قوم نہیں سورہی ہے !!!

ہماری تحریروں کو پڑھنے کے بعد اکثرلوگ کہتے ہیں کہ قوم سوئی ہوئی ہے انہیں جگانے کی ضرورت ہے ، لیکن روزمرہ کی زندگی میں قوم کو جس طرح سے اورجس قدر قریب سے ہم دیکھ رہے ہیں اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ قوم نہیں سورہی ہے بلکہ سونے کا ناٹک کررہی ہے۔ اگر قوم سوئی ہوئی ہوتی تو یقیناً اسے جگایا جاسکتا تھا لیکن یہ سونے کا ناٹک کررہی ہے تو کیسے انہیں جگایاجاسکتا ہے۔ علمی، سیاسی، معاشی، اقتصادی، سماجی اورمذہبی اعتبار سے اس وقت مسلمان جتنے چالاک اوربیدار ہیں وہ بیس پچیس سال پہلے نہیںتھے۔ اگر اس وقت کے مسلمان سوئے ہوئے ہوتے اور لاعلم ہوتے تو آسان کمائی کمانے کیلئے اسلامی تجارت کے نام پر آئی ایم اے، ہیرا گولڈ، اجمیرہ ومکہ گروپس جیسی کمپنیوں میں اپنے کروڑوں روپئے سرمائے کے طور پر نہ ڈالتے اورنہ ہی ان دھوکے بازوں سے دھوکا کھاتے، یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ چالاکی سے اپنی اپنی رقومات بروقت نکال چکے ہیںاوریہ لوگ بھی ایک طرح سے چالاک ہی ہیں۔ بھلا بتائے کہ اس میں سونے والی قوم کونسی ہے ؟۔نہ سرمایہ لینے والے نہ سرمایہ دینے والے سوئے ہوئے ہیں۔ ہمارے سماج میں تعلیمی اداروں کا رحجان بھی بڑھ رہا ہے۔ عیسائی تعلیمی اداروں کا رخ کریں وہاں پر 40 فیصد طلباء ہندو، 40 فیصد طلباء مسلم اور20 فیصد طلباء عیسائی ہوتے ہیں۔ اب اس میں بتائیں کہ اگر مسلمانوں کی قوم سوئی ہوئی ہوتی تو کیا وہ مسلم تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر عیسائی تعلیمی اداروں میں داخلے دلواتی؟۔ یہ صرف عیسائی مشنری اسکولوں کی بات نہیں بلکہ ہندوئوں کے تعلیمی اداروں کی بھی بات ہے، یہاں تک کہ مٹھوں میں کے تعلیمی اداروں میںبھی مسلمانوں کی کثیر تعداد تعلیم حاصل کررہی ہے۔ مدرسوں کی بات کریںتو وہاں پر گھر کے شریر بچے ، غریب بچے، کند ذہین بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر بچے چالاک ہوں، مالدارہوں، شریف ہوں تو ان بچوں کو کون دینی تعلیمی اداروں میں داخلہ دلواتا ؟ ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ قوم نہیں سورہی ہے،بلکہ چالاک ہے۔ اسی وجہ سے اچھا مال اپنےپاس رکھ کر بُرامال دوسروں کو دےرہی ہے۔ آگے بڑھتے ہیں توہم دیکھیں گے کہ ہماری قوم کے نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ اپنی تعلیم مکمل ہوتے ہی، بیرونی ممالک کا رخ کرتا ہے۔ پھر ایک حصہ سرکاری محکموں میں جانے کی کوشش کرتا ہے اگر اسے اس میں کامیابی نہیں ملتی ہے تو بیرونی ممالک کو ہی جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ قوم نہیں سورہی ہے، بلکہ جاگ رہی ہے۔ اب تک اسمارٹ فون آنے کے بعد تو اوربھی زیادہ اسمارٹ ہوگئی ہے۔ پہلے دین سیکھنے کیلئے علماء کا سہارا لیتی تھی لیکن اب گوگل کا سہارا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین داری بھی پوری نہیں ہے لیکن دیندار ہوچکے ہیں۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ قوم کو بیدار کرنے کیلئے جو تنظیمیں وادارے قائم ہوئے ہیں وہی تنظیمیں اب بھی مسلمانوں کا ایک طرح سے ذہینی استحصال کررہی ہیں۔ جس قوم کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں اعلیٰ عہدوں پر مامور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے تھی اسی قوم کو آج حق کا مطالبہ کروانے کیلئے سڑکوں پر جھنڈے دے کر اتار گیا ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ لوگ کس کے لئے اورکس وجہ سے سڑکوں پر ہیں۔ اگر تنظیموں کےذمہ داران سوئے ہوئے ہوتے تو یہ کام ہرگز نہ کرتے۔ ضرورت قوم کی جگانے کی نہیں ہے بلکہ یہ قوم کو یہ بتانے کی ہے کہ تم سوئی ہوئی قوم نہیں ہو بلکہ زندہ دل قوم ہو۔ تمہاری شناخت سبزیوں کے ٹھیلوں سے، مچھلیوں کے ڈبوں سے نہیں ، ناہی سرکاری عہدوں پر فائزہ ہوکر وقت گذاری کرنے سے ہے۔ بلکہ انسان بن کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے انسانیت پر قائم رہنا اوراچھے برے کی تمیز کرنا ہے۔ جب اچھے برے کی تمیز کا احساس ہوجائےگا تو خود بخود سوئی ہوئی قوم ہی جاگ جائےگی اورسونے کا ناٹک کرنے سے بھی یہ قوم گریز کریگی۔ اب ہمیں اپنی سوچ ، اپنی محنت، اپنے خیالات کے رخ کو موڑنے کی ضرورت ہے۔ روایتوں کو چھوڑ کر حقیقتوں میں جینا سیکھیں، غیروں سے امدیں نہ لگائیں بلکہ اپنوں پر یقین رکھیں، غیروں سے تعلقات رکھیں ، لیکن اپنوں کو آباد کریں۔ جو آپ سے قیادت کی امید رکھتے ہیں اس امید کو پورا کریں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ ہویا ٹیپو سلطان ؒ ، ارتغرل غازی ہویا عمرالمختار یہ تمام بھی انسان ہی تھے اور انہیں لوگوں نے تاریخ رقم کی تھی ، یہ وہ مخلوق نہیں جو آسمانوں میں رہتی ہے۔ جب ہمارے سامنے ہرچیز واضح ہے اورہرچیز کا ہمیں علم ہے تو کیونکر سونے کا ڈھونگ کررہے ہیں؟۔ درحقیقت ہم جاہل، کاہل اورسست ہوچکے ہیں۔ جسم کو حرکت دینا، عقل کو جنبش دینا ، نسلوں کو طاقت دینا ہمارا شیوا نہیں رہا جس کی وجہ سے پوری قوم ذلیل وخوار ہورہی ہے۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.