعت اہلحدیث کے دو دوست اور بھی ہمراہ تھے۔ ہم نے دینی مدرسے کے قیام کے لیے چھتر سے کوئی تقریباََ دس کنال زمین جو ماسٹر پلان کے اندر آئی ہوئی تھی، خارج کرایا اور رقبہ حاصل کیا جس میں بہت بڑی مسجد اور درسگاہ قائم ہے۔ اس درس گاہ اور جامع مسجد پر مولانا محمد یونس اثری مرحوم کے بچوں اور پوتوں کا اقتدار قائم ہے۔ اس 10 کنال اراضی خرید میں نے کی۔ اس میں کسی اور کا حصہ نہیں ہے۔ جس طرح میں نے پہلے بھی آپ سے تذکرہ کیا ہے کہ سید اسماعیل شہید اور سید شاہ شہید کی تحریک آزادی کشمیر جو کہ ایک انگریز کے خلاف تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دہلی سے جس کے دو شہر تھے ایک بانس بریلی اور رائے بریلی۔ ادھر سے ہو کر پنجاب سے ہوتے ہوئے تبلیغ کرتے ہوئے یہ سرحد میں آ گئے اور بلخ تک گئے۔ ہزارہ میں برٹش آرمی میں گندھارا سنگھ نامی ایک جنرل تھا اس کے ذریعے مٹی کوٹ اور بالا کوٹ کے مقام پر سید اسماعیل اور سید شاہ شہید کو شہید کر دیا گیا۔ اور ان کے کثیر مجاہدین آزاد کشمیر کی طرف ڈپلائے ہوئے اور لمیاں پٹیاں سے لے کر گلوٹی گلی تک شاہ شہید اور سید اسماعیل شہید کے مجاہدین کے لیے راشن منی اور خورد و نوش کا سامان اکٹھا کرنا اور ان کو پہنچانا ہمارے خاندان کی ذمہ داری تھی۔ سید رسول شاہ بھی اس تحریک سے بہت متاثر تھے۔ بعد میں وہ ہندوستان چلے گئے اور امرت سر اور اہلحدیث مدرسے سے فارغ ہو کر آئے اور مولانا امرتسری جنہیں شیر پنجاب بھی کہا جاتا تھا وہ سید رسول شاہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔ دونوں گاہے بگاہے سرحد اور پکھلی کے دورے کیا کرتے تھے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے دین کی تبلیغ کا کام بھی میرے خاندان نے بڑے احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مڈورہ، پاجگراں، بانڈی سماں، کروڑہ اور کڑیاں دراڑ پرسچہ اور دوسرے علاقوں میں توحید وسنت کا پرچار ہے۔ پاجگراں کے سامنے پلیٹ میں جو قلعہ موجود ہے وہاں سے دشمن منجنیقوں کے ذریعے شہید گلی پر بمبارمنٹ کیا کرتے تھے جس کے گولے 1947 کی جنگ کے بعد بھی موجود تھے جن کا وزن آدھا کلو سے لے کر دو کلو تک ہوتا تھا۔ اسی طرح چہلہ کا برد شدہ قلعہ میرے والد سید سیدن علی شاہ صاحب کی ملکیت ہے۔ جب 1970 میں سردار عبدالقیوم خان صاحب کی حکومت قائم ہوئی تو سردار عبدالقیوم نے سب سے پہلے آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کے احیاء کا اہتمام کیا اور شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا اور اسی طرح فوجداری عدالت میں ایک مفتی کو بھی بٹھایا گیا۔ ان کا اپنے منصب کے مطابق عدالتی فیصلوں میں عمل دخل تھا۔ اس کی ایک عظیم مثال یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی جن کو سردار عبدالقیوم خان صاحب کی ان اصلاحات سے چڑ تھی کہ آزاد کشمیر کا ایک پسماندہ علاقے کا کا بندہ ہم سے زیادہ اصلاحات کا نفاذ نہ کرے تو سردار عبدالقیوم خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بھٹو صاحب نے ایک منفی رول ادا کیا کہ انہوں نے میجر اورنگزیب اور چیف سیکرٹری زیدی کو وسیع تر اختیارات دے کر آزاد کشمیر میں تعینات کیا اور ان کے ذریعے بھٹو کی قائم کردہ ایف ایس ایف فورس کو استعمال کر کے ان کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کو انہوں نے گرفتار کر لیا۔ سردار عبدالقیوم صاحب کہا کرتے تھے کہ بھٹو صاحب صرف پیپلز پارٹی کے صدر کے طور پرآپ اپنے آپ کو محدود کر رہے ہیں۔ آپ تو پورے پاکستان کے لیڈر ہیں۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب ان کو بہت عزت دینا چاہتے تھے مگر بھٹو نے بد قسمتی سے سردار عبدالقیوم صاحب کا مشورہ نہ مانا اور واقعی اپنے آپ کو محدود کر دیا۔ اورنگزیب اور زیدی نے ایف ایس ایف کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور یہاں سردار عبدالقیوم صاحب کی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر منظر مسعود کو انہوں نے صدر کا منصب عطا کیا اور پھر ان کی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے سردار عبدالقیوم خان کی حکومت کو ڈسمس کر دیا اور بعد میں تعلقات ٹھیک کرنے کے لیے بھی بھٹو صاحب کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ سردار صاحب کے ساتھ تعلقات بگاڑ کر پاکستان میں کوئی اچھی اصلاحات کا نفاذ نہیں کر سکتا بلکہ بھٹو نے سردار صاحب کو بعد میں بڑے بڑے منصبوں اور ذمہ داریوں پر بھی مامور کیا کہ وہ ایم آر ڈی کے ساتھ ہماری صلح کرا دیں۔ ایم آر ڈی ایک بہت ہی زبردست تحریک تھی۔ تحریک بحالی جمہوریت پاکستان۔ جب بھٹو صاحب نے 1974 کے انتخابات میں ڈنڈی ماری اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی پارٹی کی جعلی سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش کی تو تحریک بحالی جمہوریت شروع ہو گئی اور انہوں نے بعد میں سردار عبدالقیوم خان صاحب کو صلح صفائی کا ٹارگٹ بھی دیا کہ پاکستانی زعماء کے ساتھ میری صلح کرا دیں۔ سردار صاحب نے اپنے فرائض سر انجام دیے مگر پانی سر سے گزر چکا تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ سردار عبدالقیوم خان کی اس حکومت میں جنرل چشتی صاحب نے حیات خان کو جو حاضر سروس بریگیڈیر تھے انہوں نے 1975-76 میں ان کو آزاد کشمیر کا صدر بنا کر بھیجا۔ حیات صاحب کی اس وقت ون مین گورنمنٹ تھی۔ انہوں نے کئی اچھے کام کیے لیکن کچھ خرافات بھی سرزد ہوئیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ بھٹو صاحب نے اسی لیے سردار قیوم صاحب کو چلتا کیا تھا۔ بعد میں بھٹو صاحب کا اپنا تختہ دھڑام سے نیچے گر گیا۔ 1970 سے لے کر 1975 تک سردار صاحب کی حکومت تھی، گو کہ ذوالفقار علی بھٹو نے قیوم صاحب کی حکومت کو تاخت و تاراج کرنے کے لیے منظور مسعود کو سپیکر شپ سے ہٹا کر صدر کا عہدہ دیا اور میجر اورنگزیب اور زیدی کے ذریعے ایف ایس ایف کا قیام عمل میں لایا۔ اس وقت مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ سردار صاحب کے ساتھ ہم چند لوگ تھے جن میں سے پلیٹ کے قاضی مقبول الرحمن صاحب جو وفات پا گئے ہیں اور دوسرا میں خود۔ سردار صاحب کی گرفتاری کے وقت ہم سیکرٹریٹ کے سامنے والے سڑک پر پہنچے۔ انہوں نے بڑی جوشیلی تقریر کی۔ ایف ایس ایف کے سیکڑوں جوان دائیں بائیں اپنی گنیں لوڈ و انلوڈ کر رہے تھے مگر ہم نے پرواہ نہ کی۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب کو چھتر کلاس کے مقام سے گرفتار کر کے ان کو جیل میں بند کر دیا گیا اور پھر اس کے بعد ہماری تلاشی لی گئی اور ہمارے پیسے بھی چھین لیے گئے۔ تین دن تک ہمیں پریزیڈنٹ ہاؤس میں نظر بند رکھا گیا۔ وہاں میں اور صاحبزادہ مقبول صاحب اکٹھے تھے۔ اس وقت ہمارے ساتھ اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ 1957 کی جو تحریک چلی اس تحریک میں بھی میں تین مہینے گرفتار رہا۔ گوجرہ قلعہ میں سردار غار خان سمیت سیکڑوں لوگ ہمارے ساتھ گرفتار رہے۔ اس تحریک کے سلسلے میں سردار عبدالقیوم خان، راجہ محمد حیدر خان اور شیخ عبدالحئی صاحب کے چار بیٹے بھی گرفتار کیے گئے۔ شیخ بشارت جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں ان کو بھی گرفتار کیا گیا اور میرے ساتھ جاوید مبارک اور دوسرے لوگ بھی قلعے میں تھے۔ اس وقت سردار ابراہیم صاحب کی حکومت تھی ہم اس حکومت کے خلاف نہ تھے۔ اصل میں ہم سیز فائر لائن توڑنا چاہتے تھے تا کہ انڈین گورنمنٹ کے لیے مسائل پیدا کر سکیں۔ ہم یہاں سے روانہ ہوتے۔ چناری اور وہاں سے آگے چکوٹھی تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی ہمارے قافلے کو گرفتار کر لیا جاتا تھا اور بالا کوٹ یا بٹراسی کے مقام پر واپس چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ہمارے پاس اس وقت اتنے وسائل نہ تھے۔ وہاں سے ہم پھر ایک دو دن بعد دوبارہ وہی سفر شروع کرتے تھے۔ مزید بتاتا چلوں کہ آج کل جو بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان لوگ ہیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ ان تحریکوں میں شامل نہ تھا۔ ہمارے ساتھ عوام تھے۔ شبیر شاہ، زاہد امین، مبارک اور جاوید جیسے لوگ ہمارے ساتھ جتھوں میں نکلتے تھے۔
 

Haji Gahlam Hussain Shah
About the Author: Haji Gahlam Hussain Shah Read More Articles by Haji Gahlam Hussain Shah: 5 Articles with 4701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.