پاکستان میں جاننے والوں میں ایک لڑکی ہوتی تھی جس کا
تعلق کسی دوسرے مذہب سے تھا ۔ شہر کے ایک بڑے اور معروف اسپتال میں بطور
اسٹاف کام کرتی تھی ۔ دوران ملازمت ایک مسلم کولیگ سے راہ و رسم بڑھ گئی جو
پہلے پسندیدگی پھر محبت میں ڈھل گئی ۔ دونوں نے آپس میں شادی کا فیصلہ کیا
اور گھر والوں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ دونوں ہی طرف کے یعنی لڑکے اور
لڑکی کے گھرانوں میں ایک ہنگامہ مچ گیا ۔ دونوں کے گھر والوں نے انہیں گھر
سے نکال دینے اور قطع تعلق کر لینے کی دھمکی دی ۔ وہ کسی صورت اس شادی پر
آمادہ نہیں ہوئے مجبوراً لڑکا اور لڑکی نے جا کر کورٹ میرج کر لی ۔ لڑکی نے
اسلام قبول کر لیا تھا پھر دونوں ایک کرائے کے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے ۔
چار دن کی چاندنی کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو انہیں اپنی مرضی کی
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دونوں کماتے
تھے انہیں معاشی مسائل کا سامنا نہیں تھا ان کا مقابلہ معاشرتی رویوں سے
تھا ۔
لڑکی اور لڑکے دونوں کے گھر والوں نے ان سے قطعی لا تعلقی کا اعلان کر دیا
تھا اور گھر پر قدم بھی رکھنے کی صورت میں ان کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی
دی ۔ ان ہی حالات میں ایک بیٹا بھی ہو گیا مگر دونوں میں سے کسی کے بھی گھر
والوں کا دل نہ پسیجا وہ بدستور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھے ۔ بلکہ دونوں کی
پوری برادری نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا تھا ۔ لڑکا اس صورتحال سے بےحد آزردہ
ہؤا عشق کا نشہ ہرن ہو چکا تھا ۔ اس سے اپنے گھر والوں کی جدائی اور
بےاعتنائی سہی نہیں جا رہی تھی ۔ اسی کرب سے لڑکی بھی گذر رہی تھی مگر وہ
بہت باہمت تھی ۔ بزدل لڑکے نے ایک روز اسے طلاق نامہ تھمایا اور چلتا بنا ۔
اپنے گھر پہنچا اور اپنا کارنامہ بیان کیا گھر والوں نے بڑھ کر اسے اپنے
گلے لگا لیا ۔ لڑکی بھی روتی پیٹتی اپنے گھر پر پہنچی وہاں بھی اسے اس کے
بچے سمیت بخوشی قبول کر لیا گیا اور اسے اپنے مذہب میں واپس داخل کر لیا ۔
پھر صرف ڈیڑھ دو سال بعد لڑکے کے گھر والوں نے اپنی مرضی اور پسند سے اس کی
دھوم دھام سے شادی کر دی ۔
لڑکی کی کئی سالوں تک دوسری شادی نہیں ہوئی تھی بیٹا بھی اسی کے پاس تھا
پھر اس کے بعد کی ہمیں خبر نہیں کہ آگے کیا ہؤا؟ لڑکی کا کہنا تھا کہ
قربانی تو میں نے دی تھی اس کی خاطر اپنا مذہب چھوڑا تھا ۔ اسے تو میری وجہ
سے اپنا مذہب نہیں چھوڑنا پڑا تھا ۔ میں تو زندگی کی ہر مشکل ہر آزمائش میں
آخری سانس تک اس کا ساتھ دیتی مگر وہ تو رشتہ ہی توڑ کر چلا گیا ۔ میں تو
اس کے لیے اپنی جان بھی دے دیتی مگر اس نے آزمایا ہی نہیں ۔
|