آج کل لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے بہت پریشان نظر آتے
ہیں. ہر شخص یہ رونا روتے ہوئے پایا جاتا ہے کہ مہنگائی کو کم کرنے میں
حکومت ناکام نظر آرہی ہے. کچھ کے نزدیک حکومت میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ
مہنگائی پر قابو پائے. جبکہ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب حکومت جان بوجھ کر
کررہی ہے. لیکن کچھ دیوانے حضرات بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نا صرف
حکومت مہنگائی پر قابو پائے گی. بلکہ اس مہنگائی کی جڑ مافیا کی کمر بھی
توڑ دے گی. لیکن اس سب میں سب سے بڑا مسئلہ مافیا کی شناخت کا ہے. کیونکہ
وطن عزیز میں آج تک یہ مافیا پس پردہ کام کرتا آیا ہے.
لیکن اس حکومت کو اتنی داد تو بنتی ہے کہ انھوں نے کسی حد تک مافیا کو بے
نقاب کردیا ہے. گو کہ اس حکومت نے مافیا کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں
کی ہے. لیکن عوام کے سامنے مافیا کے بڑے نام ظاہر ضرور کردیے ہیں. بلکہ
عمران خان اپنی ہر تقریر میں ایک ہی لفظ مافیا کا راگ الاپتے ہوئے پائے
جاتے ہیں. لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس مافیا کے خلاف کوئی بڑا قدم نہیں
اُٹھا سکے. خیر خان صاحب ضد کے پکے ہیں. وہ مافیا کے خلاف کچھ کریں اس سے
قطع نظر وہ راگ ضرور الاپتے رہیں گے.
اس سب میں سب سے زیادہ نقصان عام عوام کا ہے جو کہ اس مافیا کی وجہ سے
مہنگائی سے دوچار ہیں. ضرورت زندگی کی ہر چیز آسمان سے گفتگو کر رہی ہے.
لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کو مزید مہنگا کر کے بیچنا اب ہماری عوام نے
سیکھ لیا ہے. یعنی میں بات کر رہا ہوں چھوٹے مافیا کی جو کہ مہنگائی کا
چورن بیچ کر مزید منافع کماتے ہیں . پہلے میں بھی آپ کی طرح یہ سمجھتا تھا
کہ یہ مہنگائی ہمیشہ اوپر سے نازل ہوتی ہے. یعنی اربابِ اختیار کی طرف سے،
لیکن جب میں نے مارکیٹ میں جاکر معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ بیشک مہنگائی
اوپر سے نازل ہوتی ہے. لیکن یہاں نیچے سے بھی اس مہنگائی کو مزید ایندھن
دیا جاتا ہے. یعنی عوام کو خود ساختہ مہنگائی کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے.
اس خود ساختہ مہنگائی کا ایندھن جلانے میں ہمیشہ عام عوام سے ہی لوگ شرکت
کرتے ہیں.
یعنی میں خود آپ کو ایک خود ساختہ مہنگائی کی سچی داستان بیان کروں گا. جس
کا محور ایک عام پھل فروش ریڑھی بان ہے . داستان کا آغاز ہوتا ہے ہم دوستوں
کے مشترکہ آن لائن ڈلیوری سروس کے کام سے، جس میں ہمیں پھل کے لئے کسی پھل
فروش سے بات کرنی تھی اور اس کو مارکیٹ سے کم ریٹ پر پھل کی خرید و فروخت
پر رضامند کرنا تھا. موصوف پھل فروش جن کا نام میں صیغہ راز رکھوں گا.ان سے
ہماری ڈیل ہوجاتی ہے اور وہ مارکیٹ سے کم ریٹ میں پھل فروخت کرنے پر راضی
ہوجاتا ہے. موصوف نے ہمیں جو ریٹ دیے تھے اس کے مطابق انار کی قیمت 200
روپے تھی اور انگور کا ریٹ 240 تھا.
ایک روز معمول کے مطابق ہم ان کے پاس آئے اور ان سے ایک کلو انار خریدے جس
کی قیمت 200 بنتی تھی لیکن ہمارے معاہدے کے نتیجے میں ہم نے دس روپے کم دے
کر حساب برابر کردیا. اب ہم اس کی ڈلیوری کے لئے نکل چکے تھے. نیز یہ ہوا
کہ راستے میں ایک جگہ ناقص پلاسٹک سے بنے شاپر نے جواب دے دیا اور اس کے
نتیجے میں ہمارے انار زمین پر گر گئے. انار کے نیچے گرنے سے ان کی شکل بھی
بگڑ گئی تھی. اس لئے دوست کی رائے کے مطابق ہم نے قریب ہی ایک پھل کے ٹھیلے
سے ایک کلو انار مزید خرید لئے. اب ہم نے خریدے گئے نئے انار مذکورہ شخص کے
حوالے کردیے. نیز پرانے انار واپس کرنے کی غرض سے واپسی پر اسی ریڑھی والے
کو گرے ہوئے انار واپس کردیے. اب اس جگہ کوئی اور شخص تھا غالباً جس سے ہم
نے بات کی تھی اس کا بھائی ہی ہوگا. اس نے ہمیں ان اناروں کی قیمت 150 روپے
واپس کردی. کیونکہ اسے اپنے بھائی کی کارستانی کا علم نہیں تھا. اس لئے اس
نے موجودہ ریٹ کو دیکھتے ہوئے مناسب رقم ہمیں واپس کردی. لیکن پھر ہم نے اس
کو اس کے بھائی کی فریب بازی کا بتایا اور اس نے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے
ہمیں ہمارے مکمل پیسے واپس کردیے. وہ دن اور آج کا دن ہم پھر اس پھل فروش
ریڑھی بان کے پاس نہیں گئے.اس کے بعد سے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی غلطی
کا ازالہ یوں کریں گے کہ روز مختلف پھل فروشوں سے ریٹ جمع کریں گے تاکہ
ہمیں حقیقی ریٹ کا تدارک ہوسکے اور مزید کوئی ہمیں فریب کا نشانہ بھی نہ
بنا سکے.
اس داستان سے آپ کو ایک چیز کا تدارک ہوگیا ہوگا کہ کیسے یہ چھوٹے کاروباری
افراد ہمیں فریب کا نشانہ بناتے ہیں اور مہنگائی کا نام لے کر مزید مہنگی
چیزیں ہمیں فروخت کرتے ہیں. خیر میں نے یہ داستان آپ کے سامنے اس غرض سے
بھی بیان کی ہے کہ آپ کو کبھی اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے. یہ تصویر
ہے ہمارے چھوٹے مافیاز کی جو کہ نظر نہیں آتے لیکن کام کرجاتے ہیں. لہذا اس
صورتحال میں اگر کوئی یہ کہے کہ حکمران چور ہیں یا کرپٹ ہیں تو یہ کہنے سے
پہلے اس کو چاہیے کہ وہ خود کو آئینہ میں دیکھ لے. کیونکہ حکمران تو عوام
کا ہی عکس ہوتے ہیں. حدیث پاک کے مفہومِ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے
عوام ویسے حکمران. لہذا شکوہ اگر کرنا ہے تو سیاست دان سے نہیں بلکہ خود سے
کریں.
یہی عمران خان جب 2013 میں بھلے لوگوں کے ساتھ الیکشن لڑتا ہے، تو عوام اس
کو نا امید کردیتی ہے. لیکن جب یہی عمران خان اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے
چند پرانے چہرے سامنے لاتا ہے تو یہی عوام اس کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچا
دیتی ہے. یہی وجہ ہے کہ وہ پرانے چہرے حکومت اور عوام دونوں کے لئے درد سر
بن جاتے ہیں. لیکن بد قسمتی سے عوام اور حکمران دونوں ان کے سامنے بے بس
نظر آتے ہیں. مجھے امید ہے کہ بذات خود ہم اپنے اندر انقلاب لائیں گے اور
یہ فریب کاری کو اتار پھینکیں گے. جس نے وطن عزیز کو ترقی کی راہ سے دور
کیا ہوا ہے. کیونکہ ہم بدلیں گے تو حکمران بدلیں گے اور اس کے ذریعے سے ہی
وطن عزیز میں حقیقی تبدیلی آئے گی.
شاعر نے بہت سادہ اور خوبصورت انداز میں عوام کو آئینہ دکھاتے ہوئے مہنگائی
کا شکوہ کرنے والوں کو جواب دیا ہے کہ ؛
یہ دور سخت کٹھن ہے مگر ضرور کہیں
ہے دوش اس میں برابر ہماری بستی کا |