روسی ہتھیاروں سے آذربائیجان و آرمینیا کے درمیان جنگ

آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کے علاقوں پر شدید فوجی کارروائی اورقبضہ نے سینکڑوں انسانوں کو ہلاک یا زخمی کردیا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان شدید فوجی کارروائیاں عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق آذربائیجان اور آرمینیا نے شدید کارروائیوں کے بعد 10؍ اکٹوبر کو 12بجے سے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے ۔ اس جنگ بندی کے بعد دونوں فریقین آپس میں لاشوں اور قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ یہ جنگ بندی کا معاہدہ روسی صدر ولادیمیر پوتین کی جانب سے لڑائی روکنے کے مطالبہ کے بعد طے پایا ہے اب دیکھنا ہیکہ اس پر کس قدر عمل ہوپاتا ہے۔واضح رہے کہ 1991ء میں سویت یونین کی کمیونسٹ حکومت کے خاتمہ کے بعد پندرہ ریپبلک ممالک بن گئے ، روس سوویت یونین کا جانشین ملک بن گیا یعنی سویت یونین کو جو درجہ حاصل تھا وہ روس کو حاصل ہوگیااور ان پندرہ ممالک میں آذربائیجان اور آرمینیا بھی سویت یونین سے آزاد ہوگئے۔ روس کے تعلقات ان دونوں ممالک سے اچھے رہے ہیں یہی نہیں بلکہ بتایا جاتاہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا جن ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان سے لڑرہے ہیں وہ انہوں نے روس سے خریدے ہیں یعنی روس ان دونوں ممالک کو اپنا اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ البتہ آرمینیا کے ساتھ روس کا فوجی اتحاد ہے اور اس کا وہاں ایک فوجی اڈہ بھی قائم ہے۔ دوسری جانب روس اور آذربائیجان کی سرحد سے متصل ہے اور دونوں کے درمیان اچھی دوستی بتائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری جنگ سے روس کے فوجی سازو سامان اور ہتھیار کی خریدی کی وجہ سے فائدہ حاصل ہے ، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے 9؍ اکٹوبر کو دونوں ممالک سے دشمنی ختم کرنے اور فوری جنگ بندی کے لئے کہا ہے۔ آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل ہے وہ اس کا قدیم دوست اور فوجی معاون بھی ہے۔ یہی وجہ ہے روسی صدر ولادیمیر اپنے پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ بندی کیلئے متحرک اور محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ جنگ بندی کے بعد روس اور دیگر ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کے مسئلہ کو کس طرح حل کرپاتے ہیں۔

رجب طیب اردغان کے کئی ایک فیصلوں نے عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام کی نیندیں اڑادیں ہیں اب آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ میں ترکی کی جانب سے آذربائیجان کا ساتھ دینے پر عالمی قائدین ترکی پر سخت دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ۔نیٹو ممالک بھی ترکی کے خلاف نظرآتے ہیں، تیل کے ذخائر سے مالامال آذربائیجان بحیرۂ کیسپیئن کے ایک کنارے پر مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع ہے۔ اس کے شمال میں روس، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا واقع ہیں۔ سنہ 1991ء میں جب آذربائیجان سویت یونین سے آزاد ہوا تو سب سے پہلے ترکی ، پاکستان ، امریکہ اور ایران نے اس کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے۔ترکی آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے جبکہ پاکستان دوسرا ملک تھا۔ آذربائیجان میں قریب ایک کروڑ آبادی ہے جس میں اکثریت مسلمانوں کی بتائی جاتی ہے لیکن ریاست کامذہب اسلام نہیں ہے اور آذربائیجان کے آئین کے مطابق یہ ایک سیکولر ملک ہے۔الہام علیئف آذربائیجان کے چوتھے اور موجودہ صدر ہیں وہ 2003سے اس عہدے پر فائز ہیں اس سے قبل انکے والد یہاں کے صدر تھے۔الہام علیئف چوتھی مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر الہام علیئف کے دور میں آذربائیجان بین الاقوامی سطح پر کافی متحرک رہا ہے۔

آرمینیا مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا میں موجود وہ ملک ہے جس کے چاروں طرف دیگر ممالک واقع ہیں اسکے مغرب میں ترکی جبکہ مشرق میں آذربائیجان موجود ہیں۔ آرمینیا کی تاریخ دیگر یورپی ممالک سے بھی زیادہ پرانی بتائی جاتی ہے ۔ یہ قدیم ترین مسیحی تہذیبوں کی عکاسی کرتاہے ۔ 31لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس ملک میں اکثریت مسیحی افراد کی ہے اور یہاں آرمینیئن اور روسی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن آرمینیا کے آئین میں ریاست اور مذہبی اداروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا ہے تاہم آذربائیجان کی طرح سیکولر کالفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ آرمینیا بازنطین، فارس، منگول اور ترک سلطنتوں میں شامل ہوتا رہا ہے ۔ آذربائیجان اور آرمینیا پہلی عالمی جنگی کے دوران سلطنت عثمانیہ سے علحدہ ہوگئے تھے لیکن اس کے بعد 1981ء سے دونوں ممالک سوویت یونین کا حصہ بن گئے تھے سنہ 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے کے بعد یہ دونوں آزاد ملک کے طور پر ابھرے۔ بتایاجاتا ہیکہ 2018ء میں آرمینیامیں پرامن انقلاب اور احتجاجی رہنما نیکول پشنیان کے وزیراعظم بننے پر کئی عرصے سے موجود ریپبلیکن پارٹی اقتدار سے محروم ہوگئی تھی۔آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازعہ کی وجہ ناگورنوقرہباخ نامی علاقہ ہے ۔اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تعلیم کیاجاتا ہے لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لئے 80اور 90کی دہائی میں خونریز جنگیں ہوچکی ہیں، دونوں جنگ بندی پر تو اتفاق کرچکے ہیں لیکن کسی امن معاہدے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ گذشتہ کئی صدر صدیوں کے دوران مسلمان اور مسیحی طاقتوں نے اس خطے پر حکمرانی کرنا چاہی ہے۔ سنہ 2018ء میں آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشنیان نے آذربائیجان کے صدر کے ساتھ تناؤ کم کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن ان دونوں ملکوں کے درمیان پھر ایک مرتبہ کشیدگی میں شدید اضافہ ہوگیا اور آذربائیجان کے علاقہ پر آرمینیا کی فوج نے قبضہ کرکے آذربائیجان کو جوابی کارروائی کیلئے اکسایا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ممالک کے بے قصور معصوم شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اب دیکھنا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کے بعد مستقبل کیلئے مزید کیاسمجھوتہ ہوتاہے اور اس سمجھوتہ کرانے والے ممالک کون کونسے ہیں۔ فی الحال ترکی آذربائیجان کی حفاظت اور سلامتی کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کو ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو سے نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹنبرگ کی ملاقات ہوئی انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردغان سے ناگورنوکاراباخ کے مسئلے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کو کہا ہے انکا کہنا ہیکہ ہمیں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم پر گہری تشویش ہے ۔ تمام فریقین فوری جنگ بندی کریں اور مسئلے کے پرامن حل کی جانب بڑھیں۔ انہوں نے ترکی سے توقع ظاہر کی کہ وہ اس تناؤ کو کم کرنے کیلئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے گا۔ نیٹو سربراہ سے ترک وزیر خارجہ کی ملاقات کے فوراً بعد صدر طیب اردغان نے آذربائیجان پر زور دیا کہ وہ لڑائی جاری رکھے اور آرمینیا کے ساتھ 1990کی جنگ میں کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرے۔ 1990کی جنگ کے دوران کم و بیش تیس ہزار افراد ہلاک بتائے جاتے ہیں ۔ ترک صدر کے مطابق آذربائیجان ، آرمینیا کے حملے کا جواب دے رہا ہے اور کاراباخ کو آرمینیا کے تسلط سے بچا رہا ہے۔ انکا کہنا ہیکہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا، جھگڑا ختم نہیں ہوگا۔ اردغان کے اس بیان نے انکے مخالفین کے جذبات کو اور بھڑکادیا ہے اب دیکھنا ہیکہ اس پر کس قسم کے ردّعمل کا اظہار ہوتاہے۔

صدر فرانس امینول ماکرون کی اشتعال انگیزی۰۰ رجب طیب اردغان
ترک صدر رجب طیب اردغان نے کہاکہ ’’صدر فرانس امینول ماکرون کے مسلمانوں کی اکثریت کے مقیم ہونے والے ایک شہر میں اسلام بحران میں ہے‘‘پر مبنی بیان بدتمیزی سے ہٹ کر کھلم کھلا اشتعال انگیزی ہے۔ صدر ترک نے دارالحکومت انقرہ کے نیشنل کنونشنل اینڈ کلچرل سنٹر میں منعقد مساجد اور مذہبی امور کارکنان کے ہفتہ پروگرام میں شرکت کے موقع خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آیا صوفہ کو عبادت کے لئے کھولنے کے فیصلے کی بدولت ترکی نے اپنی خودمختاری اور آزادی پر چھائے بادلوں کو ہٹا دیا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے عمل کو یورپی سیاستدان اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

شیخ مشعل الاحمد الصباح کویت کے نئے ولیعہد مقرر
شیخ مشعل الاحمد الصباح کو نئے امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح نے اپنے ایک فرمان کے ذریعہ کویت کا ولیعہد مقرر کیا ہے۔ شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح نیشنل گارڈ کے نائب سربراہ رہے وہ شیخ احمد الجابر الصباح کے ساتویں بیٹے ہیں۔ ولیعہد شیخ مشعل وزارت داخلہ میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ 1967ء سے 1980تک وہ محکمہ خفیہ کے سربراہ رہے۔ ان ہی کے دور میں محکمہ خفیہ کو پبلک پراسیکیوشن میں تبدیل کیا گیا۔ انہیں سابق امیر کویت شیح جابر الاحمد نے 1977ء میں شعراء کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ شیخ جابر نے ہی بعد ازاں انہیں نیشنل گارڈ کانائب سربراہ مقرر کیا تھا۔ایوان امیری کے وزیر شیخ علی جراح الصباح نے امیر کویت کے اس فیصلے پرکہاکہ آل الصباح حکمران خاندان کے افراد نے امیر کویت کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

سعودی عرب میں طلاق کی شرح میں اضافہ
سعودی عرب جو اسلامی ملک کہلاتاہے جہاں حرمین شریفین جیسے دنیا کے سب سے عظیم الشان مقدس مقامات ہیں۔ شرعی قوانین کی وجہ سے مملکت میں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔ البتہ سعودی عرب میں آئے دن طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، خصوصی طور پر کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد اس میں مزید اضافہ بتایاجارہا ہے اس کی اور کئی وجوہات بھی بتائی جارہی ہیں۔ سعودی عرب میں قانونی مشیر اور خاتون وکیل رباب المعبی کا کہنا ہیکہ طلاق کی شرح بڑھنے کا سبب اسمارٹ ڈیوائسز ہیں۔ انکا کہنا ہیکہ بعض شوہروں نے اپنی اوڑھنا بچھونا اسمارٹ ڈیوائسز کو بنالیا ہے ، خواتین بھی اس لت کی شکار ہیں۔ فریقین باہمی رنجشوں سے نمٹنے کے لئے طلاق پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔رباب المعبی کا کہنا ہیکہ کورونا وبا کی وجہ سے گذشتہ مہینوں کے دوران گھروں میں رہنے کے دوران میاں بیوی کے تعلقات میں تلخیوں میں اضافہ ہوا اور گھریلو تشدد اور طلاق کے واقعات بڑھنے لگے۔ ایک اور وجہ رشتہ زوجیت کے تقدس کا فقدان بھی بتایا جاتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ میاں بیوی کے فکری، تعلیمی اور ثقافتی معیار میں اختلاف بھی ہے۔ میاں بیوی کی جانب سے رشتہ زوجیت کی ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی بھی طلاق کی وجہ ہے۔ واضح رہے کہ وزارت انصاف نے گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں بتایا تھاکہ جولائی 2020کے دوران مملکت بھر میں 117سے 289یومیہ طلاق نامے جاری ہوئے۔ مجموعی طور پر 4079طلاقیں ہوئیں۔اس طرح سعودی عرب میں شرعی قوانین کے باوجود مردو خواتین کے درمیان طلاق کی شرح میں اضافہ اسلامی تعلیمات سے دوری کا سبب بھی ہوسکتا ہے ۔ شاہی حکومت کو چاہیے کہ وہ مردو خواتین کو شادی سے قبل میاں بیوی کے حقوق اور زندگی گزارنے کے طور طریقے سمجھائیں تاکہ سعودی عرب جیسے مرکزِ اسلام کی شبیہہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی وجہ سے متاثر نہ ہو۔
ٌٌٌ***

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209672 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.