پاکستان میں حالیہ سیلاب ملک کی
اقتصادی تباہی کا باعث ہی نہیں بنا جس میں اربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں
بہہ گئیں اور دو کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے، بلکہ اس میں حکومت کی
ساکھ اور اعتبار بھی بہہ گیا۔ اس بحران کے دوران کسی بھی سطح پر (مقامی یا
بین الاقوامی) حکومت پر اعتماد و اعتبار کہیں نظر نہیں آیا۔
سیاسی پارٹیوں کی درخواستوں اور وعدوں کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت
امدادی رقم کو منصفانہ اور شفاف طریقے سے استعمال کرنے کے لیے کوئی قابلِ
اعتماد ادارہ یا میکانزم قائم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
ایسے وقت جب سول سوسائٹی اور مذہبی تنظیمیں سیلاب زدگان میں بھوک اور
بیماریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں تو
حکومت ہمیشہ کی طرح صرف غیر ملکی امداد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر
بیٹھی ہوئی ہے۔
اس پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بین الاقوامی کمیونٹی اور خود ساختہ
فرینڈز آف پاکستان نے سیلاب زدگان کے لیے لاکھوں ڈالر امداد کا وعدہ کیا ہے
مگر وہ اُس وقت تک ایک پینی بھی دینے سے ہچکچارہی ہیں جب تک حکومت انہیں یہ
یقین دہانی نہ کرادے کہ امداد کی ضمن میں ملنے والی امداد شفاف طریقے سے
مستحق افراد میں تقسیم کی جائے گی۔
نیوز رپورٹوں کے مطابق ورلڈ بینک نے واضح طور پر یہ اشارہ دیا ہے کہ اُس کی
جانب سے فراہم کی گئی رقم امداد کی شفاف طریقے سے تقسیم کے لیے میکانزم طے
کرنے سے مشروط ہوگی۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسا میکانزم ہے جو حکومتِ پاکستان
قائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یہ بھیڑیوں کو بھیڑوں کی رکھوالی کے لیے
کہنے کے مترادف ہے۔
ہمارے سیاسی رہنما اور اعلیٰ شخصیات کرپشن کی جس بلندی کو چھو رہے ہیں، وہ
تمام بین الاقوامی سطح پر بدنامی کا باعث ہے۔ 2005ءمیں زلزلے کے دوران
موصول ہونے والی امدادی رقم کا غلط استعمال اب تک ڈونرز کے ذہن میں تازہ
ہے۔ تقریباً تمام ڈونرز کے پاس بتانے یا چھپانے کے لیے کرپشن کی کہانیاں
موجود ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ 27 رکنی یورپی
یونین کے ارکان میں سے 9 یورپی یونین ممالک نے تاحال سیلاب زدگان کے لیے
کسی امدادی رقم کا اعلان نہیں کیا ہے، جب کہ ایسے ممالک جنہوں نے 230 ملین
یورو فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ حکومت کو نقد امداد دینے سے ہچکچا رہے
ہیں۔
امریکا سیلاب زدگان کو امداد کی فراہمی میں سبقت لے جاتا نظر آتا ہے، تاہم
یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ امریکا کی جانب سے جس امداد کا اعلان کیا گیا
ہے وہ اُس رقم کا 50 فیصد بھی نہیں جو وہ بلیوں اور کتوں کی بہتری کے لیے
ہر سال خرچ کرتا ہے۔
امریکا بھی زرداری حکومت پر اعتماد کرتا نظر نہیں آتا۔ اس کی بیشتر امداد
کے لیے فنڈز اقوامِ متحدہ کے تحت خرچ ہوں گے۔ امریکا نے اب تک سیلاب زدگان
کی امداد کے لیے نقد امداد فراہم نہیں کی ہے۔
سیلاب نے امریکا اور اس کی حریف مذہبی جماعتوں بالخصوص کالعدم مذہبی
تنظیموں کو ایک سنہری موقع فراہم کیا تھا کہ لوگوں کو امداد کی فراہمی پر
ایک دوسرے سے مسابقت کریں۔
امریکا پر دباؤ ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے، کیوں کہ مذہبی جماعتیں
حکومت کی نااہلی کے باعث سیلاب زدگان کی بروقت امداد کرے، متاثرین کے دل
میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کررہی ہیں جب کہ ملک کے لیڈر ٹیکس دہندگان کی
رقم سے نجی اثاثوں کے تحفظ کے لیے غیر ملکی دورے کررہے ہیں۔
سیاسی رہنما بہ شمول ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈر واضح طور پر پناہ گزین
کیمپوں سے غائب تھے، کیوں کہ وہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے
ڈیمز اور سیلابی گیٹس توڑنے میں مصروف تھے تاکہ ان کی جائیدادیں اور زرعی
زمینوں کو بچانے کے لیے سیلابی پانی کا رخ اُن کے غریب ووٹروں کے دیہاتوں
اور اسکولوں کی جانب موڑا جاسکے۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاکستانی عوام اور بین الاقوامی ڈونرز اُس سیاسی لیڈر
شپ پر اعتماد کرے جس نے اپنے اثاثے اور مکانات بچانے کے لیے اپنے ہی لوگوں
کو سیلابی پانی کی نذر کردیا۔
حالیہ سیلاب بہت کچھ بالخصوص سیاسی لیڈروں کا اعتماد و اعتبار بہا کر لے
گیا۔ مشرف اور زرداری جیسے لیڈروں نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے آٹے میں
نمک کے برابر امداد دی ہے، جب کہ اپنے اقتدار کے ذریعے انہوں نے بے حساب
مال کمایا۔
بین الاقوامی برادری کو بھی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اپنی مخلصانہ سوچ
کا اظہار کرنے کے لیے امدادی رقم پاکستان کی سول سوسائٹی کے ذریعے خرچ کرنی
چاہیے۔ |