پاکستان میں سیلاب زدگان کیلئے
بین الاقوامی برادری کے بڑے بڑے دعووں اور وعدوں کے باوجود عملی طور پر
سرکاری سطح پر ایک ڈالر بھی وصول نہیں ہوا‘ اقوام متحدہ نے پہلے 90 روز
کیلئے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے 9 اگست کی عالمی برادری سے 500 ملین
ڈالر کے عطیات کی اپیل کی تھی‘ بعدازاں عالمی ادارے کو ڈونرز نے 800 ملین
ڈالرز کے عطیات دینے کا وعدہ کیا‘ اسی دوران اقوام متحدہ نے اس امر پر
تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان کے امیج کے باعث ڈونرز عطیات دینے سے ہچکچا
رہے ہیں۔اس امر کا اظہار اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک انگریزی ہفت
روزہ پلس نے اپنی حالی اشاعت میں کیا۔
حکومتی سطح پر بد انتظامی اور غبن کی کہانیاں مقامی اور بین الاقوامی سطح
پر گردش کررہی ہیں‘ نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز ( این جی اوز) کی امداد کی
تقسیم کے لئے سرگرمیاں کسی حد تک قابل اطمینان ہیں تاہم یہ امر باعث تشویش
ہے کہ این جی اوز امداد کا ایک حصہ رضا کاروں کی تنخواہوں اور دفتری
اخراجات کی مد میں خرچ کرلیں گی۔
حکومت پر بین الاقوامی اداروں اور ڈونرز کا اعتماد 2005 میں آنے والے زلزلے
کے بعد اس وقت مجروح ہوا جب پانچ سال گزرنے کے باوجود اس مد میں موصولہ
عطیات کو خرچ نہیں کیا گیا‘ حکومت زلزلے سے متاثرہ افراد میں امداد کی
تقسیم اور ان کی بحالی میں ناکام رہی‘ عالمی برادری کی جانب سے ملنے والی
رقم سے شروع کئے گئے منصوبوں کی قسمت ابھی تک غیر واضح ہے۔
2005ءمیں آنے والے زلزلے کے بعد انسانی بنیاد پر قومی اور بین الاقوامی سطح
پر بھاری امداد دی گئی ‘ مجموعی طور پر 6 ارب 20 کروڑ ڈالر کے وعدے کئے گئے
جبکہ ایک بھاری رقم بین الاقوامی این جی اوز کی خدمات کی مد میں ادا کی
گئی‘ حکومت پاکستان کو ملنے والی بقیہ رقم تعمیر نو اور ترقی کے لئے ایک
تعمیر نو اتھارٹی”ایرا“( ای آر آر اے) کے ذریعے خرچ کی گئی جوکہ اس وقت کی
فوجی افسران کو کھپانے کے لئے قائم کی تھی۔
اس اتھارٹی کو پر تعیش غیر ترقیاتی اخراجات‘ ٹریننگ اور سیمینارز پر سخت
تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں بھاری تنخواہوں کی مد میں لاکھوں ڈالر خرچ
کردیئے گئے ۔
عملی طور پر تعمیر نو اور بحالی کے کام غیر ملکی حکومتوں بشمول ترکی‘
جاپان‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات‘ نے انجام دیئے‘ اقوام متحدہ‘
امریکہ اور برطانیہ کی تنظیموں کو عملی اقدامات نہ کرنے اور اپنی توجہہ
ٹریننگ اور سیمینار پر مرکوز کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ یہ امر
قابل ذکر ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی انفرا اسٹرکچر بشمول
ارضیاتی دیکھ بھال‘ صحت‘ تعلیم‘ روڈ نیٹ ورک‘ واٹر سپلائی‘ صفائی کے
انتظامات ‘ فراہمی آب اور دیگر بنیادی سہولتیں تاحال زلزلے سے قبل والی
پوزیشن پر نہیں آئی ہیں۔
حال ہی میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے کنٹریکٹروں‘
مزدوروں اور سامان فراہم کرنے والوں کے ایک گروپ نے اپنے بقایاجات کی عدم
ادائیگی کے باعث اپنے علاقوں سے اسلام آباد تک مارچ کیا‘ آزاد کشمیر میں
تعمیراتی سائٹس پر تعمیراتی کام روک دیا گیاہے‘ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ
چاروں صوبوں میں زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے لئے بین الاقوامی برادری نے دل
کھول کر عطیات دیئے‘ انہوں نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور
بحالی کیلئے 5 ارب 80 کروڑ ڈالر کے عطیات دیئے۔
سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے دعویٰ کیا کہ امدادی رقم سے تباہی کو
مراعتوں میں بدل دیا جائے گا‘ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور
بحالی کے کاموں کیلئے متعدد ادارے بھی قائم کئے‘ ایرا اور سیرا (SERRA) دو
مرکزی ادارے تھے جنہیں تعمیر نو اور بحالی کی ذمہ داریاں سونپی گئیں تھیں۔
ان اداروں میں ملک بھر سے ہزاروں افراد کو بھاری تنخواہوں کے عوض ملازمتیں
فراہم کی گئی تھیں جبکہ انہیں قیمتی گاڑیاں اور پرتعیش رہائش گاہیں بھی دی
گئیں‘ تعمیر نو کے حصے کے طور پر 7928 ترقیاتی منصوبے ترتیب دیئے گئے‘ ان
میں سے 3847 تعلیم کے شعبے میں جبکہ بقیہ 4081 میں ماحولیات‘ گورننس‘
ہیلتھ‘ رہائش‘ بنیادی صحت یونٹس‘ پاور سیکٹر‘ سماجی تحفظ‘ ٹیلی مواصلات‘
ٹرانسپورٹ‘ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سے متعلق تھے۔
پہلے مرحلہ میں تعلیمی شعبہ میں 2819 منصوبوں کی منظوری دی گئی‘ حکومت
پاکستان کو 1881 منصوبوں کیلئے فنڈز فراہم کرنے تھے جبکہ 541 کے لئے براہ
راست ڈونرز کی جانب سے اور 397 کیلئے اسپانسرز نے فنڈز فراہم کئے ‘ حکومت
پاکستان کی جانب سے فراہم کئے گئے فنڈز سے صرف گزستہ پانچ برسوں کے دوران
صرف84 منصوبے مکمل ہوئے‘ ڈونرز کی کارکردگی غیر معمولی تھی‘ انہوںنے 541
منصوبوں میں سے 204 مکمل کئے جبکہ اسپانسرز کے فنڈز سے 203 منصوبے پایہ
تکمیل کو پہنچے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے فنڈز سے شروع ہونے والے 913 منصوبے اب
تک ڈیزائننگ کے مرحلے میں ہیں جبکہ حکومت پاکستان کے فنڈز سے شروع کئے گئے
884 منصوبوں کا 80 فیصد تعمیراتی کام مکمل ہے‘ احتجاجی کنٹریکٹرز کا کہنا
ہے کہ حکام تعمیر نو کی سرگرمیوں میں کم ادائیگیوں کے ذمہ دار ہیں جبکہ
انہوں نے تعمیر نوکے کاموں میں تیزی لانے کے لئے اسٹرا ٹیجی پر کوئی
نظرثانی نہیں کی‘ اس کے نتیجے میں تعمیر نو کی سرگرمیاں نتیجہ خیز نہیں
ہوسکیں۔
پانچ سال گزرنے کے بعد حکومت نے سیلاب کے باعث نئے منصوبوں کیلئے ٹینڈرز پر
پابندی عائد کردی ہے جبکہ جاری منصوبوں پر اپریل 2010 کیلئے ادائیگیاں نہیں
کی گئیں‘ واضح رہے کہ آزاد کشمیر میں قیامت خیز زلزلے کے باعث 95 فیصد
تعلیمی ادارے تباہ ہوگئے تھے‘ 4 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات بد ترین موسم
میں کسی شیلٹرکے بغیر اپنی تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہیں ایسی صورت میں
فنڈز منجمد کرنے سے ان علاقوں میں صورتحال مزید خراب ہوجائے گی‘ متاثرہ
علاقوں میں ان منصوبوں پر کام کرنے والے 360,000 سے زائد افراد بے روزگار
ہوجائیں گے جن میں انجینئرز‘ سب انجینئرز‘ مستری‘ اسٹیل فکسرز اور
کنٹریکٹرز شامل ہیں۔
آزادی کشمیر ڈسٹرکٹ ری کنسٹرکشن یونٹ کے ضلع پونچھ کو 50 کروڑ روپے کی
ادائیگی کرنی ہے جبکہ باغ میں کنٹریکٹروں کو تاحال 12 کروڑ روپے ادا نہیں
کئے گئے‘ اس طرح مظفر آباد میں 22 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگیاں باقی
ہیں‘ کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں تعمیراتی فرمس بقایاجات کی ادائیگی نہ
ہونے کے باعث سخت دباو میں ہیں‘ وہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہےں اور
کوئی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں۔
(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے) |