قدرت کے بہت سے قوانین میں سے ایک قانون
زندہ چیزوں کے ساتھ ساتھ بے جان چیزوں پر بھی لاگو ہوتا ہے اس قانون کے
مطابق ہر چیز کو حاصل کرنے کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جب تک وہ قیمت ادا
نہ کی جائے،مطلوبہ چیز کا حصول تقریباًناممکن ہوتا ہے۔پھولوں کی ایک بیل
مہینوں میں پھیلتی ہے اُور مہنیوں قائم رہتی ہے جبکہ ایک درخت سالوں میں
تیار ہوتا ہے اُور سالوں اپنے سائے سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتاہے۔ قوموں کی
تعمیر بھی ایک عظیم مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول میں تو سیع کی بجائے
استحکام کے پہلو کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتاہے۔استحکام کے بغیر توسیع کی مثال
ایسے ہی ہے جیسے بنیاد کے بغیر کسی بھی مکان کی تعمیر۔
پاکستان موجودہ وقت میں بہت سے مسائل کا شکارہے۔ مسائل کے گرداب سے نکلنے
کیلئے حکومت پور ی کو شش کر رہی ہے۔سال 2020ء پاکستانی تاریخ کا ایک اہم
سال،جس کا اختتام بہت سی تبدیلیوں اور بدلتے رجحانات کے ساتھ ہو رہا ہے۔
نئی سوچ اور نئے نظام میں احتساب کے خدشات نے مملکت پاکستان کے مختلف
اداروں اُور حلقوں میں خوف، دہشت اور تذبذب کی کیفیت پیدا کر دی ہوئی ہے
چنانچہ اس نئی سوچ اور نئے نظام کو ناکام بنانے کے لئے تمام اداروں میں
شامل بدعنوان عناصر بشمول سیاسی و مذہبی قائدین کی فوج اُور حکومتی بس کے
مسافربھی اپنی پوری توانائیاں اُور وسائل استعمال کرتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔اُن گروہوں کا مقصد اپنی آل،مال اُور کھال کو بچانے کے لیے پاکستان میں
عدم استحکام اور بے یقینی کا پھیلاؤ ممکن بنانا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں
کہ اپوزیشن جماعتوں کی ٹاپ لیڈر شپ شدید ترین مالی بدعنوانیوں اُور اقرباء
پروری جیسے الزامات کی زد میں ہے اُور ان الزامات کے واضح اور ٹھوس شواہد
بھی موجود ہیں۔ بدمعاشیہ کی اس فوج میں مفلوج،کرپٹ،مجرم،ملزم،منی لانڈرز صف
اول میں نظر آتے ہیں جواس نئی سوچ اُور احتساب کے نئے نظام کو ملیا میٹ
کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ ان سب کا ہدف صرف اُور صرف عمران خان کی ذات ہے۔
عمران خان کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں اُور اس وجہ سے اپوزیشن جماعتیں
شدید دباؤ کا شکار ہیں۔اگر آج عمران خان کے ارادے متزلزل ہو جائیں تو ان کے
راستے آسان ہو جائیں گے کیونکہ حکومت کے اکثر اراکین تو دراصل "مانگے
تانگے"کے لوگ ہیں جو ہر دور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ان
سازشی عناصر کے لیے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار سیاسی، عدالتی اور فوجی
حکام میں تمام نازک اور مشکل فیصلوں میں اتفاق کا پایا جانا بھی باعث تکلیف
ہے۔عوام میں جاگتے شعور،سیاسی اُور فوجی قیادت میں ہم آہنگی اُور عالمی
دنیا میں پاکستان کی سر بلندی نے اپوزیشن جماعتوں کو موجودہ حالات میں ایک
دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کیا ہے۔ حقیقت میں قربت کی وجہ دو پارٹی لیڈران
کااپنی گردن بچانے کیلئے ساز باز کرنا اُور این آر اُو کی خواہش ہے۔پاکستان
کی موجودہ سیاسی صورتحال بظاہر سیاسی بحران کی نشاندہی کرتی ہے مگر حقیقت
میں عدم اعتما د اور بے یقینی کے عنصر نے اپوزیشن کے اتحاد کو زیر و کر دیا
ہے اُور ان سب کی بیان بازی اور دکانداری کا بازار، ٹی وی ٹاک شوز،پریس
کانفرنسزاُور جلسے جلسوں تک ہی محدود رہے گا۔سچی بات ہے کہ اپوزیشن جماعتوں
میں دم ہی نہیں جس کی وجہ سے یہ ملک میں کسی قسم کی تبدیلی کا پیش خیمہ
بنتے نظر نہیں آتے۔ اپوزیشن کا یہ اتحاد احتساب سے ڈرے ہوئے لوگوں کا ایک
گروہ ہے جہاں ملک و قوم کی فلاح و سلامتی کا کوئی ایجنڈا نہیں۔بلکہ اصل
مقصود اپنی ذات کے فرار کا نیا راستہ تلاش کرنا ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال
کی مثال ایسے ہی ہے جیسے جب بند کمرے کی صفائی کی جائے تو ابتدا ء میں خوب
گرد اڑتی ہے حتی کہ سانس لینا دوبھر ہوجاتاہے مگر جونہی گر د بیٹھتی ہے تو
سانس نارمل ہوجاتاہے اُور کمرہ پہلے سے زیادہ صاف دکھائی دیتاہے۔آج پوری
قوم کو "سب سے پہلے پاکستان"کے نعرے کے مطابق اپنے اردگرد کے ماحول کا
ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے دانشمندانہ فیصلے لیتے ہوئے مثبت کردار ادا کرنا ہو
گا تاکہ نہ صرف پاکستان مخالف قوتیں ناکامی کا منہ دیکھیں بلکہ ذاتیات
اُورانتشار کی سیاست کرنے والے سیاستدان بھی اپنے انجام کو جلد از جلد
پہنچیں۔ اس موقع پر ہر ہم سب کو ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار نہیں بننا۔ہمیں
دشمن اُور دوست کی پہچان کرنی ہے۔اب عوام کا مال لوٹنے والوں،ذاتی کاروبار
بڑھانے والوں،کمیشن کھانے والوں،بے نامی اکاؤنٹس والوں،ٹی ٹی ایز سے فائدہ
اُٹھانے والوں،دشمن سے راہ ورسم بڑھانے والوں،سلامتی کے اداروں پر جھوٹے
الزام لگانے والوں اُورعدالتی فیصلے نہ ماننے والوں کو بچانے ولا کوئی نہیں
آئے گا۔اگرچہ سازشی لوگ عوام کو بہکائیں گے، سبز باغ دکھائیں گے،نیا راگ
سنائیں گے مگر پاکستانی لوگوں کو اس بار دھوکے میں نہیں آنا اُور ملزموں کو
کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔پاکستانی قوم کے شعور کا یہ سفر اگرچہ صبر آزما،
طویل اور کٹھن ہے مگرمقصد کے حصول کیلئے لمبے عرصے کی محنت کرنا پڑتی ہے
مگرخوشی کی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنے ملک پاکستان کی بقاء کی خاطر
اس سفر کو طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس ضمن میں صرف اپنی ذات سے بالاتر
ہوکر پاکستان کی بقاء کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔کیا پاکستان اس وقت کسی
معرکہ آرائی کا متحمل ہو سکتا ہے؟۔کیا احتجاج اُور جلوس کی سیاست کرنے والے
ملک کی معاشی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں؟۔اب ذات کے بتوں کو توڑ نا ہوگا۔آئیں
فیصلہ کریں ”سب سے پہلے پاکستان“۔ |