ہمارے دادا کے ایک چھوٹے بھائی صرف بائیس سال کی عمر میں
دو بار رنڈوے ہو چکے تھے ساتھ ہی دو بچوں کے باپ بھی تھے ۔ مگر پھر ان کی
تیسری شادی کبھی نہیں ہو سکی حالانکہ وہ پڑھے لکھے تھے اور سرکاری ملازم
بھی ۔ مگر اس کے باوجود ان کی کہیں بات نہیں بن سکی کم از کم کوئی بیوہ
مطلقہ یا عمر رسیدہ ہی انہیں مل جاتی مگر ایسا تک نہیں ہو سکا ۔ شاید ان کے
نصیب میں تیسری بیوی تھی ہی نہیں ۔
دادا کے ایک کزن اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد نرینہ تھے اور ان کی شادی کے
بائیس سال بعد پیدا ہوئے تھے ۔ ان سے بڑی کئی بہنیں تھیں کچھ شادی شدہ اور
بال بچے دار بھی تھیں ان کی سب سے بڑی اکیس سالہ بہن اس وقت پانچ یا چھ
بچوں کی ماں تھی ۔ اور وہ تمام بچے چونکہ رشتے میں ان کے بھانجے ہوتے تھے
تو وہ انہیں کچھ ادب اور کچھ لاڈ میں ماموں ہی کہتے تھے ان کا نام نہیں
لیتے تھے ۔ پھر یہ ننھے منے سے ماموں ذرا سیانے ہوئے تو ان کی دادی کو ان
کی شادی کا شوق چڑھا اور انہوں نے جیسے اپنی پوتیوں کو کم عمری میں بیاہا
تھا اسی طرح سے ان کی بھی بارہ تیرہ سال کی عمر میں ان کی ہم عمر ہی لڑکی
سے شادی کر دی ۔ دونوں میں بچپنا تھا آپس میں بنی نہیں چند ماہ بعد ہی طلاق
ہو گئی ۔ دادی نے پکڑ کر جھٹ ان کا دوسرا بیاہ رچا دیا یہاں بھی چند ماہ
بعد طلاق ہو گئی ۔ دادی نے ہمت نہیں ہاری اور وہ پندرہ سال کے تھے تو ان کا
ایک گیارہ سالہ بچی سے نکاح پڑھوا کر اسے رخصت کرا لائیں ۔ اور پھر اس کے
پانچ سال بعد ان کے ہاں بال بچوں کا سلسلہ شروع ہؤا اور یہ شادی مرتے دم تک
چلی ۔
اپنے خاندان کے بزرگوں سے ہم نے اس طرح کے قصے سنے تو حیرت بھی ہوئی اور
افسوس بھی ۔ بظاہر شریعت کی پیروی کے نام پر شادی جیسی اتنی حساس ذمہ داری
کو کچھ لوگوں نے کیسے گڑیا گڈے کا کھیل بنا رکھا تھا ۔ اگر ایسی بات نہیں
تھی تو دو بار طلاق کیوں ہوئی؟ اور وہ تیسری شادی جو کامیاب رہی تو ہم جیسے
کھڑوس دماغ کے نزدیک تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ یہاں لڑکی ایک انتہائی
غریب گھرانے کی یتیم یسیر بچی تھی جس کی پرورش اس کے چچا نے کی تھی جو کافی
عیال دار اور اتنے نادار تھے کہ شادی کے موقع پر انہوں نے بچی کو صرف ایک
سُوتی کپڑے کے جوڑے کے ساتھ رخصت کیا تھا اور نکاح کے موقع پر سوائے
چھواروں کے وہ کوئی اور بند و بست نہیں کر سکے تھے ۔ اور عین ممکن ہے کہ
انہوں نے بچی کو پہلے ہی باور کرا دیا ہو کہ دیکھو بیٹا! وہاں تم سے پہلے
دو کی واپسی ہو چکی ہے اس لیے تم سنبھل کے رہنا اور کچھ ایسا نہ کرنا کہ تم
بھی روانہ کر دی جاؤ ۔ شوہر اور سسرال والوں کی خدمت اور تابعداری میں کبھی
کوئی کمی نہ کرنا اب تمہارا جینا مرنا انہی لوگوں کے ساتھ ہے ۔ اور بیچاری
بن ماں باپ کی بچی یہی نصیحتیں اور تنبیہیں اپنے پلو میں باندھ کر لائی ہو
گی اور کچھ ہی عرصے بعد ذمہ داریوں کے جنجال میں جکڑ دی گئی ہو گی ۔
وہ بچی بیچاری تو اسی خوف کو ساتھ لیے جیتی مرتی ہو گی کہ دو کو اس سے
پہلے چلتا کیا جا چکا ہے تو پھر میں کیا چیز ہوں ۔ کس کس طرح سے اس نے اپنے
من کو مارا ہو گا اپنا آپ کچلا ہو گا تب جا کر سرخرو ہوئی ہوگی ۔ جب بھی یہ
واقعہ ذہن میں آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ دو لڑکیاں جو طلاق کا تمغہ جیت
کر رخصت ہوئیں پھر بعد میں ان کے ساتھ کیا بیتی ہو گی ان کا کیا بنا ہو گا؟
ذہن میں مختلف سوال ابھرتے ہیں جواب کوئی نہیں ملتا ۔
|