نواز شریف بیانیہ کی حمایت اور

قومی سوچ و فکر اور نظریہ کو پروموٹ کیا جائے تو اسکے اثرات ہرشعبہ زندگی میں محسوس ہوسکتے ہیں ۔بلکل ایسے ہی جیسے ہمارے معززسیاسی بڑوں کے حامی ،ووٹرز،سپورٹرزآنکھیں بند کرکے قائدین کی ہر بات ،ہردعویٰ پر مکمل یقین اور اپنی قیادت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے’’جذبات‘‘میں کسی بھی حد پرچلے جاتے ہیں ۔اس حوالے سے کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ہرسیاسی جماعت اپنی فلاسفی ،اپنے نظریہ کی عینک سے دیکھتی ہے۔سب کے اپنے اپنے اہداف ہیں ۔اس تفاق کہیئے یا کچھ اور ،ہمارے سیاسی جمہوری سرگرمیوں ،کوششوں و کاوشوں سے متعلق دعوے تو بہت ہوتے آئے ہین لیکن آج تک ان سے ریاست پاکستان کو چنداں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا ۔ یہ حقیقت ہے۔البتہ گروہی ،لسانی ،علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی اہداف ضرور حاصل کئے جاتے رہے اس سلسلے مین زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ سب جانتے ہیں ۔گزرے 73سالوں میں کب ،کس مرحلہ پر ملک میں کیا ہوتا رہا ہے ۔اب آتے ہیں ملکی حالات کی موجودہ ہنگامی خیزی کی طرف ۔جس طرح ماضی مین دو جماعتیں اقتدار مین آتی رہیں ۔بلکل اسی طرح اس بار عوامی ووٹ اور سپورٹ سے عمران خان اقتدار میں آئے۔مگرماضی میں زاقتدار پر براجمان رہنے والی جماعتوں کی صف اؤل کی قیادت تک سبھی نے فوج کا حمایت یافتہ ہونے کا طنزکرنے کیلئے لفظ ’’سلیکٹڈ‘‘متعارف کروایا۔تاہم براہ راست فوج کا نام لینے سے گفتگو میں گریزکیاجاتا رہا۔مگر کاریگر قوتوں نے اپنی شکست کابدلہ چکانے کیلئے جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیخلاف عدالت کا رُک کرکے ایک طرح سے بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ۔تو ساتھ ہی فوج میں اندرونی تفرق و امتیاز کا تاثر بھی اُبھارا جانے لگا۔حالانکہ پاکستان کی مسلح افواج اپنی پیشہ وارانہ قابلیت و مہارت کے عملی مظاہرہ کی بدولت دُنیا میں مانی جاتی ہیں ۔ آزادکشمیر کابینہ بھی نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کے حق میں تائید کے بیانات آئے ہیں ۔قرارداد بھی منظور کردی ۔حالانکہ آزادکشمیرکی حساس پوزیشن کا تقاضا یہی ہے کہ صرف ریاست پاکستان کیساتھ رشتہ رہے ۔نہ کہ کسی سیاسی سوچ و نظریہ سے وابستگی میں اس قدر آگے نکل جائیں ۔۔۔۔۔۔بہرحال آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی۔مگر توسیع پانیوالے جنرل باجوہ کی مذہبی وابستگی پرشکوک و شبہات پیدا کرنے والوں نے وقتی خاموشی ضرور اختیار کی ۔اور پھرمختصر وقت میں آپے سے باہر ہوگئے ۔یہ جو اچانک کسی نہ کسی جرنیل پرالزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔افغانستان مین امریکی فوج کے حشر کی مثال آئی ۔توایک رہبر ورہنماء نے میزائلوں سے متعلق بیان داغ دیا۔اور پھر وڈیو خطاب میں براہ راست جنرل باجوہ پرحملہ کردیا۔اسکے ساتھ ہی اب پی ڈی ایم کے جلسوں میں جو کچھ ہوا ۔وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔سنجیدہ حلقوں کاکہنا ہے کہ ایک خاص سیاسی قبلہ کی حمایت یافتہ آزادحکومت کے اقدام سے یہ بات مکمل طور پر واضع ہوگئی ۔کہ ریاست پاکستان کشمیرکا مقدمہ ہار نے لگی ہے ۔ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ سرکاری حیثیت میں مسلح افواج کیخلاف نواز شریف کے بیانیہ کی حمایت کی قرادادمنظور کی جاتی ۔یہ انتہائی الارمنگ پوزیشن ہے ۔سنجیدہ حلقوں کا دعویٰ سے یہ تاثر بھی سامنے آرہا ہے جیسے فوج مخالف مُہم کسی بڑی گیم کاحصہ ہے ۔ بڑا مقصدفوج کے سربراہ کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔اورساری صورتحال معمہ بنی ہوئی ہے۔ ڈانڈے براہ راست بھی اور اشاروں کنائیوں سے بھی ایک سے زائد جہگوں سے ملتے ہیں ۔ فوج کے سربراہ کو نشانہ بنانے ،فوج کو دھمکانے کے پیچھے کسی قوت /گروہ سے جوڑے جارہے ہیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملکی سیاسی قوتوں میں ہمارے پڑوسی ملک کا اثرو رسوخ بھی موجود ہے ۔جو یہ نہیں چاہتا ۔کہ سی پیک کی بیل منڈھے چڑھے ۔اس لئے پاکستان میں کئی اطراف سے گربڑ کی کوششیں جاری ہیں ۔اس ضمن میں فرقہ ارانہ گروپس کو آکسیجن کی فراہمی کی گئی ۔جنہوں نے فوری پیدا شدہ ماحول سے بھرپور فائدہ اُٹھایا ۔تاہم پھربھی درجہ حرارت کچھ زیادہ نہیں بڑھا۔اچانک سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل باجوہ کے حوالے سے ایسی خبریں آئین جو ہلچل پیدا کرنے کی ایک اور کوشش تھی ۔فوج کے سربراہ کو نام لیکر گالم گلوچ کا نشانہ تک بنایا گیا تو اب سابق سپیکرقومی اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔اپنے قائد کی فلاسفی کیمطابق مسلح افواج کو آڑے ہاتھوں لیا اور27فروی کو انڈین طیاروں کو گرائے جانے اور ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی کا معاملہ ’’فوج کی بزدلی‘‘قراردے ڈالا ۔اگرچہ بعد مین اُنھیں احساس بھی ہوگیا کہ کچھ زیادہ ہی بول گئے ہیں ۔مگر جوہونا تھا ہوچکا ۔انڈین میڈیا کو جیسے پر لگ گئے ۔پھر کیا تھا پاک افواج کے خلاف ہزرہ سرائی کا موقع کیسے ہاتھ سے جانے دیا جاتا ۔سنجیدہ حلقوں کے نزدیک ملک میں پچھلے مہینوں سے جو کچھ ہونے لگا تھا۔پاک فوج اسکے اثرات و نتائج کا مکمل ادراک رکھتی ہے ۔اس لئے کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں جنرل باجوہ نے خصوصی طور پرہائبرڈ وار کا ذکر کیا ۔حالیہ سالوں سے فورتھ ،ففتھ جنریشن وارکی بازگشت بھی سنائی دہی ہے ۔اور ہائبرڈ وار کی بھی ۔۔۔۔مگر اس طرز کی جنگ کے مراحل میں نشانہ صرف ایک ہی ہے۔کیوں؟؟اس کیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے دیکھتے ہیں ۔ملک کے انتظامی ادارے قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ سمیت دیگر سنگین جرائم سے متعلق مقدمات عدالتوں میں پیش کرتے ہیں تو وہاں مراحل مکمل کرکے الزامات ثابت ہونے پر سزائیں سنادی جاتی ہیں ۔مگر جنہیں سزائٰں سنائی گئیں ،اُنھیں پھولوں کے ہارڈال کر جے جے کار کی جاتی ہے ۔ایک طرح سے انتظامیہ و عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے ۔فیڈریشن پر عدم اعتماد کاکیا مطلب نکلتا ہے۔ ماضی کے سول لیڈرشپ کے پیدا کردے اسباب اوراُنکے نتائج کے اثرات سے نمٹنے میں فوج اور عوام نے بہت کچھ کھویا ہے ۔قربانیاں دی ہیں ۔اور قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ایسے حالات میں جب کوئی فوج کے سربراہ کے مذہب و عقیدہ اور توسیع کے تناظر میں کسی ہدف کیلئے ماحول سازگار کرنا چاہے ۔یا کسی طرز کے تعصب و تنگ نظری سے معزز و محترم ادارے بارے ہرزہ سرائی کرے ۔ایسا برداشت نہیں ہونا چاہیے ۔نہ ہی ہوسکتا ہے ۔ چونکہ پاک فوج کی چین آف کمانڈ اس قدر معیاری ہے کہ سنیارٹی پرآنیولا ہرجرنیل بطور چیف مثالی پیشہ وارانہ قابلیت کاحامل ہوتا ہے ۔۔لیکن ادارے کے متعین طریقہ کار سے ہٹ کرجتنی بار بھی فوج کے سربراہ کے انتخاب کیلئے سنیارٹی کو نظرانداز کیا جانا کوئی مستحسن اقدام نہیں قراردیا جاسکتا ۔کہ تاریخ گواہ ہے ۔سنیارٹی سے ہٹ کر انتخاب کرنیوالے ’’فیڈریشن‘‘کیساتھ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں تو پیچھے لائن میں موجود جرنیلوں کا حق بھی متاثر ہوتا ہے ۔

قارئن! کون نہیں جانتا ۔ریاست پاکستان کا دارومدار عدلیہ انتظامیہ ،مقننہ اور دفاعی اداروں کے آئین کے تحت متعین کردہ کردار کاخیال نہیں رکھا جائے تو ریاست پاکستان کے ادارے اس وجہ سے کچھ قوتوں کے نشانے پر ہیں ۔ عدلیہ ،انتظامیہ مقننہ کا کردار دعوؤں کے برعکس خودنہیں بولتا۔مثلاََتمام شواہد کے باوجود ایک خاتون کا بیٹا قتل کرنیوالے بری ہوجاتے ہیں ۔ایک خاندان سڑک پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ۔ایک ٹریفک پولیس اہلکار گاڑی چڑا کر شہید کردیا جاتا ہے ۔انتظامی اداروں کے غیرموثر کردارکیوجہ سے کوئی بھی کسی شہری ،فرد افراد یا گرہ پر سنگین نوعیت کا الزام لگا کرایف آئی آردلواسکتا ہے ۔بِلا تحقیق مقدمات کے اندراج سے شدت پسندی توبڑھتی ہے ۔مگر ساتھ ہی ریاست کاکمزور کردار سامنے آتا ہے ۔شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیالکوٹ کی ماں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو اپنے ہاتھوں گولی مارکر انصاف لیا۔جبکہ سڑک پر گولیوں سے بھون دئیے گئے بیگناہوں کے معاملے میں تحقیقات انصاف تک نہ پہنچ سکیں ۔وہ کم سن بچے زندگی میں اُس منظر کو فراموش نہیں کرپائیں ۔گے ۔جب پولیس فورس نے اُنکے والدین کو مارا ۔اور خود صاف صاف بچ گئے ۔اسی طرح ایک پولیس والا گاڑی ٹکرا کرشہید کردیا جاتا ہے ۔مگرذمہ دار، عدالت سے بری ہوجاتا ہے۔سنجیدہ حلقے سمجھتے ہیں کہ اسوقت ملک میں جس نوعیت ،جس انداز کے رحجانات پائے جارہے ہیں ۔سامنے کوئی بھی ہو۔وہ معنی نہیں رکھتا ۔اصل معاملہ ایسے طرز عمل کا ہے جوکلی طور پر قومی سلامتی کے منافی ہے ۔اس لئے بہترہوگا کہ اب انتظامی ادارے اور عدلیہ ٹانگوں میں جان ڈالیں ۔اور بعض جمہوریوں کی کرپشن و بدعنوانی ،لوٹ مار بارے نیب سمیت جتنے ادارے شواہد رکھتے ہیں۔مناسب انداز میں عدالتوں کے سامنے پیش کریں ۔اور اب تک جتنے فیصلے آچکے ۔بطور ریاست، عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے ۔نیز عدلیہ ،انتظامیہ ،قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کیخلاف زہریلے پروپگنڈؤں کو ٹھنڈے پیٹوں نہیں لیا جائے ۔کہ اب صورتحال ’’آگے کنواں ،پیچھے کھائی‘‘والی بن رہی ہے ۔بھاگنے والے تو بھاگ جائیں گے ۔اسوقت جس جس لبادے میں قومی اداروں کیخلاف سرگرمیاں منظم ہیں ۔ہوچکی ہیں یا مذید ہونی ہیں یہ سب زیادہ پاکستان کیخلاف دشمن کی جنگ ہے جسکے پیش منظر میں اپنے ہی لوگ ہیں جو سیاست و جمہوریت کے موجودہ نظام میں قابل ذکرہیں۔ انھیں دیکھ کرنتیجہ پرنہیں پہنچا جاسکتا ۔کیونکہ ایوب خان کے بعد دوسری بار فوج کے سربراہ کے بارے کچھ اور طرح کے نعرے لگنے لگے ہیں ۔اور تین بار وزیراعظم رہنے والی شخصیت بھی دشمن ملک کے میڈیا کو اچھا خاصا مواد مہیا کرچکی ۔یہی نہیں فوج کی سربراہی کا معاملہ بھی عدالت سے ہوکر اسمبلی میں جاکر نمٹایا جاچکا ۔اور فوج کے سربراہ کی توسیع سے بھی کچھ اثرات مرتب ہوئے ہونگے ۔اوراس کا عقیدہ بھی ابھی تک موضوع بنا ہوا ہے ۔اس لئے موجودہ بحرانی سورتحال کاپس منظرلازمی طور پرتوجہ طلب ہے ۔کہ کس کس کی ڈوریاں کہاں کہاں سے اور کون کون ہلا رہا ہے ۔جنہیں پاکستان میں رہنا ہے ۔پاکستان کیلئے جینا مرنا ہے وہ ’’قومی رائے عامہ ‘‘کو بچانے کی تدبیرکریں ۔اظہار رائے کی آزادی کا مطلب قطاََ یہ نہیں جو باور کیا گیا ہے ۔پاکستان کے سب ادارے قابل احترام ہین ۔آئین کے تحت ہر ادارے کی اپنی اہمیت و افادیت ہے ۔جو اسکے عمل سے ظاہر ہوگی ۔اور مسلح افواج کی طرح سارے ادارے اپنا کردار نبھانے کیلئے پُرعزم ہوجائیں تودُنیا کی کوئی قوت ’’فیڈریشن آف پاکستان‘‘کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔

Agha Safeer Kazmi
About the Author: Agha Safeer Kazmi Read More Articles by Agha Safeer Kazmi: 16 Articles with 10033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.