عوامی جمہوریہ چین نے حالیہ عشروں کے دوران
جو شان دار اقتصادی ترقی کی ہے، ا س سے پوری دنیا ایک حیرانی میں مبتلا ہے۔
تاہم چین کے صنعتی ترقی شنگھائی اور دیگر ترقی یافتہ شہروں میں بھرپور
اقتصادی ترقی کی مرہونِ منت ہے۔ اب چین اپنے دُور دراز کے مغربی شہر کاشغر
کو ملک کا اہم تجارتی مرکز بنانے کا خواہش مند ہے۔ کاشغر ایک ریگستانی شہر
ہے، جو کہ افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں سے دُور واقع ہے۔ ستمبر میں
بیجنگ سے کاشغر کے لیے بلاواسطہ پروازوں کا آغاز کردیا گیا ہے جس میں 6
گھنٹے سے زائد وقت لگتا ہے۔
2008ءمیں کاشغر کی اوسط آمدنی 1000 ڈالر سالانہ تھی جو کہ چین کے دُور دراز
کے پسماندہ شہروں سے بھی کم ہے۔ یہ علاقہ نسلی تنازعوں کی زد میں رہا ہے۔
کاشغر میں اکثریت مسلمانوں یوئی غورس (Uighurs) کی ہے۔ 40 لاکھ کی یہ آبادی
اپنے ہی وطن میں نچلا طبقہ شمار کی جاتی ہے۔ نسلی، ثقافتی اور جمالیاتی طور
پر یہ چین کے کم تر شہروں میں سے ایک ہے۔ چینی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں
ایک چینی تجزیہ کار ولی لام کا کہنا ہے کہ کاشغر وسیع تکلی ماکن (Taklimakan)
صحرا کی وجہ سے جغرافیائی طور پر پورے چین سے الگ تھلگ ہے، درحقیقت کاشغر
کا شہر اہم خصوصیات کا مرکز نہیں ہے۔
اب مرکزی حکومت کاشغر کی اس ہیئت کو تبدیل کرنے کی خواہش مند ہے۔ یہ امر
قابلِ ذکر ہے کہ کاشغر سے بیجنگ تک کی پرواز میں وہی وقت لگتا ہے جو امریکا
کے مغرب سے مشرقی ساحل تک جانے میں صَرف ہوتا ہے۔ بیجنگ کاشغر کو چین کا
لاس اینجلس بنانے کا خواہش مند ہے جو کہ مجوزہ منصوبوں پر عمل درآمد کے
نتیجے میں دوردراز کے مغربی حصے میں علاقائی اقتصادی مرکز میں تبدیل ہوجائے
گا۔ بیجنگ فی الوقت کاشغر کی مقامی معیشت کو فروغ دینے، جب کہ وسطی ایشیا
اور یورپ سے تجارتی تعلقات مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنی پوری توجہ اور
وسائل کا استعمال کررہا ہے۔ اس کا ایک مقصد یوئی غور مسلم اکثریت میں پائی
جانے والی بے چینی کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔
2009ءمیں چین کی مرکزی حکومت نے علاقہ کو بڑی تعداد میں سبسڈیز اور دیگر
رعایتیں دیں، تعمیراتی منصوبوں کے لیے پچھلے سال 7 ارب 40 کروڑ ڈالر فراہم
کیے گئے۔ قبل ازیں ایک نئے ایئرلائن ٹرمنل پر 25 ملین ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔
یوئی غور مسلمانوں اور قدامت پرستوں کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود
حکومت نے ٹینڈم کے پرانے شہر میں ہزاروں مکانات منہدم کر کے متاثرہ افراد
کو 448 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی سرکاری ہاؤسنگ اسکیم میں منتقل
کردیا۔ وسائل کو متمول علاقوں سے پسماندہ علاقوں میں منتقل کرنے کی ایک
ترقیاتی اسکیم کے تحت صوبہ گوانگ ڈانگ کی حکومت آئندہ پانچ برسوں کے دوران
کاشغر کو 1.4 ارب ڈالر فراہم کرنے کی پابند ہے۔
کاشغر کو ایک ترقی یافتہ صنعتی و تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے بیجنگ
کی سنجیدگی کا ایک واضح سگنل یہ ہے کہ حکومت نے اس علاقے کو اسپیشل اکنامک
زون قرار دے دیا ہے۔ ایسا گزشتہ 15 برس کے دوران پہلی بار ہوا ہے۔ یہ حیثیت
چین میں صرف چھے علاقوں کو دی گئی ہے، ان میں زہوہائی کا شہر اور ہینان آئی
لینڈ کا سیاحتی مرکز شامل ہے۔ اسپیشل اکنامک زون کا مطلب یہ ہے کہ وہاں
پسندیدہ ٹیکس پالیسیاں، سرمایہ کاری کے مواقع اور بیرونی دنیا کے لیے کھلا
ڈھلا ماحول فراہم کرنا ہے۔ کاشغر کے معاملے میں اس کا مطلب چینی الیکٹرونک
اشیائ، خوراک اور گھریلو اشیاءکی برآمد کے بدلے وسطی اور جنوبی ایشیائی
ممالک سے خام مال حاصل کرنا ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز میں ویسٹرن چائنا ڈیولپمنٹ اینڈ ریسرچ سینٹر
کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر شین یاو کا کہنا ہے کہ بیجنگ کو امید ہے کہ کاشغر
چینی مصنوعات کی وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کو برآمد اور غیر ملکی
مارکیٹوں کی تلاش کے لیے ایک ”ونڈو“ بن جائے گا۔ پروفیسر شین یاو علاقائی
امور پر چینی حکومت کو مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب کاشغر پارٹی کے
سیکریٹری زینگ سن نے کاشغر کو عالمی سطح کے ایک بین الاقوامی شہر میں تبدیل
کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
کاشغر کے لیے رول ماڈل چین کا انتہائی کامیاب اسپیشل اکنامک زون شینزن ہے
جس نے اگست میں اپنی 30ویں سالگرہ منائی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1980ءمیں
شینزن مچھیروں کا ایک گاؤں تھا اور آج چین کے دولت مند ترین اور اہم شہروں
میں سے ایک ہے۔ شینزن کو حالیہ تین عشروں کے دوران ہانک کانگ اور تائیوان
دونوں سے اپنی اہم مکانیت اور تعلق کے باعث پھلنے پھولنے کا موقع ملا، تاہم
اس کی ترقی میں چینی حکومت نے اہم کردار ادا کیا، بالخصوص اسے پہلے چینی
اسپیشل اکنامک زون قرار دیے جانے کے باعث صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے آغاز
کی راہ ہموار ہوئی۔
شینزن کو چینی اقتصادی اصلاحات کا مرکز بنایا گیا، مگر یہ پہلا شہر ہے جسے
چینی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی۔ 2009ءمیں مرکزی حکومت نے
یہاں این اے ایس اے کیو کی طرز پر ایک اسٹاک ایکسچینج ”چی نیکسٹ“ (Chi
Next) قائم کیا۔ شینزن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک بینر ”شینزن سے
سیکھو“ (Learn from Shenzen) پچھلے کئی ماہ تک چین میں ماؤ کے سب سے بڑے
مجسمے کے ساتھ کاشغر کے پیپلز پارٹی اسکوائر میں آویزاں رہا۔
مرکزی حکومت اس امر کی خواہش مند ہے کہ شینزن کاشغر کے لیے صرف رول ماڈل ہی
نہ ہو بلکہ اُس سے ہر ممکن تعاون کرے۔ شینزن نہ صرف سرمایہ کاری اور میٹریل
فراہم کرے گا بلکہ ایک اسپیشل زون کے قیام میں اپنی مہارت اور تجربہ سے بھی
مستفید کرے گا۔ پروفیسر شین کے مطابق ایک نیا پارٹی سلوگن بھی تیار کرلیا
گیا ہے ”مشرق میں شینزن ہے، مغرب میں کاشغر“.... شہر کے بارے میں آرٹیکلز
معروف اخبارات میں مسلسل شائع ہورہے ہیں۔
فیودن یونیورسٹی پر اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک گورنمنٹ تھنک ٹینک
اور رشین اینڈ سینٹرل ایشین افیئرز ریسرچ سینٹر میں بہ طور پروفیسر خدمات
انجام دینے والے زہاو ہواشینگ کا کہنا ہے کہ کاشغر نے گزشتہ 10 برسوں کے
دوران تیزی سے ترقی کی ہے، تاہم یہ آنے والے 10 برسوں میں کہیں زیادہ تیزی
سے ترقی کرے گا۔ کاشغر کو سرکاری طور پر ملنے والی توجہ اور مالی امداد یہ
ظاہر کرتی ہے کہ چینی حکومت کو اس شہر کو بھی ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن
کرنے کا پورا یقین ہے جس پر شینزن رواں دواں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے
مطابق 2009ءمیں کاشغر کی معیشت 17.4 فیصد کی شرح سے بڑھی۔ سب سے زیادہ ترقی
ثانوی شعبوں میں ہوئی۔ کاشغر کے زرعی اور سروس سیکٹر سے حاصل ہونے والی
آمدنی اس کی مجموعی قومی پیداوار کا ایک تہائی سے زائد ہے۔ اسپیشل اکنامک
زون قرار دیے جانے کے بعد شہر بھر میں رِیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں قابلِ ذکر
اضافہ ہوچکا ہے۔ |