تقدیر میں تھا لکھا گذرنا اس امتحاں سے

‎ہماری نانی اماں آٹھ بھائیوں کی سب سے چھوٹی اور اکلوتی بہن تھیں ۔ مگر ان کا کوئی بھی بھائی طویل اور طبعی عمر کو نہیں پہنچا ، کوئی شیرخوارگی میں چل بسا تو کوئی بچپن یا لڑکپن میں تو کوئی نوجوانی میں ۔ آخر میں صرف ایک ہی بھائی بچا تھا تو وہ بھی جواں سالگی میں ہی رخصت ہؤا ۔ صرف نانی اماں ہی بڑھاپے کی عمر تک پہنچیں ، تو بس اسی مرنے جینے اور جنازوں کے ماحول میں اور اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ماں باپ کی بہت لاڈلی اور نازوں کی پالی تھیں ۔ دس گیارہ برس کی تھیں تو رواج کے مطابق ان کے رشتے آنا شروع ہو گئے جن میں سے کچھ دور دراز کے علاقوں کے بھی تھے ۔ نانی کے والدین کی خواہش تھی کہ کوئی گھر داماد مل جائے تاکہ بیٹی ہر وقت نظروں کے سامنے رہے ۔ مگر ایسا ممکن نہ ہونے کے باعث وہ بہت اچھے رشتوں کو بھی مسترد کرتے جا رہے تھے ۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بیٹی کو کم از کم پڑوس میں ہی بیاہ دیں ۔ پھر قسمت سے ایک مناسب رشتہ محلے سے ہی آ گیا اور یوں نانی اماں کا بارہ برس کی عمر میں بیاہ رچا دیا گیا اور ماں باپ نے سکھ کا سانس لیا کہ بیٹی زیادہ دور نہیں گئی ۔

نانا ابا اپنے وقت کے میٹرک پاس تھے مگر انہوں نے ملازمت کی بجائے اپنے ذاتی کام کو ترجیح دی تھی ۔ وہ بہت اچھے اور ماہر درزی تھے بعد میں وقت کے ساتھ وہ شیروانی کے ایکسپرٹ بن گئے تھے ۔ خیر جب شادی کو چند ہی برس ہوئے تھے اور چار بچے بھی ہو چکے تھے تو انہیں اپنے ہی میدان میں بہتر آمدنی کے حصول کے لیے اس زمانے کے حساب سے بہت دور شہر کراچی میں قسمت آزمائی کا ایک بہترین موقع مہیا ہؤا ۔ وہ اسے رد نہیں کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے جانے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے ساتھ ہی لے جانا چاہتے تھے مگر نانی کے والدین نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ تمہیں کیا ضرورت ہے اتنی دور جانے کی؟ یہاں چھوٹی جگہ پر بھی تمہارا کام اچھا ہی چلتا ہے اور ہم نے تو اپنی بیٹی کی شادی تم سے کی ہی اس لیے تھی کہ وہ ہم سے قریب اور ہماری نظروں کے سامنے رہے گی ۔ کہیں دور ہی بھیجنا ہوتا تو ہمیں رشتوں کی کیا کمی تھی جو تم سے زیادہ بہتر تھے ۔ جانا ہے تو تم خود ہی جاؤ ہم ہرگز بھی اپنی بیٹی تمہارے ساتھ نہیں بھیجیں گے ۔ اور یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ والدین نانی اور ان کے بچوں کو اپنے گھر لے آئے ۔ نانا بھی کچھ ضدی اور غصے کے تیز تھے انہوں نے بھی کسی کی ایک نہ سنی اور اکیلے ہی روانہ ہو گئے ۔

اور پھر حالات کچھ ایسے بنے کہ پھر نانا کبھی واپس نہ آ سکے ان سب تفصیلات کو حذف کرتے ہوئے ہم اپنی تحریر کا اختتام اس المیے کے ذکر پر کرتے ہیں کہ تقریباً آٹھ نو سال تک نانا اور نانی ایکدوسرے سے جدا رہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ اندوہناک و دلدوز صورتحال یہ ہوئی کہ اس عرصے کے دوران ان کی ایک بچی کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہو کر وفات پا گئی تھی جبکہ ایک بیٹا نانا کے جانے کے آٹھ ماہ بعد پیدا ہؤا تھا ۔ پھر بالآخر نانی کے ماں باپ نے انہیں ان کے شوہر کے پاس بھجوا دیا ۔ جن کی بے جا اور بے جواز ضد نے خود اپنی بیٹی کی زندگی اجاڑ دی تھی بچوں کو باپ کی زندگی ہی میں یتیم کر دیا تھا ۔ اس سارے قضیے میں یقیناً سب سے زیادہ مظلوم کردار نانی اماں کا ہے جن سے کسی نے پوچھا تک نہیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ ہر عورت اپنے خاوند کے ساتھ اس کے گھر میں رہنا چاہتی ہے مگر یہ بات نہ مرد سمجھتے ہیں نہ ماں باپ ۔ خیر اب تو کوئی بھی دنیا میں موجود نہیں ہے اللہ غریق رحمت فرمائے ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1679390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.