کیا 71 کی تاریخ تو پھر نہیں دہرائی جارہی؟ 14

14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا، دنیا کے نقشے میں ایک عظیم اسلامی ملک کا اضافہ ہوگیا، مشرقی مغربی پاکستان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ظلم و جبر کی رات اب غروب ہوگئی مگر انہیں کیا پتہ تھی کہ غلامی اب ختم نہیں ہوئی ہے ورنہ وہ کبھی بھی پاکستان کو بنانے کیلئے اپنے تن من اور دھن کی قربانی نہ دیتے بلکہ وہ یہ سوچ کر خاموش بھیٹھ جاتے کہ غلامی تو غلامی ہی ہے خواہ وہ انگریز سامراج کی ہوں یا اپنے لوگوں کی کیونکہ اس دن سے لیکر آج تک پاکستان اپنی منزل مقصود کے راستے پر نہیں چل پڑا ہے جس کی وجہ سے ہم بڑی قیمت مشرقی پاکستان کی صورت میں ادا کرچکے ہے اور یہ ہمارے حکمرانوں کی زاتی مفادات ، انا اور نااہلی کی وجہ سے ہم یہ کڑوا گھونٹ پی چکے ہے مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا، اس کی اصل وجہ حکمرانی کی لالچ اور نا انصافی تھی کیونکہ وہاں کے لوگوں کو ان کی بنیادی سہولیات نہیں مل رہے تھے ان کی حق تلفی ہورہی تھی,ان پر غدداری کے الزامات لگ رہے تھیں، جس کی وجہ سے ان میں مایوسی پیدا ہوئی اور اس سے بڑی حق تلفی یہ بلا کیا ہوسکتی ہے کہ جب 7دسمبر 1970 کو جنرل الیکشن ہوا جس میں کل 370 قومی اسمبلی کی سیٹیں تھی اور حکومت بنانے کیلئے سادہ اکثریت 151 سیٹیں درکار تھی اس الیکشن میں زولفقار علی بھٹو کو محض 81 سیٹ مل گئے جبکہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کو 162 سیٹیں مل گئی جس کی بنیاد پر عوامی لیگ نے سادہ اکثریت حاصل کی اور حکومت بنانا ان کا قانونی حق تھا مگر زولفقار علی بھٹو اور صدر یحییٰ خان نہیں مان رہے تھے کہ اقتدار ان کے حوالے کریں جس کے خلاف شیخ مجیب الرحمٰن جو کہ پہلے ایک محب وطن پاکستانی تھے اور کبھی پاکستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے شیخ مجیب الرحمٰن کی پاکستان سے وفاداری کے بارے میں میجر جنرل خادم حسین راجہ جو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران جی سی او 14 ویں ڈویژن تھے اپنے کتاب ( A stranger in my own) میں لکھتے ہے کہ شیخ مجیب نے اپنی 7 مارچ کی تقریر سے ایک دن پہلے یعنی 6 مارچ کی شام کو ایک بنگالی شریف آدمی کو میرے پاس بھیجا جب وہ مجھ سے ملنے آئے ان کے ساتھ سٹاف آفیسر بھی تھا میرے پاس آیا اور کہا کہ مجھے شیخ مجیب نے آپکے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ جنرل صاحب کو بتا دیں کہ مجھ پر اپنے پارٹی کے اندر کی انتہا پسندوں اور طلباء کے رہنماؤں کا دباؤ ہے وہ مجھے کہہ رہے ہے کہ آپ 7 مارچ کے جلسے میں یکطرفہ پاکستان سے آزادی کا اعلان کریں اور شیخ مجیب نے مجھے کہا ہے کہ میں محب وطن ہو میں پاکستان کے ٹوٹنے کے حق میں نہیں ہوں لہزا وہ چاہتا ہے کہ آپ اسے حفاظتی تحویل میں لیکر کنٹونمنٹ میں قید کریں مگر جنرل صاحب نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا، جنرل صاحب کے مطابق مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور مارچ 6 اور 7 کے درمیانی رات 2 بجے شیخ مجیب نے پھر اپنے سفیر کو بھیجا اور اس بات پر زور دی کے شیخ مجیب کہہ رہا ہے کہ مجھے گرفتار کی جائے مگر جنرل صاحب نے واضح کہا کہ شیخ مجیب کو بتائے کہ اگر آپ نے 7 مارچ کے جلسے میں یو ڈی آئی کا اعلان کیا تو میں پوری طور پر فوج کو احکامات کرونگا کہ وہ جلسے کو برباد کریں، اور پھر شیخ مجیب نے جلسے میں یو ڈی آئی کے اعلان سے گریز کیا اور اپنے تقریر میں مغربی پاکستانیوں کو بھائیو سے قرار دیا، اور صرف چار قانونی مطالبے کئے کہ پوری طور پر مارشل لاء کو اٹھایا جائے، تمام فوجی جوان واپس بیرکوں میں چلے جائے، عوام کے منتخب نمائندوں کو پوری طور پر اقتدار منتقل کیا جائے اور آخری مطالبہ یہ تھی کہ تنازعہ کے دوران ہونے والے جانی نقصان کی شفاف تحقیقات کی جائے,, مگر اس کی مطالبات پر غور کرنے کے بجائے صدر یحییٰ خان نے ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ ان میں 3 لاکھ کو مار ڈالوں اور باقی ہمارے ہاتھوں سے کھالیں گے اور پھر 25 مارچ کو فوج نے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا جس میں لاکھوں بنگالیوں کو مارا گیا اور تقریباً 10 ملین مہاجرین ہندوستان فرار ہوگئے اس کے علاؤہ بنگال کے دانشوروں ماہر تعلیم کو سخت سلوک کا نشانہ بنایا گیا جس سے مشرقی پاکستان کے عوام میں اشتعال پیدا ہوگئی اور انہوں نے پاکستان سے آزادی کا اعلان کیا اور پھر وہ کڑوا گھونٹ ہمیں 16 دسمبر 1971 کو کرنا پڑا، مگر اب آتے ہے پاکستان کی موجودہ حالات کی طرف کیا ہم نے 71 سے کچھ سبق سیکھا ہے یا پھر 71 کی تاریخ کو دہرا رہے ہے کیونکہ ایک بار پھر ہماری حکمران ایک دوسرے سے کرسی اور اقتدار چھیننے کیلئے ملکی مفادات کو بھول گئے ہے وزیراعظم صاحب کی متحدہ اپوزیشن کی حالیہ تحریک پر ان کو حبردار کرنا جیلو میں ڈالنا اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت اور ملکی اداروں پر جو الزامات لگائے جارہے ہے، اور ایک بار پھر ملک میں جو سیاسی انتشار اپنی عروج پر ہے کیا یہ 71 کی تاریخ کو دہرانے کے مترادف نہیں ہے؟ اب بھی وقت ہے ہمارے حکمرانوں کو 71 کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے ورنہ پھر پاکستان پاکستان نہیں رہیگا اور ہمارا حال بھی عراق شام اور لیبیا کی طرح ہوگا اور پھر افسوس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں رہیگا۔۔۔

 
Abdul Sami Khan
About the Author: Abdul Sami Khan Read More Articles by Abdul Sami Khan: 8 Articles with 5411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.