بہار میں بی جے پی کی حالت ’جورو کے غلام ‘ گھر داماد کی
سی ہے۔وہ ایک ایسی منہ زور بیوی کے ساتھ گزارہ کرنے کے لیے مجبور ہے جو ہر
لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود سینے پر مونگ دلنے پر مُصر ہے ۔ ۲۰۰۹ میں جب
پارلیمانی انتخاب ہوئے تو دونوں جے ڈی (یو) اور بی جے پی شادی کے بندھن میں
بندھے ہوےتھے ۔ اس وقت جنتا دل (یو) نےپتی پرمیشور کی حیثیت سے ۲۵ نشستوں
پر اپنا دعویٰ پیش کیا اور اپنی دھرم پتنی کو ۱۵ نشستوں پر لڑنے کی اجازت
دی لیکن جب نتائج آئے تو پتہ چلا کہ پتی کوصرف ۲۰ پر کامیابی ملی جبکہ
پتنی بھی ۱۲ پر کامیاب ہوگئی اس طرح دونوں کی کامیابی کا اوسط ۸۰ فیصد تھا
اور مقابلہ برابری پر چھوٹا لیکن یہ بھی ثابت ہوگیا کہ میاں بیوی کی نشستوں
میں فرق ہے زیادہ سیٹوں الیکشن لڑنے کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد ۲۰۱۰ میں
بہار ودھان سبھا کا انتخاب بھی بی جے پی اور جنتا دل (یو) نےمل کر لڑا۔
نتیش کمار نے پھر سے اپنی قوامیت بگھارتے ہوئی ۱۴۱ نشستوں پر انتخاب لڑا
مگر صرف ۱۱۵ پر کامیاب ہوسکے جبکہ بی جے پی کےجھولی میں ۱۰۲ نشستیں ڈالی
گئیں ان میں سے ۹۱ پر وہ کامیاب ہوگئی ۔ یعنی جے ڈی یو کو جہاں ۸۲ فیصد
کامیابی ملی وہیں بی جے پی کے حصے میں ۸۹ فیصد کامیابی آئی۔ اب کی باریہ
ثابت ہوا کہ اگر دونوں برابر نشستوں پر انتخاب لڑتے تو یقیناً بی جے پی کا
وزیر اعلیٰ ہوتا لیکن نتیش کمارکو ان کی مکاری نے وزیر اعلیٰ بنایا ۔
۲۰۱۴ کے پارلیمانی انتخاب میں جنتا دل (یو) نے بی جے پی کو طلاق دے دی اور
اکیلے انتخاب لڑا ۔ اس الیکشن میں بی جے پی نے نتیش کمار کو دال آٹے کا
بھاؤ دکھا کر برہنہ کردیا۔ مودی لہر میں جے ڈی (یو) کی مدد کے بغیر جہاں
بی جے پی کو ۲۲نشستوں پر کامیابی ملی وہیں نتیش کمار کو صرف ۲ پر اکتفاء
کرنا پڑا۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا قومی سطح کے انتخاب میں دونوں کے اندربہت
وسیع خلیج ہے ۔ ۲۰۱۵ کے اندر ہونے والے اسمبلی الیکشن سے قبل آر جے ڈی سے
بیاہ رچا کر جے ڈی (یو) مہاگٹھ بندھن یعنی عظیم اتحاد میں شامل ہوگئی ۔ اس
میں اسے صرف ۱۰۱ نشستوں پر الیکشن لڑنے کا موقع ملا اور اس نے ۷۱ پر
کامیابی درج کرائی جبکہ آر جے ڈی نے بھی اتنی ہی نشستوں پر انتخاب لڑ کر
۸۰ پر کامیابی حاصل کرلی۔ اس وقت انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ تیجسوی یادو
کو وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز کیا جاتا مگر بی جے پی کے ساتھ مل جانے کا
خوف دلا کرنتیش کمار کم نشستوں کے باوجود وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یعنی پھر سے
بلیک میلنگ کا ہتھیار استعمال ان کے کام آیا ۔ جنتا ادل (یو) کے بغیر بی
جے پی کو ۱۵۷ نشستوں پر الیکشن لڑنے کا سنہری موقع ہاتھ لگا لیکن اس نشستیں
گھٹ کر ۵۳ پر آگئیں ۔ یعنی جہاں جے ڈی (یو) کی کامیابی شرح ۷۰ فیصد تھی
وہیں بی جے پی کی گھٹ کر ۳۵ فیصد پر آگئی ۔ بی جے پی کو جے ڈی یو کے بغیر
صوبائی انتخاب میں زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
جنتا دل (یو) اوربی جے پی کو اپنی اپنی ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۵ کی شکست کے بعد
احساس ہوگیا کہ ایک دوسرے کے بغیر ان کی دال نہیں گلتی ۔ ۲۰۱۷ میں نتیش
کمار نے پھر ایک بارطلاق لی اور عظیم اتحاد کو چھوڑ کر قومی جمہوری اتحاد
سے بیاہ رچا لیا۔ قومی سطح پر شرمناک شکست کے بعداین ڈی اے کے اندر نتیش
کمار کی حیثیت بدل گئی تھی اور وہ پتی پرمیشور سے دھرم پتنی کے مقام پر
آگئے تھے مگر مہاگٹھ بندھن کے نان نفقہ یعنی ۷۱ نشستوں کی بدولت وزیر اعلیٰ
بن کر اپنے شوہر کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے رہے ۔ امیت شاہ کو رقیب روسیاہ
کے ساتھ نکل جانے کی دھمکی دے کر اپنے ناز نخرے اٹھانے پر مجبور کرتے رہے۔
۲۰۱۹ میں نتیش کمار نے بی جے پی سے ۱۷ سیٹیں چھین لیں اور اس کو صرف ۱۷ پر
لڑنے کی اجازت دی۔ یہ سراسر بلیک میلنگ تھی لیکن کل یگ کے چانکیہامیت شاہ
کو نتیش کے آگے جھکنا پڑا ۔ انتخابی نتائج میں پھر ایک بار بی جے پی کی
فوقیت ثابت ہوگئی ۔وہ سبھی ۱۷ نشستوں پر کامیاب ہوگئی مگر جنتا دل (یو) کو
صرف ۱۶ پر کامیابی ملی۔ اس بار رام ولاس پاسوان نے پوری ۶ سیٹیں جیت کر
ثابت کردیا کہ کامیابی کی شرح میں وہ نتیش کمار سے بہتر ہیں۔
بی جے پی کے سامنے فی الحال دو اہداف ہیں ۔ اول تو اقتدار میں آنا اور اس
سے بھی اہم یہ ہے کہ اپنی قوامیت کو قائم رکھنے کے لیے اپنا وزیر اعلیٰ
بنانا یعنی نتیش کمار کو ان کی حیثیت دکھانا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جے ڈی
(یو) کوکم سے کم نشستوں پر انتخاب لڑنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ کم سیٹوں
پر کامیاب ہو سکے۔ اس سازش میں بی جے پی نے اپنی بہن لوک جن شکتی پارٹی کو
شامل کرلیا ہے۔ چراغ پاسوان نام کی نندنے بھائی امیت شاہ کی شئے پر اندرونِ
خانہ اپنی بھابی کا جینا حرام کیاہواہے ۔ وہ ۱۴۳ نشستوں پر انتخاب لڑنے کی
تیاریاں کررہے ہیں۔ اس بات پر وہ این ڈی اے الگ ہونے کے لیے بھی تیار ہیں ۔
نتیش کمار بھی چاہتے ہیں پاسوان این ڈی اے سے الگ ہوجائیں تاکہ وہ زیادہ
نشستوں پر انتخاب لڑ سکیں ۔ چراغ پاسوان نے الگ ہوکرانتخاب لڑ نے کا فیصلہ
کرلیا ہے اور رام ولاس پاسوان کے انتقال سے انہیں امید ہے کہ ہمدردی کے کچھ
ووٹ بڑھ جائیں گے ۔ وہ نتیش کے خلاف امیدوار کھڑا کرکے جنتا دل (یو) کو
باہر سے ہراکر بی جے پی کو بلاواسطہ فائدہ پہنچائیں گے لیکن این ڈی اے کی
آپسی سرپھٹول کا فائدہ آر جے ڈی کو بھی ہوسکتا ہے ۔ بہار الیکشن کا نتیجہ
کیا ہوگا اس کی پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ’’ نند
بھاوج کی یہ تو تو میں میں‘‘ اس بار خاصی دلچسپ ہوگی ۔ |