فلاحی ریاست میں امیروں کے ٹھاٹ

پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے مگر ریاست کے منظورِ نظر مصاحبین نے ”فلاح“ کے تصور کو مخصوص رنگ دے دیا ہے، جب کہ فلاحی پالیسیوں کے بیشتر فوائد عوام تک نہیں پہنچتے۔ ریاستی مصاحبین کے پاس بار کونسلوں کو نوازنے کے لیے تو بڑی رقم ہوتی ہے حالاں کہ یہ وکلاء کی پروفیشنل ایسوسی ایشنز ہیں جن کا اس معاشرے کے امیر طبقے سے تعلق ہے۔ اس کے برعکس ان کی جانب سے ملک کی لیبر یونینز یا کسان کونسلوں کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیبریونینز اور کسان کونسلز جاگیردار صنعتی ایلائٹ کے مفادات سے متصادم ہوتی ہیں، جب کہ یہ طبقہ اشرافیہ اس وقت ملک کے قانون ساز ہاؤسز میں براجمان ہے۔

اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ جریدہ پلس کے مطابق حکومت ہر سال پی آئی اے کو بھاری سبسڈی فراہم کرتی ہے کیوں کہ اس کے آپریشن سے مستفید ہونے والے افراد کی اکثریت امیر طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے برخلاف عوام کے زیرِ استعمال سفری ذرائع سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کے نتیجے میں سرکاری کنٹرول میں چلنے والی اومنی بس سروس بند ہوچکی ہے، جب کہ ریلوے سروس بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اس ملک کا غریب طبقہ برس ہا برس رقم پس انداز کرتا ہے تاکہ حج کے موقع پر فریضہ حج کی ادائیگی کرسکے، تاہم پی آئی اے اپنے کم چلنے والے روٹس پر ہونے والے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حج کے کرائے بڑھا دیتی ہے۔ یہ صورتِ حال امیروں کو نوازنے کے لیے غریبوں کو لُوٹنے کے مترادف ہے۔

اپنا مکان اب تک ملک بھر میں ہر خاندان کا خواب ہے، تاہم اس فلاحی ریاست میں بیشتر حکومتیں بالخصوص مطلق العنان حکمرانوں کے تحت چلائی گئی انتظامیہ عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پریشان نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ہاؤسنگ کی قلت بڑھ کر 80,00,000 یونٹس ہوگئی ہے، جب کہ 1998ءمیں ملک میں پہلے ہی 43 لاکھ یونٹوں، جب کہ 1980ءکی دہائی میں 25 لاکھ یونٹوں کی کمی تھی۔ شہری علاقوں کی جانب تیز رفتار نقلِ مکانی اور آبادی میں اضافہ کے باعث ملک میں سالانہ 700,000 مکانات کی ضرورت ہے۔ جب کہ اس کے برخلاف سالانہ صرف 200,000 کے لگ بھگ مکانات تعمیر ہورہے ہیں۔

ہاؤسنگ کی طلب میں ہر سال ہونے والے اضافے کے باعث کالونیوں اور مضافاتی علاقوں بالخصوص مرکزی شہری مراکز اور میٹروپولیٹن ٹاؤنز جہاں بہت سے خاندان صرف ایک کمرے کے شانتی لاجز میں رہنے پر مجبور ہیں، وہاں زمینوں پر قبضے کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ عمومی طور پر مضافاتی علاقوں میں رہنے والوں کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انہیں بالخصوص پانی، بجلی، گیس، صفائی ستھرائی، نکاسیِ آب اور سب سے بڑھ کر خصوصی ہیلتھ کیئر اور تعلیم کی سہولت حاصل نہیں۔ مضافاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ گنجان آبادیوں میں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق پاکستان کی 20 فیصد شہری آبادی مضافاتی بستیوں میں رہ رہی ہے، جہاں بنیادی انسانی ضروریات میسر نہیں۔

اقتصادی ترقی کے ایک اہم محرک کی حیثیت سے تعمیرات اور ہاؤسنگ کی صنعت دنیا بھر میں مجموعی قومی پیداوار میں 10 سے 12 فیصد کی حصہ دار اور 7 فیصد افراد اسی صنعت میں ملازمت کررہے ہیں۔ ایک جانب تو اس صنعت سے بھاری تعداد میں ملازمتیں تخلیق ہوسکتی ہیں تو دوسری جانب 40 کے لگ بھگ دوسری صنعتوں کو معاونت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح یہ صنعت ایک جانب تو اقتصادی ترقی کے لیے کردار ادا کرتی ہے تو دوسری جانب غربت کے خاتمے میں بھی معاون ہے۔

پاکستان میں رِیِل اسٹیٹ کا شعبہ اور تعمیراتی صنعت جس نے 2001ءسے 2008ءتک بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا، اس میں عالمی اقتصادی سست روی کے باعث 2008-09ءکے درمیان 10.8 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اسٹیٹ بینک کی مذکورہ مالی سال کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 37 برسوں کے دوران یہ اس شعبہ میں سب سے بڑی کمی تھی۔ مالی سال 2008-09ءکے پہلے 8 ماہ کے دوران تعمیراتی میٹریلز کی قیمتوں میں ہونے والے انتہائی اضافے اور پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) فنڈز کی تقسیم میں کمی اور ناکافی مالی سہولیات کے باعث تعمیراتی سرگرمیاں بالکل ٹھپ ہوگئیں۔

اسی اثناءمیں سیمنٹ کی مقامی ضروریات جو کہ مالی سال 2007-08ءمیں 22.4 ملین ٹن تھیں وہ 2008-09ءمیں گر کر 19.4 ملین ٹن پر آگئیں۔ دوسری جانب آئرن اسٹیل کی پیداوار اس مدت میں 8.238 ملین ٹن سے کم ہو کر 5.975 ٹن ہوگئی۔ آئرن اور اسٹیل کی درآمد 2.22 ملین ٹن سے کم ہو کر 2.04 ملین ٹن رہ گئی۔ اس شعبہ میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری بھی شدید متاثر ہوئی جو اسی مدت کے دوران 193.2 ملین امریکی ڈالر سے کم ہو کر 130.4 ملین امریکی ڈالر ہوگئی۔

تعمیراتی سرگرمیوں میں کمی کا براہِ راست اثر غیر ہنرمند لیبر فورس کی ملازمتوں اور غربت میں کمی کی شرح پر منفی طور پر مرتب ہوا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مالی سال 2007-08ءمیں ملک کے تعمیراتی شعبے میں 33 لاکھ افراد ملازمتیں کررہے تھے۔.

(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے)
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77885 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More