فیری میڈو اور نانگا پربت میرا سیاحتی عشق ہے. یار لوگ
کہتے ہیں کہ عشق میں فصل ہی ٹھیک ہے، وصل نہیں. میرے عشق کی انتہاء دیکھیے!
کہ اب تک وصل کا سوال ہی نہیں، فصل ہی فصل ہے. ناننگا پربت اور فیری میڈو
میرے آبائی گاؤں گوہرآباد میں واقع ہیں مگر اب تک ان دونوں حسین مقامات کا
وصل نہیں ہوپارہا ہے. شاید ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں.کئی سال پہلے
بھائی غلام نبی رائیکوٹی سے بھی کہا تھا مجھے فیری میڈو لےچلیں. انہوں نے
کہا اپنا گھر کون پوچھ کر جاتا ہے. برادرم قاری رحمت اللہ سے بھی یہی کہا
تو انہوں نے ویلکم کہا. اپنے کالج کے پروفیسروں کیساتھ بھی پلان بنایا مگر
نہ جانے ہر بار کچھ عجیب سا کیوں ہوجاتا کہ جانےکی سبیل نہیں بن رہی ہے.
اب تک جی بی کے تین حسین اور مشہور مقامات کی زیارت سے محروم ہوں. وہاں کی
آزاد اور صحت افزا فضائیں مجھے بلا رہی ہیں. دمیل جا نہ سکا. فیری میڈو کا
پلان بنتے بنتے ٹوٹ جاتا ہے اور نلتر تو دو قدم پر ہے مگر نلتر کا حسن مجھے
اپنی طرف کھینچتے کھینچتے رہ جاتا ہے. بلکہ میں رہ جاتا ہوں. وہ تو صدیوں
سے وہاں کھڑا دعوت نظارہ دے رہا ہے.
مستنصر حسین تارڈ کی کتاب "نانگا پربت" خرید لیا ہے. پڑھنا شروع کیا تو
کھوگیا مگر اپنی محرومی پر ترس بھی آیا. لوگوں نے فیری میڈو اور ناننگا
پربت کےلیے کتنی مصیبتیں جھیلیں، پیدل سفر کیے اور تپتے پتھروں اور پہاڑی
راستوں پر جان جوکھوں میں ڈالا مگر ہم سفری عیاشیوں کے دور میں بھی محروم
ہی ہیں اب تک.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|