۲ ؍ اکتوبر۱۸۶۹ مہاتما گاندھی کا یوم ِ پیدائش ہے ۔
گاندھی جی اگر اب تک حیات ہوتے تو ان کی عمر ۱۵۰ سال ہوجاتی ۔ اس لیے
حکومتِ ہند نے یہ سال گاندھی جی کے حوالے سےمنایا اور کئی خصوصی تقریبات کا
انعقاد کیا ۔ اس کے ابتداء میں وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کو یہ پیغام
دیا کہ :’’ہندوستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے
کہ صفائی کی بابت گاندھی جی کے نصب العین کو ۲۰۱۹ میں ۱۵۰ ویں سالگرہ کے
موقع پر پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون کریں ‘‘۔ یہ نہایت افسوس کا مقام
ہے کہ مودی جی کی بی جے پی نے گاندھی جی شخصیت کو صفائی ستھرائی مہم تک
محدود کردیا ہے اور سماج و معاشرے سے متعلق ان کے افکار و نظریات کو کوڑے
دان میں ڈال دیا۔ گاندھی جی کی عینک کے ایک شیشے پر سوچھّ اور دوسرے پر
بھارت لکھ کر پچھلے ۶ سالوں سے جو پاکھنڈ کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر سر شرم
سے جھک جاتا ہے ۔ ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں کہ جب صاف ستھرے مقام پر
پہلے کچرا منگوایا گیا اور پھر اس صاف کرنے کا ناٹک کرکے ویڈیو بنائی گئی ۔
وقت کے ساتھ اب اس کو دیکھنے والے اور کرنے والے دونوں اوب چکے ہیں ۔
گاندھی جی کے ساتھ حکومت کا یہ سلوک دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد
آتا ہے ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
گاندھی جینتی سے دس دن قبل ایوان پارلیمان کے اندر صفائی سے متعلق
ایکسرکاری رپورٹ پیش کی گئی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سی اے جی کی رپورٹ
میں بدعنوانی کی گندگی پائی گئی۔ مرکزی حکومت کے ایماء پر مختلف وزارتوں کے
تحت 2,162.60 کروڈ روپئے کے خرچ سے درسگاہوں میں جملہ 1,30,703 بیت الخلا
تعمیر کیے جانے تھے ۔ کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل نے پندرہ صوبوں کے2,048
اسکولوں میں جانچ کی تو پایا کہ کچھ تو موجود ہی نہیں ہیں اور کچھ نامکمل
ہیں۔ ایسے بیت الخلا بھی ہیں جو تکمیل کے باوجود استعمال میں نہیں ہے۔ کہیں
پانی کی سہولت نہیں ہے تو کہیں ہاتھ دھونے کا بندوبست ندارد ہے۔ کئی مقامات
تعمیر ناقص ہے اور وہ ناقابل استعمال ہیں ۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ
ان کی دیکھ بھال ٹھیک سے نہیں کی جارہی ہے۔ عوام سے تعاون مانگنے والی
مرکزی حکومت کا اپنا یہ حال ہے کہ اس نےخود صرف ۶۵ فیصد کام کرکے ۳۵ فیصد
صوبائی حکومتوں کے سرمار دیا ۔ اس میں سے بھی کل ہدف کا صرف ۳۳ فیصد کام
مکمل ہوسکا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا بابائے قوم کو یہ عملی خراج عقیدتہے
۔
اس سال پھر رسم کی ادائیگی کے لیے صدر مملکت رام ناتھ کووند نے گاندھی
جینتی کے دن ٹویٹ کرکے لکھا کہ ’’گاندھی جینتی کے دن ممنون ملک کی جانب سے
بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں‘‘۔ صدر جمہوریہ نے
اعلان کیا کہ :’’ ان کی سچائی ، عدم تشدد اور محبت کا پیغام معاشرے میں ہم
آہنگی پیدا کرکے پوری دنیا کی فلاح و بہبود کا سرچشمہ بنے ہوئے ہیں۔‘‘ صدر
کووند جس دنیا کی بات کررہے ہیں اس میں غالباً اترپردیش نہیں ہے جہاں
ہاتھرس کے اندر عوام اور صوبائی حکومت نے مل کر سچائی ، عدم تشدد، محبت اور
معاشرتی ہم آہنگی کی چتا نصف شب میں جلادی ْ۔ہاتھرس کی بیٹی منیشا کے اعزہ
و اقارب روتے پیٹتے رہ گئے ۔ رام ناتھ کووند کا تعلق نہ صرف اتر پردیش بلکہ
پسماندہ ذات سے بھی ہے اس کے باوجود وہ اپنی برادری کے لڑکی پر ہونے والے
اس ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت وہ نہیں کرسکے اور
نہ تعزیت کی ۔ ملک کا اولین شہری اگر اس قدر خوفزدہ تو ہو باقی لوگوں کا
کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے۔ اس بے حسی کے بعد یہ الفاظ
کہ ’’آئیے ہم سب ایک بار پھر گاندھی جینتی کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہمیشہ
حق اور عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی ، ایک
صاف ستھرا ، خوشحال ، مضبوط اور ایک جامع ہندوستان بنا کر ہم گاندھی جی کے
خوابوں کی تعبیر دیں گے‘‘ بے معنیٰ معلوم ہوتے ہیں ۔
گاندھی جینتی کے دن وزیر اعظم نریندر مودی نے صرف ٹویٹ پراکتفاء نہیں کیا
بلکہ وہ صبح صبح گاندھی جی کی سمادھی راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور گلہائے
عقیدت پیش کیا۔ صدر کووند کو نہ تو انتخاب لڑنا ہے اور نہ جیتنا ہے اس لیے
وہ ٹیلی ویژن پرگاہے بہ گاہے نظر آنے کی مجبوری سے بے نیاز ہیں مگر مودی
جی کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ اسی لیے وہ ذرائع ابلاغ میں آنے کا کوئی
موقع نہیں گنواتے بلکہ مصیبت میں بھی مواقع تلاش کرلیتے ہیں ۔ سمادھی پر
جانے سے قبل انہوں نے گاندھی جی کو یاد کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا’’گاندھی جینتی
پر ہم پیارے باپو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی زندگی اور عظیم خیالات
سے بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ باپو کے نظریات خوشحال اور مہربان ہندوستان
بنانے میں ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے‘‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے اچھے انداز میں گاندھی جی کے نظریات و خیالات
کا ذکر کرکے اعتراف کیا کہ بہت کچھ سیکھنا باقی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فی
الحال گاندھیائی نظریات صرف کتابوں کے اندر بند ہوکر رہ گئی ہیں ۔ مودی جی
سے اگر کوئی پوچھے کہ گاندھی جی کیا چاہتے تھے تو ان کا جواب ہوگا کہ وہ
رام راج چاہتے تھے ۔ فی الحال چونکہ گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے وارث
برسر اقتدار ہیں۔ گوڈسے کو اپنے لیے نمونہ سمجھنے والی پرگیہ ٹھاکر رکن
پارلیمان ہے اس لیے رام راج کا نام آتے ہی سنگھ کے پیش کردہ تصورات ذہن
میں آ جاتے ہیں۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ گاندھی جی کے نزدیک رام راج کا
کیا مطلب تھا ؟ انہوں نے لکھا تھا ’رام راج سے میری مراد ہندو راج نہیں ہے۔
میرے نزدیک رام راج کا مطلب خدا کی ربانی(divine) حکومت ہے۔ میرے لیے رام
اور رحیم ایک ہی معبود ہے۔ میں ایک کے سوا کسی کو خدا نہیں مانتا ، سچائی
اور راستبازی کا خدا‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی کیا ان خیالات سے کچھ سیکھیں
گے اور اس کی رہنمائی میں ملک کو خوشحال بنانے کی سعی کریں گے؟
گاندھی جی نے اپنی ایک تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’ میرے تصور کا رام
چاہے اس دنیا میں رہا ہو یا نہیں، بے شک رامائن کا قدیم نمونہ ایسی حقیقی
جمہوریت ہے، جس میں غریب ترین شہری کو بغیر پیچیدہ اور مہنگے ضابطوں کے
سرعت کے ساتھ انصاف کا یقین ہو‘‘۔ وزیر اعظم کو اپنے ضمیر سے یہ سوال کرنا
چاہیے کہ اس کسوٹی پر فی الحال ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟ کیا ہاتھرس کی بیٹی
منیشا والمیکی کو بھی جیوتی سنگھ عرف نربھیا کی مانند انصاف ملے گا؟ کیا اس
کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بھی پھانسی چڑھایا جائے گا یا انہیں بچا لیا
جائے گا کیونکہ وہ ٹھاکر ہیں اور وزیر اعلیٰ اپنی برادری کو ناراض کرنے کا
خطرہ مول نہیں لینا چاہتے؟ منیشا والمیکی راجپوت نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق
اس پسماندہ سماج سے ہے جس پر پچھلے پانچ ہزار سالوں سے ظلم و ستم روا رکھا
گیا ہے۔ گاندھی جی لکھتے ہیں :’’ شاعر کے مطابق کتے کو بھی رام راج میں
انصاف ملا‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یوگی کے رام راج میں دلتوں کو یعنی
انسانوں کو بھی انصاف ملے گا یا نہیں؟
پچھلے سال دسمبر میں شہر حیدرآباد کے سائبر آباد علاقہ کے اندر ایک 26سالہ
وٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کے قتل اور لاش کو جلادینے کی
واردات ہوئی ۔ ہاتھرس میں یہ دونوں کام ملزمین اور پولس کے اشتراک سے ہوئے۔
عصمت دری چار اوباش نوجوانوں نے کی اور لاش کو پولس نے جلایا لیکن اس کے
چند روز بعد واردات کی دوبارہ منظر کشی کے لئے لے ملزمین اس مقام پر لے
جایا گیا۔ اس کام کے کے لیے حیرت انگیز طور پر رات ۳ بجے کا وقت منتخب کیا
گیا۔ اس کے بعد حکام نے بتایا کہ ملزمین نے بھاگنے کی کوشش کی تو پولیس
عہدیداروں نے ان پرفائرنگ کردی اور شادنگر کے قریب پولیس کے تیناہلکار بھی
زخمی ہوئے ۔ اس انکاونٹر پر لاکھ اعتراض کے باوجود ملک بھر میں خوشی کا
اظہار کیا گیا۔ اترپردیش کی پولس تو انکاونٹر کے لیے ساری دنیا میں مشہور
ہے۔یو گی ڈھٹائی سے ’ٹھوک دینے ‘ کی ترغیب دیتے ہیں۔ابھی حال میں وکاس دوبے
اور اس کے ساتھیوں کو ڈنکے کی چوٹ پر فرضی انکاونٹرس میں ہلاک کیا گیا ہے
تو ایسے میں منیشا کی آبرو ریزی اور قتل کرنے والوں کا انکاونٹر ابھی تک
کیوں نہیں ہوا؟
وزیر اعظم نریندر مودی کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کیونکہ گاندھی جی نے
یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ میرے خوابوں کے رام راج میں راجہ اور رنک کے لیے
یکساں حقوق کی یقین دہانی ہے‘‘۔ اگر ایسا ہے تو حیدر آباد کی ڈاکٹر اور
ہاتھرس کی مظلومہ کے ساتھ دوہرا سلوک کیوں ہورہا ہے ؟ اس کے قاتل کیوں زندہ
گھوم رہے ہیں؟۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ کو ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل
کردیا لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ہاتھرس کا سانحہ دیکھ کر ان کا ہارٹ
فیل ہوگیا ہوتا۔ گاندھی جی کے آخری الفاظ ’ہے رام‘ تھے کیونکہ وہ اس ملک
میں رام راج قائم کرنا چاہتے تھے ۔سوئے اتفاق سے گوڈسے نے انہیں رام راج
قائم کرنے کی خاطر ہی قتل کیا تھا۔ ہاتھرس کا ظلم گواہ ہے کہ یوگی کے رام
راج نے گاندھی جی کے رام راج کا خاتمہ کردیا ہے۔ اس لیے جب راہل گاندھی نے
اس موقع پر اپنے پیغام میں گاندھی جی کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا تو ایسا
محسوس ہوا کہ گویا وہ یوگی اور مودی سرکار پر تنقید کررہے ہیں :’’میں دنیا
میں کسی سے نہیں ڈروں گا ... میں کسی کی ناانصافی کے سامنے نہیں جھکوں گا ،
میں جھوٹ کو سچائی سے جیتوں گا اور جھوٹ کی مخالفت کرتے ہوئے میں تمام
مصائب کو برداشت کرسکوں ‘‘۔
بی جے پی کے سابق سکریٹری اور سنگھ کے دانشور رام مادھو نے گاندھی جینتی کی
آڑ میں ایک مضمون لکھ کو مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے انڈین
ایکسپریس کے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’گاندھی ازم آزادی اور تزکیہ نفس پر
یقین کرنے کا نام ہے۔ آمریت کا فروغ حکومت کی جابرانہ قوت ، ذرائع ابلاغ
اورمسلسل پروپگنڈہ اور چاپلوس نشانہ باز وں سے ہوتا ہے ۔ گاندھی نے ناقدین
کا احترام کیا لیکن آمر اختلاف کو برداشت نہیں کرسکتے وہ اپنے خول میں
خوشامدیوں سے گھرے رہتے ہیں ‘‘۔ اس بیان کا ایک ایک لفظ مودی کی جانب اشارہ
کرتا ہے۔ اس کے بعد رام مادھو مثالوں کے ذریعہ اپنی بات واضح کرتے ہوئے
لکھتے ہیں ’’ ہٹلر اور اسٹالن کی یہی کہانی ہے۔ ۱۹۳۳ میں ہٹلر نے اعلان
کردیا کہ حکومت میں پارٹی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس نے اپنے آپ کو ماہرین
سے گھیر لیا اور جو رہنما سامنے آیا اسے تاریخ کی یادداشت میں درج کردیا۔
اسٹالن نے پارٹی کے اندر اپنے حریفوں اور مخالفین سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو
ہٹانا شروع کیا ۔ ۱۹۳۴ میں اس کی ابتداء سرگی کوروف کے قتل سے ہوئی اور
اختتام ۱۹۴۰ میں لیون ٹروسکی کی ہلاکت پر ہوا۔ اپنی مہم میں ہٹلر اور
اسٹالن نے حکومت کی طاقت اور میڈیا پر مکمل انحصار رکھا‘‘ اب یہی مودی
کررہے ہیں۔
رام مادھو کو حال میں بی جے پی نے ان کے عہدے سےمحروم کردیا ہے۔ وہ لکھتے
ہیں’’ آج کی دنیا میں جمہوریت کا خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ عوام کی آزادی
خطرے میں ہے۔ گاندھیائی ایجنڈا ہمیشہ زیادہ کھلے پن، آزادی، اور ایک عزت و
وقار کی زندگی میں ہے۔ ایک مہربان ریاست اور آزاد ذرائع ابلاغ عوام کی
آزادی کے لیے لازمی ہیں‘‘۔ سنگھ کے راج میں مسلمانوں کو یہ بات یاد دلانی
پڑے گی سب جانتے تھے لیکن آر ایس ایس کے ایک دانشور کویہ کہنے پر مجبور
ہونا پڑے گا کون جانتا تھا؟ رام مادھو اپنے مضمون کے اختتام میں گاندھی جی
کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’’میں وہ کہتا ہوا چلا جاوں گا جو کہہ رہا ہوں،
لیکن ایک دن لوگ مجھے یاد کریں گے کہ یہ غریب جوکہتا تھا وہی سچائی تھی‘‘۔
رام مادھو نے اپنے من کی بات گاندھی جی الفاظ میں بیان کردیاور لکھا
’’گاندھی ازم اس بات کی معرفت ہے کہ گاندھی درست تھے‘‘۔ مودی راج کے اوپر
رام مادھو کا یہ تبصرہ گاندھی اور مودی کے رام راج میں فرق کو واضح کرتا
ہے۔ والمیکی رشی نے تریتا یگ میں حاملہ سیتا کو اس وقت پناہ دی جب راجہ رام
نے رائے عامہ کے دباو میں اپنی اہلیہ کو محل سے نکال دیا تھا۔ اس کے بعد
رام کے بیٹوں لو اور کش کی اپنے آشرم میں پرورش کی ۔ آگے چل کر رامائن
بھی لکھی ۔ کون جانتا تھا کہ سنگھ کے رام راج میں والمیکی کے نام لیوا سماج
کی منیشا کے ساتھ ایسا سفاکانہ سلوک ہوگا لیکن ایسا ہوا کیونکہ یہ گاندھی
کا نہیں مودی کا رام راج ہے۔ |